جان کیٹس شاعر جمال


اس نے کہا تھا،
حسن سچائی ہے اور سچائی حسن
سب کچھ یہی ہے،
جو دنیا میں تمہیں جاننا چاہیے،
اس سے زیادہ جاننے کی ضرورت نہیں۔
شاعر جمال جان کیٹس انگریزی ادب ہی نہیں بلکہ عالمی ادب کا بھی ہردلعزیز اور محبوب شاعر ہے۔ 1895 میں پیدا ہونے والا یہ البیلا شاعر اپنی زندگی کی محض 26 بہاریں ہی دیکھ سکا لیکن اس مختصر سی عمر میں اس نے کسی لافانی دیوتا کی طرح صدیاں اپنے نام کر لی ہیں۔

کیٹس کا دور رومانوی شاعری کے عروج کا زمانہ ہے جب ورڈزورتھ، کولرج، شیلے اور بائرن جیسے رومانوی شاعر شاعری کر رہے تھے۔ کیٹس ان تمام شاعروں میں سب سے زیادہ رومانوی سمجھا جاتا ہے جس کا کوئی سیاسی، سماجی، مذہبی یا اصلاحی ایجنڈا نہیں ہے اس کی شاعری خالص ترین شاعری ہے۔ اس نے انیسویں صدی ہی نہیں ہر دور کے انسان کی فکر و دانش اور جذبات و احساسات کی سچائی کو حددرجہ خوبصورتی سے اپنی شاعری میں اتارا ہے۔

کیٹس زخمی دلوں کا شاعر ہے جس کی حصے میں سکھ کم اور دکھ زیادہ آئے۔ وہ محض آٹھ برس کا تھا اس کا والد فوت ہو گیا، اس کی عمر 14 برس تھی جب اس کی والدہ کا تپ دق سے انتقال ہو گیا، اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد 1818 میں اس کا بھائی ٹام بھی تپ دق کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر وفات پا گیا۔

ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ 1818 ﺀ ﻣﯿﮟ کیٹس ﮐﻮ ﻣﺲ ﻓﯿﻨﯽ ﺑﺮﺍﻭﻧﺊ ﺳﮯ عشق ہو گیا ﻣﮕﺮ ﻓﯿﻨﯽ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺷﺎﻋﺮ ﻟﻮﮒ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺑﮭﻮﮐﮯ ﻣﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

اپنوں کی موت کے بعد یہ کیٹس کی زندگی کا دوسرا بڑا دکھ ہے۔ مس فینی سے اسے بے پناہ محبت تھی۔ اس نے مس فینی کو خط میں لکھا،

”دنیا میں کیا کوئی چیز اتنی خوبصورت، چمک دار اور من موہنے والی ہے جتنی تم ہو“۔
ایک اور خط میں مس فینی کو لکھتا ہے کہ،
”میرا مذہب محبت ہے۔ میں اس کے لیے مرسکتا ہوں۔ میں تمہارے لئے جان دے سکتا ہوں“۔
اپنے چھوٹے بھائی ٹام کی تیمارداری اور دیکھ بھال کرتے تپ دق کا عارضہ کیٹس کو بھی لاحق ہو گیا۔ چونکہ اس زمانے میں یہ ایک لا علاج بیماری تھی، اس لیے ڈاکٹروں نے لندن کی سردی کو اس مرض کے لیے مزید مہلک قرار دے کر اسے روم جانے کا مشورہ دیا۔ لیکن اسے جو لاعلاج عارضہ لاحق ہو گیا تھا اس کی شفا ”سیزر کے دیس“ میں بھی اسے نہ ملی۔

بالآخر فینی کے ہجر میں جلتے، اسے خط لکھتے اور بیماری سے لڑتے 23 فروری 1821 کو روم میں اس جواں سال شاعر کا انتقال ہوگیا۔

افسوس کہ اس کی زندگی میں اس کی شاعری کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کا وہ حقدار تھا۔ ”روشن ستارہ“ بن کر ہمیشہ چمکنے کے آرزومند اس شاعر کو کیا خبر تھی کہ اس کا نام ہمیشہ ادب کے افق پہ چاند بن کر جگمگاتا رہے گا۔

اسی لیے اس نے اپنی قبر کے کتبے پہ یہ جملہ لکھنے کا کہا۔

”یہاں وہ شخص لیٹا ہوا ہے۔ جس کا نام پانیوں پر لکھا ہوا ہے“۔

اور آسکر وائلڈ نے اس کی قبر پہ کھڑے ہو کر کہا۔

”تمہارا نام پانیوں پہ لکھا تھا، اور یہ ہمیشہ لکھا رہے گا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments