نظر بد – اسلامی ممالک میں موجود عقائد


ڈاکٹر علی علومی، نے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، امریکا سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور اب پین سلوانیہ اسٹیٹ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور تاریخ پڑھاتے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے موضوعا ت میں اسلامی تاریخ، مشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ، مذہب کی تاریخ وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر علی ایپل پوڈکاسٹ پر ”ہیڈ آن ہسٹری“ کے نام سے ایک مقبول پروگرام بھی کرتے ہیں۔ کچھ عرصے سے انہوں نے سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹ ٹویٹر پر اسلامی نقطہ نظر کے حوالے سے جنوں، فرشتوں اور اس نو ع کے دیگر عوامی دلچسپی کے موضوعا ت پر خیالات کا اظہار مختصر اور موثر انداز میں کرنا شروع کیا جسے تھوڑے ہی عرصے میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ذیل میں ڈاکٹر علی علومی کے ٹویٹر پر شایع کردہ خیالات کا اردو ترجمہ اور تلخیص پیش کی جا رہی ہے۔

۔
نظر بد یا بری نظر ایک ایسی قوت ہے جو صرف نگاہوں کے ذریعے نظام زندگی میں خلل ڈالتی یا نقصان پہنچا تی ہے۔ اس کا تصور قبل از اسلام وسیع تر بحیرہ روم، مشرق وسطی اور جنوبی

اس کا تصور اسلام میں بھی بیان۔ کلاسیکی طور پر، بری نظر کو آنکھوں کے ذریعہ منتقل ہونے والے ایک قسم کے ماقوف الفطرت زہر کے طور پر بیان کیا جاتا تھا۔ ایشیاء میں پایا جاتا تھا

ہوا اور کچھ احادیث میں بھی بد نظری کا حوالہ دیاگیا ہے۔
العین یا چشم نظر کہلانے والی بری نظر کا ماخذ حسد یا بغض بتایا جاتا ہے۔ یہ جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور، دونوں طرح سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔ کچھ مورخین کے استدلال کے مطابق بری نظر کا منبع انسانی روح ہے۔ بری نظر کو چھیدنے والی نگاہوں یا بھوکی نگاہوں سے تعبیر کیا جاتا ہے جو سامنے والے کو نگلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ( اردو کا محاورہ کھا جانے والی نظروں سے دیکھنا یاد گیا )

یا پھر اس کو سورج کی طرح کی ”شعاعوں“۔ بد نظری کو ایسے زہر کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے جو کسی بھی اچھی چیز یعنی صحت، دولت، قسمت وغیرہ کو زہر آلودہ کر دیتا ہے

کچھ لوگوں کے پاس بد نظری کی طاقت پیدائشی ہوتی ہے جبکہ کچھ لوگ اس کو ایک۔ سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ کسی کی بھی خوش قسمتی کی تازگی یا خوشبو کو خشک کر دیتی ہیں ما قوف الفطرت طاقت کی طرح خود میں پروان چڑھاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ جنوں کے اندر خود ان کی اپنی نظر بد ہوتی ہے۔ ایک جن جو کسی انسان کے عشق میں مبتلا جائے وہ اپنی نظر بد اسے لگا سکتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر نظر بد کو اکثر ساحر یا جادوگروں سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ بری نظر کا کسی کے پاس ہونا اس بات کی علامت ہوسکتی ہے کہ وہ شخص جادو یا اس سے ملتی جلتی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ کچھ کے مطابق بری نظر موروثی بھی ہو سکتی ہے۔

اگرچہ حسد اور بغض کو اس کی بنیادی وجہ قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ لا شعوری طور پر بھی لگ سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس شخص سے بری نظر لگ رہی ہو اس کو اس کا احساس تک نہ ہو (موجودہ دور میں کرونا کی وبا کی طرح) ۔ بد نظری کا آغاز عام طور پر کسی بھی چیز کی تعریف سے ہوتا ہے۔ جیسے کہ ”اوہ آپ کا گھر کتنا خوبصورت ہے“ یا ”آپ کا بچہ بہت پیارا ہے“ وغیرہ

بد نظری پر عالمگیر عقیدے کی بدولت اس سے حفاظت کے پیش نظر بہت سے طریقے وضع کیے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک نیلی آنکھ کا طریقہ ہے۔ یہ ایک تعویذی نیلی آنکھ ہوتی ہے جو کہ جو کہ گھروں میں سجاوٹ، ہار، یا مالا کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ عام طور پر اسے نیلے رنگ کے شیشے سے (پلاسٹک بھی اب عام ہے ) بنایا جاتا ہے۔ کبھی کبھار یہ تعویز ی آنکھ سرخ رنگت میں بھی ہوتی ہے ( مصنف نے ایسی بہت سی نیلی آنکھوں پر مشتمل اشیا استنبول کے تاریخی گرینڈ بازار میں د یکھیں تو انھیں سجاوٹ کی عام اشیا اور عثمانی طرز تعمیر کے نیلے رنگ سے متاثر فن پارے سمجھ بیٹھا ) ۔

بہت سی ملکوں میں چھوٹے بچے کی حفاظت کے پیش نظر ان کے بستر کے پاس نیلی آنکھ کی مالا لگانا بری نظر کے خلاف ایک عام طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ اسٹورز، دکانیں اور مکانات وغیرہ میں بھی بعد نظری سے بچنے کے لئے دلکش اور خوبصورت قسم کی نیلی آنکھوں کے تعویز اور سجاوٹ کی اشیا استعمال کی جاتی ہیں۔ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں نیلی آنکھ کو ” طلسما ن فاطمہ“ یا ”خمسہ“ کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ ”خمسہ“ ایک نسوانی انسانی دائیں ہاتھ کا نقش ہوتا ہے جسے حضرت مریم سلام اللہ علیھا، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کا استعمال قبل از اسلام سے ہو رہا ہے۔

بد نظری سے بچنے کے لئے نیلے رنگ کے استعمال کی مختلف توجیہات کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ پرانا عقیدہ کہ نیلی رنگت کی آنکھوں والے افراد سے نظر بد لگنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے لہذا ویسی ہی نیلی رنگ کی آنکھ اس بری نظر کو پلٹا سکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ بری نظر تاثیر میں گرم ہو سکتی ہے لہذا نیلا ٹھنڈا رنگ اس تاثیر کو زائل کر سکتا ہے۔ تیسری وجہ محض  نیلے رنگ کی آسان دستیابی بھی ہو سکتی ہے۔

بری نظر سے حفاظت کے لئے زبانی حفاظت کا ایک طریقہ ماشا اللہ بھی ہے۔ کسی بھی چیز کی تعریف کرنے سے پہلے یا بعد میں کہنا بری نظر کو روکنے کے علاوہ معاشرتی طور پر اس بات کا اعلان کرنا بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کی تعریف کی جارہی ہے اس کے متعلق اس شخص کی کوئی پوشیدہ بری خواہش یا نیت نہیں ہے۔ نظر بد سے بچنے کی قرآنی دعاؤں  میں، آیت الکرسی، سورہ الفلق اور سورہ الملک کی آیت نمبر تین اور چار عام طور پر پڑھی جاتی ہیں
ایک روایت کے مطابق، ایک کاروان سفر کر رہا تھا جس میں ایک شخص جس کی بری نظر مشہور تھی، اس نے ایک اونٹنی کی طرف دیکھا جو نظر بد لگنے سے فوری طور پر گرپڑی۔ اونٹنی! کے مالک نے اسے بچانے کے لئے سورہ ملک کی تیسری اور چوتھی آیات کی تلاوت کی تو اس شخص کی آنکھیں باہر نکل گئیں

نظر بد کو دور رکھنے کے لئے نیلی آنکھ والے تعویزوں اور قرآنی دعاؤں کا استعمال کیا جاتا ہے اگر کس شخص کو نظر بد لگ جائے تو اس کے دعاؤں کے ساتھ ساتھ مختلف جڑی بوٹیوں کے مرکب سے متاثر ہونے والے شخص کو نہلانے سے شفا مل سکتی ہے۔ لوبان، اور ہرمل کی دھونی وغیرہ سے بھی نظر بد سے متاثرہ کسی شخص یا جگہ کو صاف کیا جاسکتا ہے۔

ترک روایت میں نظر بد سے بچنے کے لئے بیجوں کو پوٹلی میں باندھ کر لٹکا دیا جاتا ہے۔
چھوٹے بچے خاص طور پر نظر بد کا شکار ہو جاتے ہیں لہذا دنیا بھر میں اس کا سد باب مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ اس میں پھٹکری سے بنی ہوئی مالا کا بچوں کے بستر کے ساتھ لٹکانا، دلچسپ طور پر کالک یا سرمے کا استمال بری نظر کو لگانے یا اس سے حفاظت دونوں کے لئے کیا جاتا ہے۔ آنکھوں میں سرمے کا استعمال، یا پیشانی پر کالک کا نشان لگانا وغیرہ شامل ہے

کہا جاتا ہے بڑی عمر کی خواتین کو نظر بد سے شفا دینے میں خصوصی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لئے نظر
بد کے متاثرہ چھوٹے بچوں کو ان کی نانی یا دادی کی تحویل میں دینے کا رواج تھا۔
پس نوشت : ڈاکٹر علی علومی کا ٹویٹر ہنڈلورثے کی ایک مثال ہے۔  @aaolomi


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments