کورونا کا شور کون مچا رہا ہے؟


کورونا کا خطرہ سب کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون متاثر ہو گا اور کون بچے گا۔ اور جو متاثر ہو گا اس میں کون کس سٹیج تک جائے گا۔ کورونا سکریننگ یونٹ میں کام کرتے ہوئے ایک بات کا جواب مِل گیا ہے کہ کورونا میں ایسی کیا خاص بات ہے جس سے ساری دنیا اتنی ڈری ہوئی ہے۔

بحیثیتِ ڈاکٹر ایک بات تو میں کلیئر کر دوں کہ کورونا اتنا خطر ناک نہیں ہے جتنا دنیا میں ہنگامہ مچا ہے۔ اس کی خطرناک بات صرف اتنی ہے کہ یہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ لیکن اموات کی شرح باقی موذی امراض کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ ٹی بی شرح اموات 11 فیصد، ٹائیفائیڈ شرح اموات 9 فیصد، ملیریا شرح اموات 7 فیصد، ڈینگی شرح اموات 11 فیصد، کورونا شرح اموات 3۔ 4 فیصد۔ لیکن آج تک ڈینگی کی ویکسین تیار کرنے کے لیے نا ڈبلیو ایچ او نے کوئی گرانٹ دی ہے نا کسی گورنمنٹ نے اور نا ہی کسی یونیورسٹی کے ڈاکٹر، پروفیسر نے خود دلچسپی لی ہے۔

ہر سال پاکستان میں ڈینگی کچھ علاقوں میں وباء کی طرح پھیلتا ہے اور کافی ساری جانیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اس کا علاج ہم آج تک یہی کرتے ہیں کہ پے درپے سفید خون مریض کو لگاتے جاتے ہیں۔ بخار کو دوائیوں کے ذریعے کم رکھتے ہیں اور مریض کی قوتِ مدافعت خود ہی ڈینگی وائرس سے لڑ لیتی ہے اور مریض کچھ دن بعد ٹھیک ہو جاتا ہے۔

دنیا میں کورونا کا شور مچنے کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور میرے خیال میں یہ وجہ کورونا کی خاصیت کہلائی جا سکتی ہے۔ اور وہ خاصیت یہ ہے کہ کورونا غریب اور امیر کو ایک جیسا متاثر کرتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ اموات دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوئی ہیں۔ کورونا کا وار سب سے بڑی معیشتوں پر ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا آج گھروں میں بند ہے۔ اوپر ذکر کی گئی امراض میں سے ایسی ایک بھی بیماری نہیں ہے جو امراء کو متاثر کر سکے۔

ٹی بی چھوٹے گھروں میں زیادہ لوگوں کے رہنے کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ جہان ایک کمرے کے مکان میں سات آٹھ یا زیادہ لوگ رہیں گے وہاں ٹی بی بہت آسانی سے پھیلے گا۔ اور ایسا صرف غریبوں میں ہوتا ہے۔ تو یوں سمجھ لیں کہ ٹی بی غریب کی بیماری ہے۔ ڈینگی اس کو لگے گا جس کو ڈینگی مجھر کاٹے گا اور سب جانتے ہیں کہ ہمارے مچھروں کی اتنی اوقات نہیں ہے کہ کسی بڑے فارم ہاؤس یا حویلی میں گھس کر وہاں کے مکینوں کو کاٹ سکیں۔

یہی حال ملیریا اور لیشمینیا کا بھی ہے۔ یہ دونوں بیماریاں بھی مچھروں کے کاٹنے سے پھیلیں گی۔ ٹائیفائیڈ ایک بیکٹیریا سے پھیلتا ہے جوزیادہ تر پانی میں رہتا ہے۔ یہ اس بندے کو لگے گا جواس پانی کو پیے گا جس میں وہ جراثیم موجود ہوں۔ منرل واٹر او کلورین ملے پانی میں یہ نہیں پایا جاتا۔ تو سمجھ لیں کہ ٹائیفائیڈ بھی غریب کی بیماری ہے۔ اس طرح موذی امراض کی ایک لمبی لسٹ ہے جو خطرناک ہے لیکن نا کسی حکومت کو اس کی فکر ہے نا کسی اور کو۔

وجہ یہ کہ مرنے والا ایک غریب آدمی ہوتا ہے۔ چونکہ کورونا نے امیر غریب کا فرق مٹا کر سب کو ایک صف میں کھڑا کر دیا ہے اس لیے اس پرہر طرف ایک ہنگامہ مچ گیا ہے۔ کبھی آپ نے سنا ہے کہ کسی ملک کے وزیرِ اعظم کو ٹی بی ہو گیا ہے یا پھر کسی وزیر کو ٹائیفائیڈ کی وجہ سے ہسپتال داخل کرانا پڑا۔ یا پھر ڈینگی لے لیں جس سے ہر سال ہمارے ملک میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگ ضرور جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی کیوں مچھرکسی کمشنر، کسی سیکرٹری کو نہیں کاٹتے نا ان کی اوقات ہے کہ وہ عدالت کی دیوار پھلانگ کر ملک کے منصفوں کوازخود نوٹس لینے پر مجبور کر دیں۔

اتنی ہمت صرف کورونا نے دکھائی ہے جس نے دِکھا دیا کہ اس ملک میں بہتر سالوں میں صرف دو ہزار وینٹیلیٹر خریدے گئے ہیں، جس نے دکھا دیا کہ کسی ایک جگہ پر آکر غریب اور امیر ایک برابر ہو سکتے ہیں۔ جس نے دکھا دیا کہ بیماریاں صرف غریبوں کی جان لینے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ کچھ بیماریاں جاگیردار، کارخانے اور منرل واٹر پینے والوں کو بھی لگ سکتی ہیں۔

کورونا سکریننگ میں کام کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ میرے ملک کا امیر آدمی کورونا سے بہت ڈرا ہوا ہے بہ نسبت غریب کے۔ اور یہ ٹھیک بھی ہے۔ کورونا سے تو امیر کو ڈرنا بھی چاہیے۔ غریب کیوں ڈرے گا۔ اس کے ارد گرد تو پہلے ہی موذی امراض کا ایسا حصار ہے کہ اس دائرے میں کورونا کی جگہ مشکل سے بنتی ہے۔ وہ پہلے ٹی بی، ملیریا، ٹائیفائیڈ اور ہر سال پھیلنے والی ڈینگی سے بچے گا تو بعد میں کورونا کی باری آتی ہے۔ میں نے اس ملک میں ایسے مریض دیکھے ہیں جن کے پاس پیناڈول کی ایک گولی خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہوتے۔

وہ موذی امراض میں مبتلاء ہوتے ہیں تو اسی میں ایڑیاں رگڑ کر مر جاتے ہیں لیکن علاج نہیں کرپاتے اور ایسا ٹی بی کے مریضوں میں زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ ٹی بی کا علاج کافی لمبا ہوتا ہے۔ میرے ملک کے غریب کو کورونا سے اتنا فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ اگر وہ کورونا سے بچ بھی گیا تو بھوک سے مر جائے گا۔ اگر وہ بھی نہیں ہوا تو آنے والے چند مہینوں میں کوئی نا کوئی ڈینگی مچھر اس کو کاٹ لے گا اور اگر خوش قسمتی اور اپنی ڈھٹائی سے اس سے بھی بچ گیا تو بیکٹیریا ملا پانی پینے سے تو بالکل ہی نہیں بچ سکتا۔

فرق تو ان کو پڑے گا اور پڑ رہا ہے جو منرل اور کلورین ملا پانی پیتے ہیں، جو ڈینگی پروف مکانوں میں رہتے ہیں، جن کے پاس زکام اور کھانسی کے لیے باہر ممالک جانے کے پیسے ہیں اور جنہوں نے اس ملک کے پیسے سے بہتر سال میں صرف دو ہزار وینٹیلیٹر خریدے۔ اور یہ اتنا ہنگامی شور اسی لیے ہے کہ اب پیسے اور اختیارات رکھنے والوں کو بھی فرق پڑ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments