ڈنڈے نے عقیدت کو شعور میں بدل دیا


\"shakoorواپسی کا اعلان ہوا تو مظاہرین ٹولیاں اور گالیاں بکھیرتے ہوئے منتشر ہونے لگے۔ سسٹم کے خلاف نعرے لگاتا ایک نوجوان انقلابی جوش میں مدہوش ہوا جا تا تھا۔ وہ سیکورٹی اہلکاروں کو چڑانے کے لیے بازو لہراتا، مشتعل نعرے لگاتا اور کبھی خاردار بیرئیر کو لاتیں مارتا۔ موٹروے کے مضافات میں ایک انڈرپاس پہ رکی اس ویگن میں یہ سولہ لوگ تھے۔اسلام آباد سے فیصلہ ہوا کہ قافلہ واپس پختون خواہ چلا جائے توقافلے کا یہ نوجوان کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گیا۔

”تم سب چور ہو۔ سب اداکار اور ڈرامے باز ہو۔ میں اپنے امتحانات چھوڑ کر آیا تھا انقلاب میں حصہ ڈالنے“

بیرئیر کو ایک زوردار لات مارتے ہوئے اس نے موٹی سی گالی دی تو ریاستی طاقت نے اپنا’ لوہا‘ منوایا۔ ایک ڈنڈا اس کے سر پر لگا۔ وہ گر کے بیہوش ہو گیا۔ باقی دوستوں نے پولیس پر چند پتھر، بوتلیں اور گالیاں پھینکیں جبکہ پولیس نے جواب میں آنسو گیس ! اس افراتفری میں سات نوجوان باقی رہ گئے جو اسے اٹھا کر نعرے لگانا ہی چاہتے تھے کہ اچانک وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ عمل تین چار منٹ میں ہوا۔ ان تین چار منٹ میں، وہ سر سہلاتا نوجوان ہئیت قلبی اور تحلیل نفسی کے جانے کتنے دائرے گھوم کر ایک دانشور میں منقلب ہو چکا تھا۔ یہ سب حیران کن تھا کہ وہ ہوش میں آنے کے بعد جھنجلاہٹ یا چڑچڑاہٹ کا شکار نہیں تھا۔۔ وہ بس رو رہا تھا۔

’ تبدیلی بنا تربیت کے۔۔ ایسے جلد باز مجمع سے بالکل نہیں آ سکتی۔۔ بالکل نہیں آسکتی۔‘

 ہوش میں آتے ہی اس نے یہ کہا۔ یہ دانشورانہ رویہ دیکھ کراس کے ہمدرد چند مظاہرین خوف سے جبکہ رات میں جھرجھری لیتے پولیس اہلکار دلچسپی سے اسے دیکھنے لگے۔

”انقلاب کوٹھیوں کے لان میں انقلابی سیاست کرنے سے آتا ہے نہ تیتر اور شہد کو زاد راہ بنا کر۔ یہ بھوک کا مجموعہ ہوتا ہے اور محرومیوں کا تبادلہ۔۔ مجھے پاکستان پسند ہے۔ مجھے عمران خان بھی پسند ہے مگر کسی بھی انقلابی رہنما کو آئیڈیل بناتے ہوئے چھان پھٹک ضروری ہے میرے دوستو“

”ارے کیا یہ ہل گیا ہے؟ اسے کیا ہو گیا۔ دیکھو کیا کہہ رہا ہے یہ۔ خود کو تماشا بنا رہا ہے پاگل۔۔“

”ہاں میرے خاندان کے سب تماشائیوں نے بھی یہی کہا تھا کہ جب باپ نے بہن کے کہنے پر اس کی تین سال سے چلی آتی منگنی توڑ دی تھی۔ اس نے خاندان والوں سے یہی کہا تھا کہ میں اپنی معصوم بیٹی کی زندگی ایک ایسے بندے کے ہاتھ میں کیسے دے سکتا ہوں جہاں دل مطمئن نہیں ہے۔“

بہن کے ذکر پہ سب نے اسے پاگلوں کی طرح دیکھا۔

”وہ تو ایک زندگی تھی۔ میں بیس کروڑ لوگوں کی زندگی بنا سوال کیے، بنا شک کیے، بنا اطمینان کیے کیسے کسی کے ہاتھ میں دے دوں؟ جرات تحقیق انقلاب کا پیش خیمہ ہے اور میں اپنا یہ لہو اس وقت تک نہیں بہاؤں گا جب تک عمران خان صاحب مجھے یہ نہیں بتاتے کہ وہ کس نظام کی خواہش کے تحت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے مختلف ہیں؟ رائج معاشی نظام کی حالت تو یہ ہو چکی کہ اب اسلامی ممالک تک اپنے مجوزہ بلاک کے لیے مشترکہ کرنسی کا پلان بنا رہے ہیں۔ ٹھیک ہے، یہ کسی نئے معاشی نظام کی ابتدا نہیں ہے مگر ڈولتے سرمائے کا بوجھ بن کر اسی نظام سے \”مایوسی\” کا اظہار ضرور ہے۔ ادھر یورو اسی معاشی نظام کی بھول بھلیوں میں ناکام ہو کر ٹوٹ رہا ہے۔۔ ان بے روزگاروں کی طرح !۔۔ ٹوٹ رہا ہے۔۔۔بے روزگاروں کے سپنوں کی طرح!

سپنوں اور بے روزگاری کا نام سنتے ہی وہ چند نوجوان اس کے مزید قریب ہوگئے جو ٹھنڈی رات، آنسو گیس کے اثرات اور آگے بڑھنے سے مات پر اداس بیٹھے اس ’اچانکی دیوانے‘ کو دیکھ رہے تھے۔

” دیکھو دوستو۔عالمی سیاست اب یک قطبی نہیں رہی۔۔ ’روس چین وصال ‘ کی سرشاری’ شاہراہ معیشت‘ بن کر نرم گرم پانیوں تک رواں ہے۔ملک کے موجودہ سرمایہ دار حکمران نے اپنا وزن اسی دھڑے میں ڈال دیا ہے۔ اس نئے ایشیائی بلاک سے امریکہ یورپ خائف ہے۔ آپ کس طرف ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے مگر آپ کی تقریر میں، ترقی وخوشحالی کی جتنی خواب ناک مثالیں دی جاتی ہیں وہ سب اسی نئے ایشیائی بلاک سے نالاں مغربی ممالک کی ہیں۔ آپ کی اولیں سیاسی کھاد سے اولاد تک۔۔ ابتدائے جوانی سے سرمایہ نشانی تک، سب کچھ انگلستانی ہے۔ چینی صدر کا دورہ ہو یا کوریڈور کا شہرہ ہو۔۔آپ دھرنے کی گھنٹی نہ بجائیں تو نجی وائبریشن پر ملتے ہیں۔ مثلاً ابھی، سرکاری سطح پر پاکستان کے روسی بلاک میں جانے والی حالیہ دھمکی (یا گیڈر بھبکی) پر آپ کا موقف واضح نہیں ہے۔

’وائبریشن ‘کے لفظ پر ہنسنے کی آواز آئی۔ ایک نوجوان نے آکر اسے پانی کی بوتل دی اور ساتھ ہی ذاتیات پر بات نہ کرنے کی سرگوشی کی۔ اس نے اس لڑکے اور بوتل کو منہ لگا ئے بغیر چھوڑ دیا اور گویا ہوا۔

” دوستو۔ آپ سب ان سے پوچھیں گے تو تب وہ بتائیں گے نا کہ اکنامک کوریڈور کی تشکیل اور حفاظت کی ذمہ داری وہ کس کے کاندھے پہ رکھتے ہیں۔ سویلین اداروں پر یا عسکری اداروں پر؟ ابھی تو ایسا ویسا کچھ نہیں ہے مگر اگر کل اکنامک کویڈور کا منصوبہ، آمدن اور انتظام پاک فوج مکمل اپنے کنٹرول میں کرنا چاہے تو خان صاحب آپ کا کیا مؤقف ہوگا؟“

اکثریت کو سوال ہی سمجھ نہیں آیا مگر پھر بھی وہ” مابعد ضرب خفیف“ اس عجیب بنتے بولتے نوجوان کی باتیں دلچسپی سے سن رہے تھے۔

” یہ بحث لمبی ہے کہ آپ وطن کو اسی روایتی نظام سے چلائیں گے یا واقعی انقلاب لائیں گے؟ مگر سنیے۔کینوس کیسا بھی چھوٹا کیوں نہ ہو ، چار سال سے ایک صوبہ تو آپ چلا ہی رہے ہیں۔۔ بتائیے کیسا چلا رہے ہیں تب کہ جب صوبے کافی بااختیار بھی ہو چکے۔ کیاآپ سمجھتے ہیں کہ مخصوص جنگی حالات ، اس کے عذاب اوربشمول ثواب (کہ دہشت گردی الاؤنس کی مد میں آپ کے صوبے نے اضافی سہولیات و مراعات بھی لی ہیں) کیا آپ کے صوبے کے لوگ آپ سے خوش ہیں؟ اگر سکھی ہوتے تو کیا آپ کے حریف نواز شریف اور فضل الرحمان خیبر پختونخواہ کے مرکز میں کامیاب جلسے کر پاتے؟ کیا تبدیلی ثمرات کے آپ کے براہ راست سوال پر اکثریت انکار میں سر اور بازو نہیں ہلاتی؟ اچھا یہ ہی بتا دیں کہ آپ نے خود وزارت اعلیٰ کیوں نہ لی؟ کیا یہ صرف انا کا مسئلہ تھا؟“

ایک پشتون اہلکار نے دور سے پوچھا۔” یار یہ’ انا‘ کیا ہے ؟ کوئی نئی بیوی تو نہیں ہے یہ انا؟“

اس کے سامعین میں سے ایک نے جواب دیا۔” انا پنجابی میں نابینا کو کہتے ہیں“

وہ مسکرایا۔

”آپ تین سال سے صوبہ میں چوکس فوکس رہنے کے بجائے سب توانائیاں پنجابی حریف کو گرانے پہ ہی کیوں صرف کر رہے ہیں۔ جگہ بنانے کا بہترین موقع آپ کو سندھ بالخصوص کراچی کے دسیوں انتخابی حلقوں میں میسر آیا مگر آپ کی دلچسپی صرف پنجاب میں ہی کیوں رقصاں رہی اور اب قومیت اور صوبائیت کی دلدل پہ پھسلتی قوم کو آپ نے پشتون پنجاب قضیے میں ڈال کر کیا انقلابی فائدہ لیا ہے۔ “

گنتی کے وہی چند افراد اس نوجوان کو مسلسل دیکھے جا رہے تھے۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ ۔تاہم پولیس والوں نے سگریٹ سلگا کر اندھیرے میں اس کی ویڈیو بنانا شروع کر دی تھی۔

”جس جنگ نے لاکھوں سانسوں کو بجھا دیا، اس کی مخالفت تو اے این پی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی بھی کرتی ہے، آپ بھی کرتے ہیں مگر کے پی کے میں آپ نے اسی جماعت کے ساتھ اتحاد کیا جسے افغانستان میں دخل اندازی کی ابتدا سے لیکر آج ’اچھے طالبان‘ تک کا نظریاتی محافظ سمجھاجاتا ہے۔ یہی نہیں نسل نو کی تعلیم و تربیت کا وزارتی قلمدان انہی کو دیا گیا۔ اس میں کیا مصلحت اور حکمت تھی۔۔ اس سے کیا فائدہ ہوا عوام کو؟“

”یار سر پہ چوٹ لگنے سے دماغ ہل گیا اس کا۔ میرا خیال ہے ،اسے بولنے دو، ہم نکلتے ہیں اب۔ سردی بڑھ رہی ہے“

”سر۔ ہمیں یاد ہے کہ آپ نے قرآنی آیات کی تلاوت کر کے کہا تھا کہ آپ قوم سے کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے لیکن بصد معذرت آپ نے اپنے نجی سے معاشی معاملات تک بہت کچھ چھپایا۔ اپنے معاملات خفیہ رکھنا عام سیاسی وطیرہ ہے مگر کیا اتنے بڑے حلف کے بعد یہ سب مناسب تھا؟ اور یہ کیا یہ مناسب تھا کہ آپ عسکری اداروں کی جمہوری اداروں میں مداخلت کو ببانگ دہل ’تھرڈ ایمپائر‘ سے گلیمرائزڈ کرتے پھریں اور کیا یہ بھی مناسب ہے کہ آ پ عوام الناس کی اخلاقی ، گفتاری و کرداری سطح کو بلند کرنے کے بجائے اپنا لب و لہجہ عوامی اسلوب سے بھی گرا کر اسے عوامی بنا دیں۔ آپ کے فکری رہنما اقبال نے تو میر کارواں کی شرط نگہ بلند ،سخن دلنواز سے تعبیر کی تھی۔“

اس کے سامعین اب جماہیاں لے رہے تھے۔۔

”چلیے مان لیا کہ آپ کی نیت، جدوجہد اور کامیابی پہ کوئی شک نہیں کیا جا سکتا مگر کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب لا کر ہزاروں لاکھوں مقتدر نشستوں پر آپ خود گھوم گھوم کر فیصلے کریں گے؟ ظاہر ہے ان مختلف شعبوں کو بدلنے کے لیے ہزاروں بے لوث افراد کی ٹیم کی بھی ضرورت ہوگی۔ کیا آپ کے ارد گرد بیٹھے افراد اپنے ماضی اور حال کے اعتبار سے قابل اعتبار ہیں کہ مستقبل کے انقلاب کے ثمرات کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے؟“

اب اس کے رہے سہے ساتھی بھی اسے چھوڑ کر جا چکے تھے۔ ایک نوجوان اس کے پاس آیا اور اسے سینے سے لگا کر کہنے لگا۔ ”بس۔ اب چپ ہو جاؤ۔۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔واقعی باتیں سب درست ہیں۔ آج سے ہم اپنی عقیدت اور محبت کو اندھا دھند قربان کرنے کے بجائے۔۔ دلیل اور منطق سے ہر واقعہ کا تجزیہ کیا کریں گے“

”نہیں دوست۔ تم ایسا اتنی آسانی سے نہیں کر سکو گے۔ اس کے لیے جھٹکا ضروری ہے۔ اگر تم واقعی میری طرح سوچنا چاہتے ہو تو مجھے ایک کام کرنے کی اجازت دو“

”ہاں ہاں کیوں نہیں“

اس نے آہستگی سے پاس پڑا ڈنڈا اٹھایا اوراسے اس باعقیدت نوجوان کے سر پر ویسے ہی مارا جیسے خود اسے لگا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments