بینک نقشے نہیں بناتا


\"wajahat1\"تو صاحبو، سانحہ یہ ہوا کہ حادثہ ٹل گیا۔ ملٹن کی جنت گم گشتہ کا منظر ہے۔ چوٹ کھائے فرشتوں کے دستے میدان میں دور دور تک پڑے ہیں۔ کوئی گھٹنا سہلا رہا ہے تو کوئی ٹٹول کر ناک، کان، آنکھ کی سلامتی معلوم کر رہا ہے۔عجیب ڈرامائی منظر تھا کہ عظیم رہنما نے تقریر دلپذیر میں وقفہ دیا اور پہاڑی پر پش اپس لگانا شروع کر دیے۔ اس میں فرائیڈ کی نفسیات بھی موجود تھی اور مارکس کی تاریخی جدلیات کے اشارے بھی۔ دو نومبر گزر گیا۔ کوئی دس روز پہلے یہی سوال پڑھنے والوں کے سامنے رکھا تھا کہ دو نومبر کے بعد آئین کی عمل داری چاہئے یا نہیں؟ اس کا ایک نہایت خوش آئند جواب عدالت عظمی نے دیا ہے۔ ایک جواب برادر بزرگ نے دیا ہے جو کہتے ہیں کہ ملک کو کاغذ کے کسی ٹکڑے نے نہیں، اسٹیبلشمنٹ نام کے ایک معجزے نے متحد رکھا ہے۔ ما را از ایں گیاہ ضعیف ایں گماں نبود۔ جو ملک ایک کاغذ کے ٹکڑے، یعنی ووٹ کی طاقت سے حاصل کیا گیا اور جو ملک کاغذ کی ایک دستاویز یعنی دستورکے نہ ہونے کے سبب دو لخت ہوا، اس ملک کو کاغذ کے ٹکڑے سے بے نیازی کا درس دیا جا رہا ہے۔ حضرت اقبال نے ایاز امیر ہی سے کہا تھا، تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں۔

برادر بزرگ تو ٹوٹے ہوئے پیمانوں سے پارلیمانی نظام اور صدارتی نظام کا ادغامی مجسمہ تیار کرتے رہیں گے، ہمیں عدالت عظمیٰ پر اعتماد کرنا چاہئے۔ ہماری سیاست، پارلیمنٹ اور انتظامیہ کی طرح عدلیہ نے بھی ایک طویل اور پر پیچ سفر طے کیا ہے۔ عدالت کے کمرہ نمبر ایک سے قانون کی شاہراہ کی طرف پکار پڑی ہے۔ سازش کی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیاں تو گڑھوں، غاروں اور کھائیوں کی طرف لے جاتی ہیں۔ اصول کی شاہراہ پر منزل معلوم ہوتی ہے۔ پوچھنا چاہئے کہ ہم نے سستے نعروں کے اتوار بازار میں کیا خریدا؟ ہمیں ایک ممکنہ غدار کا نام معلوم ہوگیا جو کسی غیر مرئی طریقے سے محب وطن اور غدار عناصر کی مشترکہ جائے پناہ میں پہنچ گیا ہے۔ نااہلی اور غفلت کا ایک نشان بھی ہم نے دریافت کیا ہے اور وزارت کا قلم دان اس سے واپس لے لیا ہے۔ قلم کی قسم ہے، سازش کا یہ حاصل ہر گز مقصود نہیں تھا۔ انصاف کی کیا اچھی صورتیں ہم نے دریافت کی ہیں، اوجڑی کیمپ کی سزا جونیجو کو ملے، کارگل کی سزا نواز شریف کو دی جائے، اسامہ بن لادن کی سزا حسین حقانی کو بھگتنا پڑے اور سیرل المیڈا کی فرد جرم پرویز رشید کے گلے میں لٹکا دی جائے۔

انگریزی کا ایک لفظ ہے ویژن (vision)۔ ٹھیک اردو اس کی معلوم نہیں، مفہوم جانتا ہوں۔ یہ بصیرت کہ موجودہ حالات کیا ہیں، ہمارے وسائل کیا ہیں، موجودہ حالات اور دستیاب وسائل کی مدد سے پانچ برس بعد کہاں پہنچنا ہے، دس برس بعد کیا بہتری لانا ہے اور کون سی الجھن کو کب تک سلجھا کر آنے والی نسلوں کے سپرد کرنا ہے۔ سازش کا خچر ادبدا کر بند گلی کی طرف بڑھتا ہے۔ بند گلی میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پانچ، دس اور پچاس برس بعد کا نقشہ بنایا جاسکے۔ اختر حسین جعفری کا خوبصورت مصرع ہے، شاہی کا سازش سے رشتہ بہت پرانا ہے۔ شاہی میں فکر کی آخری حد یہی ہوتی ہے کہ ولی عہد کس بطن سے اور کب جنم لے گا۔ ولی عہد کا ظہور خواب گاہ سے ہوتا ہے اور خواب گاہ میں سازش کی نقب لگائی جاتی ہے۔ جمہوریت کے سوال کچھ زیادہ وسیع اور روشن ہیں۔ ریاست کیسی ہو گی، باہم مل کر رہنے کا بند و بست کیا ہو گا اور معیشت کی کیا صورت ہو گی۔ برادر بزرگ سے بار بار اختلاف اچھا نہیں لگتا لیکن بھائی کو بھی چھوٹوں پر شفقت کرنی چاہئے۔ جان لینا چاہیے کہ قوموں کا مقام تلوار سے نہیں، تعلیم سے متعین ہوگا۔ تعلیم کے میدان میں ترقی کے لئے علم کی تخلیق میں بھی شریک ہونا پڑے گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم قلعہ بند ذہن کے ساتھ پرانے خیالات کا دفاع کرنے کی بجائے حوصلہ مند دل و دماغ کے ساتھ علم اور ہنر کی نئی زمینیں دریافت کرنے نکلیں۔ یہ نئے زمانے کی فتوحات کا راستہ ہے۔ علم کی تخلیق میں ہم حصہ ڈالیں گے تو ہمارے پاس بھی دنیا کو کچھ دینے کے لئے ہوگا۔ ہمیں دھتکارنا آسان نہیں ہوگا۔ ہماری شعری روایت میں میر تقی نومیدی کا لفظ استعمال کرتے تھے، اقبال نے جستجو کی تلقین کی۔ نا امیدی کی انفعالیت تو فانی بدایونی کے حصے میں آئی تھی۔ عشق عدم تحفظ اور خود ترسی کے احساس کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ اس کے لئے آرزو کی شفافیت کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ریاست کا استحکام آئین کی اہمیت سے جڑا ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے لئے جمہویت سے انحراف کا امکان مسترد کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک اتفاق ہو تو معیشت کی خبر لی جاتی ہے۔ معیشت کو سنبھالنے کے لئے دولت پیدا کرنا پڑے گی، بھلے صنعت کے میدان میں قابل فروخت مصنوعات تیار کی جائیں یا درس گاہوں میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے نوجوان تیار کئے جائیں۔ دنیا کی معیشت گاؤں کا کچا راستہ نہیں، جہاں بے فکرے نوجوانوں کی ٹولیاں ہماری بند گاڑی کو دھکا لگا کے اگلے گاؤں چھوڑ آئیں۔ معیشت کا ایندھن تو اندر کی آنچ سے چلانا ہوگا۔ ایک واقعہ مزے کا الطاف گوہر روایت کرتے تھے۔ ڈھاکہ میں اعلیٰ سطح کا ایک اجلاس تھا۔ سٹیٹ بینک کے گورنر زاہد حسین تشریف رکھتے تھے۔ مشرقی پاکستان کے فوجی کمانڈر جنرل ایوب خان بھی موجود تھے۔ ایوب خان نے زاہد حسین سے مخاطب ہو کر کہا، گورنر صاحب، آپ کا بینک یہاں کوئی اچھا نقشہ نہیں بنا پایا۔ ایوب خان تو چھاؤنی کے لب ولہجے میں بات کرتے تھے۔ نقشے سے ان کی مراد بینک کی مجموعی صورت حال تھی۔ زاہد حسین نے چمک کر کہا کہ جنرل صاحب، بینکوں کا کام نقشے بنانا نہیں۔ کیسا اچھا درس دیا تھا۔ سمجھ لینا چاہئے کہ اطلاعات کے وزیر کا کام خبر رکوانا نہیں، سیاسی قیادت چھاؤنی میں تیار نہیں کی جاتی، بینک نقشے نہیں بنایا کرتے۔ یہ نقشہ تو آئین میں دیئے گئے خطوط کے مطابق ہی بنانا پڑے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments