انسان: وہم اور حقیقت


ہم میں سے ہر شخص کا یہ گمان ہے کہ اس ملک میں یا ملک سے باہر کوئی نہ کوئی ایک بندہ ایسا موجود ہے جو یقیناً یہ جانتا ہے کہ یہ کیا غیر یقینی ماحول چل رہا ہے

سمجھ میں نہ آنے والا غیر یقیینی دور، یہ وائرس کی وبا، لاک ڈاون اور قرنطینہ جیسی انجان اصطلاحات۔ کیا سکولوں کالج کے طالبعلموں نے کبھی سوچا تھا کہ ان کی لامحدود چھٹیوں کی خواہش پوری ہو سکتی ہے؟ ہسپتال کے ڈاکٹرز اور نرسیں اس آفت کے لئے بالکل تیار نہیں تھے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو جس طرح سانپ سونگھ گیا ہے اس کی مثال تو دوسری جنگ عظیم میں بھی نہیں ملتی۔

مگر ان سب انہونیوں کے باوجود ہمیں لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی ایک شخص ہے، کوئی سائنس دان یا کسی خفیہ مشن پر مامور کوئی ڈاکٹر، کوئی ایجنسی کا طاقتور آدمی یا پھر کوئی زیر زمین تنظیم کا ڈان۔ کوئی تو ہے جس کے پاس اس پراجیکٹ کا بلیو پرنٹ ہے۔

یہ صورتحال قدرتی ہے۔ ہمارا ذہن سازشی تانے بانے جلد قبول کرتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہر مسئلہ کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور کوئی نہ کوئی بندہ اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ بہت سے پیدا شدہ حالات کا کوئی ذمہ دار نہیں ہوتا۔ ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ ایسے حالات کا مختلف لوگ مختلف طریقے سے فائدہ اٹھائیں۔ اور یہی کچھ اس وبا کے دوران ہوا اور ہو رہا ہے۔

سب سے پہلے میڈیا کی دکان چمکی اور انھوں نے خوب خوف بیچا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ذخیرہ اندوزوں کو بہانہ مل گیا اور پوری دنیا میں ماسک، ہینڈ سینیٹائزرز اور PPE سوٹ کی ذخیرہ اندوزی سے شدید قلت پیدا ہو گئی۔ ایسے حالات کا شدید اثر لامحالہ سکولز کی حاضری سے لے کر سفری اور ہوٹل انڈسٹری پر پڑا۔ اور کروڑوں لوگ گھروں تک محدود ہو گئے۔ امیر سیاستدان اور بزنس مین کسی بھی مغربی ملک بھاگنے کے قابل نہ رہے اور اپنے ملک تک ہی محصور ہو گئے۔

مگر سب کچھ برا نہیں ہوا۔
انھی حالات میں مثبت تجربات بھی سامنے آئے۔ دنیا بھر کی حکومتوں نے معمول کا کاروبار زندگی روک کر اپنی توانائیاں اس وبا کا مقابلہ کرنے میں صرف کر دیں۔ صحت اور تحقیق کے شعبے اربوں ڈالر فوراً مہیا کیے گئے۔ امیر ممالک نے غریب ملکوں کے قرضے معطل کر دیے۔ ہر ملک کے رئیس اور اہل ثروت لوگوں کی اکثریت غریبوں کے لئے باہر نکل آئی اور بہت حد تک دنیا بھر میں حکومتی ہدایات پر عوام نے عمل بھی کیا۔

ایک دلچسپ بات یہ کہ پہلی بار دنیا بھر کے تمام مذہبی طبقات کو حقیقی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ حرمین شریفین سے لے کر ویٹیکن سٹی اور مندروں گوردواروں تک، عبادت گاہوں کا وقتی طور پر بند ہو جانا تمام مذہبی پیشواوں اور عبادت گزاروں کے لئے ایک دھچکہ سے کم نہیں تھا جس کا کسی کو وہم و گماں تک نہ تھا۔

ایک اور دلچسپ بات قدرتی ماحول کا دوبارہ سے تروتازہ اور صاف ہو جانا بھی ہے۔ اس بار معمول سے زیادہ بارشیں اور کم درجہ حرارت کے طویل دورانیہ کا کسی بھی موسمیاتی سٹیشن نے اندازہ نہیں لگایا تھا اور یہ یقیناً ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔

اس وائرس کی وبا نے دنیا کو ایک بار پھر یہ باور کروایا کہ مادی ترقی اور طبی تحقیق کے دعوے کتنے کھوکھلے ہیں، سپر پاور کا نشہ کتنا خود ساختہ ہے اور مغرب کا پبلک ہیلتھ سسٹم کتنا کمزور ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ تیسری دنیا کے لوگ طبی اور جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہیں اور اکیسویں صدی میں انسان آج بھی اتنا ہی مجبور اور احمق ہے جتنا زمانہ قدیم میں تھا۔

تاریخ کی ستم ظریفی ابھی جاری ہے۔ وبا نے پنجے ابھی بھی گاڑے ہوئے ہیں۔ میڈیکل سائنس پوری شدت سے یہ جنگ لڑ رہی ہے۔ نئے محاذ ترتیب دیے جا رہے ہیں۔ نئے معاشی زاوئیے اور قوانین سوچے جا رہے ہیں۔ بنی نوع انسان ایک نئی صدی میں ایک نئے ذہن سے داخل ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ آنے والی دنیا اب پہلے جیسی نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments