وائلن نواز سعید احمد کی کھری کھری باتیں



گراموفون ریکارڈ، کیسٹ، سی ڈی، ریڈیو پاکستان اور دیگر ایف ایم اسٹیشنوں پر لگنے والے فِلمی اور غیر فِلمی گانے ہوں یا ٹیلی وژن پر موسیقی کی لایؤ محفلیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِن سب کی ایک مشترکہ چیز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میوزیشن یا سازندے۔ یہ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو موسیقی کا جہاں بھی آباد ہے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ گیت و غزل خود سازندوں کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ اِس میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں کہ کسی گیت /غزل کو گانے والا تو شہرت کی بلندی کو چھونے لگتا ہے جبکہ اُس گیت کے شاعر اور موسیقار عام طور پر اُتنے مشہور نہیں ہو تے اوروہ میوزیشن جو اُس مشہور ہونے والے گیت کے روح و جان ہوتے ہیں اُن کا وہ ذکر اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں نہیں ہوتا جیساکیا جانے کا حق ہے۔

لیکن یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ 70 کے اوائل تک غم کے موقع پر ریڈیو پاکستان کراچی سے سائیں مرنا کا نام لے کر ’اِک تارہ‘ کی ٹیپ چلائی جاتی تھی۔ موسیقی کے پروگراموں میں گلوکار/گلوکارہ کے نام کے ساتھ شاعر، موسیقار اور تمام سازندوں کے نام لئے جاتے تھے۔ سارنگی نواز اُستاد امراؤ بندو خان، اُستاد نتھو خان سارنگی نواز، عبدالجبار کلارنیٹ والے، کبیر خان ستار والے، لال محمد بانسری نواز اور بہت سے دوسر ے ناموں سے ہر خاص و عام واقف تھا۔

میں نے 1965 سے ہفتہ وار بچوں کے پروگرام کے حوالے سے ریڈیو پاکستان کراچی کی عظیم درس گاہ میں آنا جانا شروع کیا۔ یہیں میرے ساتھ گلوکارہ روبینہ بدر، نعت خواں خورشید احمد اور ابرار احمد بھی ہوتے تھے۔ سازندوں کی کیا عزت و توقیر ہو تی تھی! میں نے خود پروڈیوسر ظفر اقبال اور مہدی ظہیر صاحب، رضی اختر شوق صاحب، ڈراموں کے صوتی اثرات دینے والے جناب ایم اے رزاق صاحب، اور دیگر بہت سے نامور ڈرامہ آرٹسٹ اوراُس وقت کے ریجنل ڈائرکٹر طاہر شاہ صاحب کو اِن کی تکریم کرتے ہوئے دیکھا۔ اب وہ بہاریں کہاں اے دِل۔

پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں 80 کی دہائی میں شعبہ پروگرامز کے طفیل ایک مرتبہ پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھر پو ر طریقہ سے سازندوں کو قریب سے کام کرتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملا۔ ابتداء وائلن سے کرتا ہوں۔ وائلن گروپ میں مظہر حسین المعروف مظہر بھا ئی، مقصود بھائی، افضل بھائی، اشرف بھائی، منظور حسین، سعید احمد، اور سلیم ہو تے تھے۔ مظہر بھائی میوزک نوٹیشن لکھ اور پڑھ سکتے تھے۔ لہٰذا بڑی اہمیت کے حامِل میوزیشن تھے۔

نہایت مخلص اور اِنسان دوست شخص تھے۔ اِس گروپ نے موسیقار سُہیل رعنا کے ساتھ بچوں کے پروگراموں میں مستعدی سے حصہ لیا۔ اِن میں سے آج میں سعید کا ذکر کرتا ہوں۔ یہ اب بھی کراچی میں ماشا ء اللہ بہت فعال ہے اور مسلسل مشرقی موسیقی کی بقاء کے لئے کوشاں ہے۔ 1984 سے کراچی شہر میں نفرتوں کے نام پر کیا کیا نہیں کیا گیا۔ پھر بھی جب موقع ہوا سنگیت سے اُس نے پیار کے ہی چراغ جلائے۔ جہاں چنگھاڑتی اور راک موسیقی وغیرہ نے بھاری اکثریت کو اپنی طرف کھینچ لیا وہیں موسیقار زیڈ ایچ فہیم نے کراچی اسٹیج اورنجی ٹی وی چینلوں پر ہارمونیم، وائلن، مینڈولین، طبلہ، نال، کی بورڈ، کلارنیٹ، گٹار وغیرہ سے کانوں کو بھلی لگنے والی موسیقی کوآہستہ آہستہ دوبارہ رواج دے دیا۔

اِس میں دو وائلن نوازبھائی منظورحسین اور سعید احمد کے سولو آئٹم بہت پسند کیے گئے۔ افسوس کہ منظور حسین اکتوبر 2019 کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ نہایت پُرخلوص انسان اور ذہین میوزیشن تھے۔ میری اِن سے بہت دوستی تھی۔ دو سال پہلے میں نے روزنامہ نوائے وقت کراچی میں صفحہ فن و ثقافت کے لئے منظور حسین کی مدد سے دو قسطوں کی ایک تحریر: ”موسیقی کے روشن ستارے موسیقی جن کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہے“ لکھی تھی۔

یہ 22 دسمبر بروز سنیچر 2018 کی بات ہے۔ میں کراچی آیا ہوا تھا۔ دن کے ایک بجے جون بھائی المعروف ایس بی جون سے ملنے اور سعید احمد وائلن نواز سے بات چیت کے لئے نگار ویکلی کے دفتر پہنچا۔ جون بھائی اور سعید احمد وائلن نواز وہاں پہلے ہی بیٹھے تھے۔ ان کے علاوہ بھی ماشاء اللہ خاصا مجمع تھا۔ بعد میں ضیاء ظریف اور اداکار سلطان خان آف لنڈن بھی آ گئے۔ تصویریں بنوانے کے بعد جون بھائی چلے گئے۔ پھر میری سعید کے ساتھ ایک نشست ہوئی۔ اُس نشست کے دلچسپ سوال جواب پیشِ خدمت ہیں :

” میں نے 1969 سے وائلن بجانا شروع کیا۔ میرے والد مقصود احمد نے بڑے بھائی (م) منظور حسین اور مجھ کو وائلن سکھایا۔ وہ اپنے وائلن گروپ کے سربراہ اور آل راؤنڈر میوزیشن تھے۔ وائلن کے علاوہ ہارمونیم اور اکارڈین بجاتے تھے۔ میرے دو چچا افضل حسین اور اشرف حسین بھی وائلنسٹ تھے۔ ہم دونوں بھائیوں نے اُن سے بھی فیض اُٹھایا“۔

اپنے پہلے فلمی گیت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں سعید نے کہا:
” میں نے 11 سال کی عمر میں اپنے بڑے بھائی منظور کے ساتھ اپنا پہلا فلمی گیت ریکارڈ کروایا۔ وہ سندھی فلم“ غیرت جو سوال ”کا تھا۔ اُس کے موسیقار فیروز گُل تھے اور ہم وائلنسٹ کی حیثیت سے اُن کے ساتھ تھے۔ گلوکارہ ترنم ناز تھیں جواُس وقت ناز لیلیٰ کہلاتی تھیں۔ اس گیت کی صدابندی ایسٹرن فلم اسٹوڈیوز میں ہوئی“۔

میرا فرض بنتا ہے کہ میں پڑھنے والوں کو موسیقار فیروز گل کے بارے میں تھوڑا سا بتاؤں : یہ وہ عظیم موسیقار ہیں جو گلوکارہ عابدہ پروین کے لئے موسیقی کا پروگرام کنڈکٹ کرتے ہوئے 14 اکتوبر 1996 کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ موسیقی کا یہ شو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شہر نیو یارک میں ہو رہا تھا۔ انہوں نے بہت سی سندھی فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ عابدہ کے لئے

ؓبہت سے صوفی شعرا ء کے کلام کی دھنیں بنائی تھیں۔ فیروز گل صاحب کو کئی ایک علاقائی ایوارڈوں سے نوازا گیا۔ ان کے علاوہ حکومتِ پاکستان نے انہیں 2011 میں بعد از مرگ تمغہ امتیاز دیا۔ میں خوش نصیب ہوں کہ پی ٹی وی کراچی مرکز اور گراموفون کمپنی آف پاکستان کراچی میں اِن سے ملاقاتوں کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ نہایت میٹھے اور پیار کرنے والے تھے۔

باتوں باتوں میں سعید نے بتایا کہ 70 کی دہائی میں ایک مرتبہ موسیقار فیروز گُل ایک برقع پوش خاتون کو لائے اور کہا کہ یہ نئی آواز ہے۔ یہ عابدہ پروین تھی۔ اس کی آواز میں پہلا گیت سندھی فلم ”بادل ء برسات“ کا تھا جو ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیا گیا۔

عابدہ پروین

بات سے بات نکلتی ہے عابدہ پروین کے سندھی /پنجابی/سرائیکی گیت: ”گھوم چرخڑا سائیاں دا تیری کتن والی جیوے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “، ”سوہنے یار دی گھڑولی بھر دی، ہک اللہ کونوں میں ڈردی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ جو اُس کی پہچان بنے، سلطانہ صدیقی اور میرے پروگرام کے تھے۔ پھر عابدہ کا پہلا اُردو گیت موسیقار اختر اللہ دتہ کے گھر پر میرے سامنے تیار ہوا جسے محمد ناصرؔ نے پروگرام ”سُر سنگم“ ( 1981 ) کے لئے لکھا:

صبح کی پہلی کرن میری آنکھوں سے ملی
جانے کیا بات کہی نینوں نے تیرے
سپنوں میں میرے
اس کے علاوہ عابدہ کی گائی ہوئی یہ مشہو ر غزل بھی ہمارے پروگرام ”آواز و انداز“ کی ہے :
آندھی چلی تو نقشِ کفِ پا نہیں ملا
دل جس سے مل گیا وہ دوبارہ نہیں ملا
اپنے ابتدائی ٹی وی پروگراموں کے بارے میں سعید نے بتایا:
” میں نے شروع میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں پروڈیوسر امیر امام اور مرغوب احمد صدیقی کے ساتھ کام کیا۔ میرا پہلا ٹی وی پروگرام ’نغمہ زا ر‘ تھا۔ پھر ’سنڈے کے سنڈے‘ کیا“۔

لاہور کی فلمی دنیا میں جانے کے بارے میں بتایا :
” میری خواہش تھی کہ میں بھی نامور فلمی موسیقاروں کے ساتھ کام کروں۔ یہ آرزو اُس وقت پوری ہوئی جب میرے والد صاحب اور چچاؤں نے لاہور کی فلمی دنیا میں کام کرنے کا ارادہ کیا۔ ہمارا 6 وائلنسٹ کا بیچ 1972 میں بمعہ اہل و عیال لاہور فلمی صنعت میں کام کرنے منتقل ہو گیا۔ لاہور فلمی دنیا میں کام کرنا میرا سنہری زمانہ ہے۔ یہاں میرا پہلا گیت فلم“ شبانہ ”کا تھا۔ یہ ایم اشرف کی موسیقی میں ایور نیو فلم اسٹوڈیو میں ریکارڈ ہوا۔ تسلیمؔ فاضلی کے گیت کو مہدی حسن نے گایا۔ “ جو درد ملا اپنوں سے ملا غیروں سے شکایت کون کرے، جو زخم دیا پھولوں نے دیا کانٹوں سے شکایت کون کرے ”۔

اس سوال کے جواب میں کہ تم نے کس کس موسیقار کے ساتھ کام کیا؟ سعید نے کہا:
” میں نے فلمی دنیا اور ریڈیو ٹی وی کے معروف موسیقاروں کے ساتھ کام کیا جیسے ناشاد، مہدی ظہیر، نثار بزمی، اے حمید، ا ختر حسین اکھیاں، ایم اشرف، لال محمد اقبال، صفدر حسین، فیروز گُل، ماسٹر عبداللہ، سہیل رعنا، کریم شہاب الدین، کمال احمد، اُستاد نذر حسین، طافو، نیاز احمد، مجاہد حسین، غلام علی، ایس گُل، امداد علی، واجد علی ناشاد وغیرہ“۔

کِن کن گلوکاروں کے ساتھ بجایا؟ اُس نے بتایا: ” مادام نورجہاں، مہدی حسن، حبیب ولی محمد، فریدہ خانم، اقبال بانو، مہناز، تصور خانم، ناہید اختر، اے نیر، غلام علی، نیرہ نور، رونا لیلیٰ، مالا، احمد رشدی، مسعود رانا، ترنم ناز، عابدہ پروین، غلام عباس، شاہدہ پروین، رجب علی، اسد امانت علی، اُستاد حامد علی خان، آصف مہدی، شہناز بیگم وغیرہ۔

سعید کی کچھ فلمیں جِن میں اُس نے گانوں کے علاوہ بیک گراؤنڈ بھی بجایا: ” سہیلی“ ( 1978 ) ، ’‘ پلے بوا ئے ’‘ ، ”مجھے گلے لگا لو“، ”پرنس“، ”مِلن“، ”نذرانہ“، ” ترانہ“، ”شبانہ“، ”شیشے کا گھر“، ”محبت ایک کہانی“، ”عاشی“، ”انتخاب“، ”اپنے ہوئے پرائے“، ”جگا گجر“، ”وحشی گجر“، ”سسرال“ ( 1977 ) ، ”غازی علم دین شہید“، ”سوسائٹی گرل“، ”سوہر ا تے جوائی“، ”انقلاب“، ’‘ دو چو ر ”، “ کالے بادل ”، “ شعلے پہ شعلہ ”، “ بیوی ہو تو ایسی ”، “ ٹینا ”، ” خاک اور خون“، ”حساب“، ”احساس“، ”سہارے“، ”آواز“، ”بیگم جان“، ”بادل اور بجلی“، ”داغ“، ”آئینہ“، ”اُف یہ بیویاں“، ”میرے حضور“، ”شمع محبت“، ”مہمان“، ”سیتا مریم مارگریٹ“، ”زندگی“، ”نادان“ وغیرہ۔

سعید کی چند سندھی فلمیں : ” غیرت جو سوال“، ”شہید ’‘ ، “ پرو چانڈیو ”، “ جیئے لطیف ’‘ ، ”جلال چانڈیو“، ”محب شیدی“، ”علی گوہر“، ”عُمر ماروی“، ”رَنگ محل“، ”لیلیٰ مجنوں“، ”پنو عاقِل“، ”شہرو فیروز“، ”بادل ء برسات“۔

” اِن سب فلموں کے گانے میں نے، بڑے بھائی منظور، والد، ا ور دونوں چچاؤں کے ساتھ بجائے۔ ہمارے کئی ایک گیتوں پر بہترین موسیقار، شاعر، گلوکار وغیرہ کو نگار ایوارڈوں سے نوازا گیا لیکن ہمیں یا کسی بھی دوسرے میوزیشن کے لئے کبھی کوئی نگار ایوارڈ نہیں رکھا گیا۔ ہم دونوں بھائیوں کے لئے یہ بھی بہت بڑا اعزاز ہے کہ پاکستان کے نامور وائلن پلیئر الیاس نامدار صاحب کے ساتھ ہم نے کام کیا“۔

یہاں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ نامدار صاحب کا ہماری فلمی صنعت میں ایک بہت بڑا نام اور مقام ہے۔ فلمی دنیا جب اپنے عروج پر تھی اور دن رات گانوں اور بیک گراؤنڈ کا کام ہوتا تھا تب لاہور کے تقریباً سب ہی وائلن نواز ایک طرح یا دوسری طرح نامدار صاحب کے ہی شاگرد تھے۔ کم و بیش یہی بات موسیقی کے مزنگ گھرانے کے تمغہ امتیاز یافتہ گِٹارسٹ سجاد طافو نے مجھ کو بتلائی۔ گویا لاہور کی فلمی موسیقی کے صفِ اول ’‘ اے بیچ ”کے آج جو بھی وائلنسٹ ہیں وہ نامدار صاحب کی وجہ سے ہیں۔ شکریہ نامدار صاحب!

ایک سوال کے جواب میں سعید احمد نے کہا: ” میں تقریبات میں سولو وائلن بجا تا تھا۔ 80 کی دہائی میں ایک محفل میں مہدی حسن کے ساتھ بجایا۔ انہوں نے میری تعریف کی اور بہت حوصلہ افزائی کی“۔

” کبھی ریکارڈنگ میں کوئی مشکل پیش آئی؟ “۔ میرے اس سوال کے جواب میں سعید نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ” اُستاد نذر حسین کے ساتھ لَے کاری بہت مشکل کام ہوتا تھا۔ میں نے ’نغمہ زار‘ کے لئے مہناز کی آواز میں ایک غزل : ’ اک صورت دل میں سمائی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ کی جو بہت کٹھن کام تھا ”۔ سعید نے بالکل صحیح کہا۔ اطہرؔ نفیس کی غزل ’اک شکل ہمیں پھر بھائی ہے اک صورت دل میں سمائی ہے، ہم آج بہت سرشار سہی پر اگلا موڑ جدائی ہے‘۔ اُستاد نذر حسین کی بہت چکر والی دھن ہے۔ میں خوش نصیب ہوں کہ ایک مرتبہ پی ٹی وی لاہور میں مسرورؔ بھائی کے ساتھ اُستاد نذر حسین اور موسیقار محسن رضا خان جو گلوکارہ بلقیس خانم کے بھائی ہیں، کو میڈم نورجہاں کے لئے بنائی جانے والی ایک دھن پر کام کرتے دیکھا۔ کہنا تو نہیں چاہیے لیکن سننے میں وہ بننے والی دھن ایسی تھی کہ شاید میڈم بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سعید نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا :
” ریڈیو پاکستان میں گلوکارہ بلقیس خانم کی آواز میں ’کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ریکارڈ کرانا بھی آسان کام ہر گز نہیں تھا“۔ یہ بھی سعید نے 16 آنے درست بات کہی۔ عبید اللہ علیمؔ کی غزل : ’کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں، پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا‘ استاد نذر حسین کا ہی طرہ امتیاز ہے۔

موسیقار نثار بزمی سے متعلق بات چیت ہونے لگی جس پر سعید نے کہا: ” ایک دل چسپ بات یاد آئی۔ انٹرنیشنل فلم اسٹوڈیوز کراچی میں فلم“ آس پاس ”کی پس منظر موسیقی کی شفٹ بُک تھی۔ موسیقار نثار بزمی نے یہ کام کروانا تھا۔ کسی وجہ سے میں نہیں آ سکتا تھا۔ میرے والد نے بزمی صاحب سے میرے نہ آنے کی معذرت کر لی۔ بزمی صاحب نے کہا: “سعید کے بغیر یہ ریکارڈنگ نہیں ہو سکتی”۔ اور شفٹ پیک اپ کروا دی۔ اِس بات پر میرے والد بہت خوش ہوئے۔ یہ میرے لئے بھی ایک اعزاز کی بات ہے“۔

پاکستان سے باہر سولو بجانے کی بات ہوئی تو انہوں نے کہا: ” میں پہلی مرتبہ پاکستان سے باہر 1981۔ 82 میں گیا۔ موسیقار سہیل رعنا پاکستان ٹیلی وژن کے پروگرام ’سنگ سنگ چلیں‘ کی پوری ٹیم کو دبئی لے گئے۔ پھر اس کے بعد غالباً 2010 میں گلوکار سلمان علوی کے ساتھ ماریشیس، کویت اور مسقط گیا۔ ویسے اس سے قبل میں بھارت بھی گیا تھا“۔

بھارت کے دورے کے بارے میں بتایا : ” سب سے پہلے امجد صابری کے ساتھ 2008 (غالباً) میں کسی عرس کے موقع پر للت پور واقع اُتر پَردَیش گیا۔ وہاں میں نے سولو بجایا۔ میرا سولو وائلن کیا بجا! یوں لگا کہ جیسے وہاں زیادہ تر لوگ وائلن سننے ہی آئے ہوں۔ قوالی اپنی جگہ مگر میری بے حد پذیرائی ہوئی“۔

” تم نے وائلن ہی کیوں سیکھا؟ کوئی اور ساز کیوں نہیں سیکھا؟ “۔ میں نے سوال کیا۔ ” وائلن اور موسیقی میری روح میں تھی۔ میں شروع ہی سے وائلن میں دلچسپی رکھتا تھا اسی لئے والد کے ساتھ ساتھ رہا“۔ سعید نے برجستہ جواب دیا۔

”۔ ریاض کیا صرف گلوکار کرتے ہیں یا میو زیشن کے لئے بھی یہ اتنا ہی ضروری ہے؟ “۔ میں نے سوال کیا۔ ” ریاض نہایت ہی ضروری ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے گلوکاروں کو تو ایک طرف رکھئیے، خود میوزیشن اپنا ریاض نہیں کرتے۔ میں نے روزِ اول سے محنت اور لگن کے ساتھ ریاض کیا۔ اب بھی کرتا ہوں ’‘ ۔

” کوئی خوشگوار یاد یا قابلِ فخر بات؟ “۔ اس سوال پر اُس نے برجستہ کہا: ” مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ موسیقار نثار بزمی صاحب نے اپنے 12 فلمی گانوں کو وائلن پر سولو بجانے کے لئے میرا انتخاب کیا۔ پہلی بات تو یہ کہ بزمی صاحب کا کام بہت مشکل ہوتا تھا۔ دوسرے اُن کو مطمئن کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل۔ یہ گیت ’ سونک اسٹوڈیو‘ میں ریکارڈ ہوئے۔ جب پہلا گیت او کے ہوا تو بزمی صاحب نے اپنی جیب سے 5000/ہزار روپے نکال کر مجھے دیے اور میرا حوصلہ بڑھایا ”۔

بیشک یہ سعید کے لئے کسی بھی ایوارڈ سے ہر گز کم نہیں۔ یہاں مجھے سعید کے بڑے بھائی منظور ( م ) کی بات یاد آ گئی۔ اُس نے کہا تھا: ” پاکستان سپر لیگ 2017 کے میچوں میں گلوکار علی عظمت، فاخر وغیرہ ٹیلی وژن اسکرین پر کھلاڑیوں اور عوام کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ اگر وہ قومی نغمات گنگنا ئیں جیسے : ’یہ وطن تمہارا ہے تُم ہو پاسبان اِس کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ تو زیادہ بہتر ہو! کیوں کہ اُن کو دیکھ کر ننھے بچے بھی شوق سے گاتے“۔ کیا اچھی بات کہی تھی۔ پھر منظور نے یہ بھی کہا : ’‘ ایک زمانے میں ساحرہ کاظمی، شاہد اقبال پاشا، شاہین انصاری وغیرہ نے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے موسیقار جاوید اللہ دتہ، لال محمد اقبال اور نثار بزمی صاحبان کی موسیقی میں 30 سے 35 میوزیشن کے ساتھ علاقائی روما نوی داستانوں کو بہت خوبصورت انداز سے پیش کیا تھا ایسے پروگراموں کی اب دوبارہ اشد ضرورت ہے۔ نجی ٹی وی والے تو بقول شخصے یہ ’فضول‘ پروگرام پیش نہیں کرنے والے۔ اِس کام کے لئے اب بھی بہترین جگہ پاکستان ٹیلی وژن ہی ہو گی ”۔

کاش کوئی منظور کی یہ بات اربابِ اختیار تک پہنچا دے۔ مگر اُس ”کوئی“ کو کہاں سے لایا جائے۔ ۔ ۔
” تمہارے بچوں میں وائلن کا شوق کس کس کو ہے؟ “۔ میں نے سعید سے سوال کیا۔ ” جس طرح ہم بھائیوں کو وائلن بجانے کا شوق تھا ویسا تو کسی کو بھی نہیں! میرے والد نے میرے بیٹے عامر کو کی بورڈ پر ہاتھ رکھایا۔ اب یہ کی بورڈ کے ساتھ گٹار بھی بجاتا ہے۔ اس نے بہت محنت کی ہے اور اب میرے ساتھ غزل اور گیت بجاتا ہے۔ یہاں سعید نے پاکستانی فلم انار کلی میں ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں حضرت تنویرؔ نقوی کا گیت ’کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ کا کلِپ ویڈیو پر دکھایا۔ سعید وائلن پرہے اور عامر گٹار پر۔ واقعی قابلِ تعریف کلپ تھا۔

” وائلن نوازی میں تمہارے نزدیک مِثالی وائلن نواز کون ہیں؟ “۔ میں نے سوال کیا۔ ” مثالی وائلنسٹ مظہر حسین (م ) اور سلیم چھیما صاحب ہیں“۔ سعید نے برجستہ جواب دیا۔
” کس موسیقار کو مطمئن کرنا مشکل لگا؟ “۔ سوال کیا۔ ” نثار بزمی اور سہیل رعنا اپنی ریہرسل اور ریکارڈنگ سے بہت مشکل سے مطمئن ہوتے تھے“۔
” گفتگو میں کون موسیقار سب سے میٹھا تھا؟ “۔ میں نے سوال داغا۔ ” موسیقار ناشاد، ایم اشرف، کریم شہاب الدین بہت میٹھی گفتگو کرتے اور ملائمت سے ہمیں ہمارے پیس سمجھایا کرتے تھے“۔ سعید نے جواب دیا۔

میں نے ناشاد صاحب کو تو نہیں دیکھا لیکن اِن کے بیٹے شاہد علی ناشاد ( م ) سے میری دوستی تھی۔ یہ ( شاہد ناشاد) گفتگو میں بہت میٹھے تھے۔ خالص دہلی والوں کا ٹکسالی اندازِ تخاطب تھا۔ کریم بھائی کی شاید ہی کوئی ایسی ریکارڈنگ ہوئی ہو جس میں انہوں نے بیس گِٹار شاہد ناشاد سے نہ بجوائی ہو، ویسے ’بوبی‘ بیس گٹارسٹ بھی میری ریکارڈنگوں میں آتے تھے۔ یہ آنکھوں سے نابینا تھے لیکن کمال کی بیس بجاتے تھے۔ ایسے ہی لاہور میں صادق یا صدیق پیانسٹ بھی تھے جو غضب کا پیانو بجاتے تھے۔ میرا پی ٹی وی اور ملک چھوڑنے کے بعد بھی تقریباً سب ہی میوزیشنوں سے فون پر رابطہ تھا۔ شاہد سے دل ملتا تھا۔ یہ بھی گزر گئے۔ موسیقار ایم اشرف صاحب کو بھی میں نے نہیں دیکھا البتہ اِن کے بھانجے الیاس سے ملاقات تھی۔ یہ لاہور کی فلمی دنیا میں گٹارسٹ تھا۔ میری اس سے ملاقات

’ پی ٹی وی ایوارڈ 2‘ کی ریہرسل اور ریکارڈنگ کے انعقاد کے سلسلے میں راولپنڈی میں ہوئی تھی۔ الیاس اچھا گٹارسٹ تھا جب ہی لاہور کے فلمی صنعت کے میوزیشنوں کے ساتھ ہمارے ایوارڈ کے لئے آیا تھا۔ وہ دو دن کی ملاقات دوستی میں بدل گئی۔ میری اُس سے کراچی واپس آنے کے بعد بھی فون پر بات چیت جاری رہی۔ پھر ایک روز جب اُسے فون کیا تو علم ہو ا کہ بے چارے کو سانپ نے ڈس لیا تھا۔ اور وہ اللہ کے حضور جا پہنچا۔ اللہ اُس کی مغفرت کرے۔ موسیقارکریم بھائی المعروف کریم شہاب الدین کے ساتھ البتہ میں نے بہت کام کیا ہے۔ سعید درست کہہ رہا ہے۔ یہ بہت شیریں گفتار تھے۔ گالم گلوچ تو بہت دور کی بات ہے! میں نے انہیں کبھی بھی غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا۔

” فلمی گیتوں کی ریکارڈنگ میں گیت نگار وں سے اسٹوڈیو میں ٹاکرا کیسا ہوتا تھا؟ “۔ میں نے سوال کیا۔ ” صہباؔ اختر بہت محبت کرنے والے تھے۔ یہ راہ چلتے سلام دعا میں خود آگے بڑھ کر پہل کیا کرتے۔ مسرورؔ انور عام طور پر فلمی ریکارڈنگ میں ضرور موجود ہوتے تھے۔ بہت میٹھے آدمی تھے۔ فیاضؔ ہاشمی بھی بہت نفیس اور اچھے انسان تھے۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی کے ریحان ؔاعظمی اور محمد ناصرؔ ہیر ا لوگ ہیں“۔

باتوں باتوں میں سعید نے کہا کہ موسیقار اے حمید کے ساتھ فلم ’‘ بیگم جان ” ( 1977 ) اور موسیقار روبن گھوش کے ساتھ فلم“ آئینہ ” ( 1977 ) اور“ احساس ” ( 1972 ) میں کام کر کے بہت اچھا لگا۔ اِس دوران کھانا بھی اسلم الیاس رشیدی صاحب نے منگوایا۔ کھانے اور چائے کے دور کے بعد بات کا رُخ بدل گیا۔ بات سینیئر فنکاروں کی ہونے لگی۔ اس پر سعید نے کہا:

” یہ عام دیکھنے میں آتا ہے کہ آج کل کے فنکار اور میوزیشن سینیئر لوگوں کا ادب و احترام نہیں کرتے۔ میرا پیغام یہ ہے کہ سینیئرز کو اُن کے تجربے اور صلاحیتوں کے مطابق کام ملتے رہنا چاہیے۔ یہ اُن کا حق ہے۔ آج کی نسل یہ نہ بھولے کہ جو آج اپنے سینیئرز کے ساتھ کریں گے عین وہی کل اُن کے ساتھ بھی ہو گا۔ جونیئرز کو میرا کہنا ہے کہ اللہ! وہ بزرگوں کی جھوٹی عزت نہیں کریں! “۔

سعید کا کہنا ہے : ”پاکستان ٹیلی وژن کراچی میں اب نہ وہ پروڈیوسر رہے نہ ہی وہ ڈائریکٹر۔ لیکن پھر بھی امجد شاہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ اب بھی اگر نیا میوزک پروگرام کیا جائے تو لوگ بے حد پسند کریں گے“۔

میں نے سعید سے ایک چکر والا سوال پوچھا: ” کیا تم ایک اچھے شوہر اور اچھے باپ بھی ہو؟ “۔
اس پر وہ اپنی مشہورِ زمانہ مسکراہٹ لئے بولے : ”اللہ کا احسان ہے کہ میں ایک اچھا شوہر اور نرم مزاج باپ ہوں۔ میرے تین بچے ہیں عامر احمد، عاقب سعید اور ماشاء اللہ ایک بیٹی جو 13 ویں میں پڑھ رہی ہے۔ میں اپنی زندگی سے ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار، خوش اور ماشاء اللہ مطمئن ہوں ’‘ ۔

بدھ 2 جنوری 2019 کومیں اپنے اہلِ ذوق دوست شکیل احمد کورنگویؔ ( کورنگی کی مناسبت سے ) سے ملنے گیا۔ یہ میرے ساتھ ماضی میں ایک نامور تعلیمی کتابوں کے پبلشر ادارے میں کام کر چکے تھے۔ آج کل شکیل کورنگوی ؔ جوہر موڑ پر واقع جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف کلینکل سائکالوجی ICP کے آفس میں کام کرتے ہیں۔ اِن سے ملاقات کے بعد G 10 کی مِنی بَس سے ڈاکخانہ لالو کھیت آیا۔ پھر وہاں سے ناگوری ملک کے مقابل کوئٹہ ہوٹل کے سامنے والی اسٹریٹ میں واقع سعید وائلنسٹ کے گھر پہنچا۔ اُس کے ہاں گلوکارصغیر اور سندھی فلموں کے تدوین کار عامر ( م ) بھی آ گئے۔ میں خاص طور پر سعید کا وائلن سُننے گیا تھا۔ اُس کے بڑے بیٹے عامر نے اسپینِش گِٹار پر اپنے والد کا ’کورڈ‘ سے ساتھ دیا۔ بہت خوشی ہوئی۔

سعید وائلن نواز نے پاکستان ٹیلی وژن کے پروڈیوسر امجد شاہ کی تعریف کی تھی۔ اگلے ہی روز اپنے دوست موسیقار اختر اللہ دتہ جو ’سَرود‘ بھی بجاتے ہیں مجھے سرود سننے اُن کے اسٹوڈیو جانا تھا لیکن انہوں نے مجھ کو ٹی وی اسٹیشن ہی پر امجد شاہ کے کمرے میں بلوایا کہ مہناز کی خالہ زاد بہن اور ایک جنوبی پنجاب سے آئی ہوئی نئی آواز سنوانا ہے۔ یہ میری امجد شاہ سے پہلی ملاقات تھی۔ سعید کے علاوہ میرے محترم بانسری نواز اُستاد سلامت حسین بھی اِن کی تعریف کر چکے تھے۔ ماشاء اللہ امجد کو جیسا سنا تھاویسا ہی پایا۔ اس پر کبھی اور بات ہو گی۔

اب چند اختتامی جملے عرض کرنا چاہوں گا کہ پاکستان میں موسیقی کو جنہوں نے جو نقصان پہنچانا تھا وہ پہنچا دیا گیا اب سب کچھ بھول کر ہمیں وقار کے ساتھ ایک نئے دور میں داخل ہونا ہو گا۔ اِس سفر میں ہمیں موسیقی کے جسم اور جان یعنی میوزیشن / سازندوں کو اُن کی توقیر اور عزت دوبارہ دینا ہوگی۔

نوٹ: یہ بات چیت 16 جنوری 2019 کے نگار ویکلی کی اشاعت میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں کچھ ترمیم و اضافہ کیا گیا اور تاریخیں ڈالی گئیں۔ بالکل درست تاریخیں۔ میں نے اپنی ڈائری سے لی ہیں۔ مشہور مِلّی اور فِلمی شاعر مسرورؔ انور جنہیں میں مسرورؔ بھائی کہتا تھا، انہوں نے ایک مرتبہ سرِ راہے تذکرہ کیا کہ وہ ہمیشہ اپنی روز مرہ کی ڈائری لکھتے ہیں اور مجھے بھی ایسا کرنے کی تاکید کی۔ وہ دن اور آج کا دن میں روزانہ اپنی ڈائری لکھتا ہوں۔ اور آج میں نے اِسی ڈائری سے استفادہ کرتے ہوئے بالکل صحیح تاریخیں لکھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments