پاکستان میں عوام اور حکمران کورونا کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لے رہے؟


مجھ سے میرے ایک دوست نے پوچھا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے، پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کورونا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی… کچھ کو تو یقین ہی نہیں آ رہا کہ آیا یہ بیماری پائی بھی جاتی ہے یا محض ایک پروپیگنڈا ہے؟ کچھ لوگ اسے بیرونی امداد کی کمائی کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں تو کچھ لوگوں کے نزدیک بیماری موجود ہے مگر لاک ڈاؤن نہیں ہونا چاہئے…

میں نے جواب میں شیفیلڈ (Sheffield) میں پیش آنے والا واقعہ بیان کیا۔ ہوا یوں کہ یو کے میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسی طرح کی غلط فہمیوں کا شکار تھیں جیسا کہ اوپر پاکستان میں بیان کی گئیں… یہاں تک کہ ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی تھی کہ اس بیماری سے صرف کافر ہلاک ہوں گے، ہم اس لئے بچ جائیں گے کیونکہ ہم طہارت کے اصولوں پر چلتے ہیں اور حلال کھاتے ہیں… مگر شیفیلڈ کے واقعہ کے بعد یہ ہوا کہ ان کے خیالات بدل گئے… اب ان کی وہی اکثریت اس بیماری کے حوالے سے محتاط ہے۔

شیفیلڈ میں کیا واقعہ ہوا ہے؟… میرے دوست نے استفسار کیا…

ہوا یہ کہ شیفیلڈ میں ایک شخص وفات پا گیا، پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد وہاں پہنچی اور جنازہ پڑھا گیا….. اس جنازے میں بدقسمتی سے ایک کورونا بیماری میں مبتلا شخص بھی پہنچ گیا…. یوں یہ بیماری اس نماز جنازہ میں موجود دیگر لوگوں کو بھی لگ گئی…. اور پھر ان میں سے جب کسی کی وفات ہوئی تو جنازے میں جانے والے گھروں میں ہی بیٹھے گئے اور نماز جنازہ ادا نہ کی…. لندن میں جب تک پاکستانیوں کو یقین نہ آیا کہ وہ بھی مر سکتے ہیں تب تک انہیں کورونا نامی بیماری کی موجودگی پر بھی شک تھا اور سمجھتے تھے کہ حکومت انہیں بس گھروں میں قید کرنا چاہتی ہے۔

پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد جب تک مشاہدہ نہ کر لے، خبر کو ماننے پر یقین نہیں کرتی….. اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے، اگر یہ بیماری پاکستان میں پھیلی اور عوام نے اپنے پیارے اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھے تو پھر یہ لوگ سوشل ڈسٹنسنگ بھی کریں گے اور مسجد ہو یا بازار اس میں مجمع لگانے سے پرہیز کریں گے… میں نے تفصیل سے جواب دیا۔

مگر میرے دوست کو میرے جواب سے اطمینان نہ ہوا… اس نے سر کھجاتے ہوئے پوچھا… اچھا عوام کے ساتھ تو سمجھیں، علم اور معلومات کا مسئلہ ہے مگر حکومتی اقدامات، رویے اور بیانات ۔۔۔ ان سب میں سے جھانکتی غیر سنجیدگی…. اس کا کیا مطلب ہے؟

اس سوال کا جواب سوشل سائنس میں فری رائیڈر پرابلم (Free-rider problem) نامی تصور میں موجود ہے۔ اس کی رو سے وہ لوگ جو کسی بھی شے یا سہولت سے مستفید تو ہو رہے ہوتے ہیں مگر اس کی قیمت یا تو دے نہیں رہے ہوتے یا نستبتا کم دے رہے ہوتے ہیں، وہ اس شے کے بحران یا کمیابی سے متعلق لاپرواہ اور غیر سنجیدہ رہتے ہیں…. پاکستانی سیاسی اشرافیہ (وہ تمام طبقات جو پاکستان میں اقتدار سے فیض یاب ہو رہے ہیں بشمول ملٹری و بیوروکریسی) کے صف اول کے لوگ کورونا سے زیادہ نہیں گھبرائے ہوئے، ایک سبب یہ ہے کہ وہ محفوظ جگہوں پر ہیں اور ہجوم سے دور ہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر ہجوم میں جانا بھی پڑ رہا ہے تو انہیں یقین ہے کہ بیمار ہونے کی صورت میں انہیں مکمل سہولیات دستیاب ہوں گے چاہے بحران جتنا بھی شدید ہو جائے…. ظلم یہ ہے کہ ان کے غلط فیصلوں کی سزا عموما عوام بھگت رہے ہوتے ہیں اور یہ صرف رس چوسنے (rent seeking) میں دلچسپی رکھتے ہیں….. میں نے جواب دیا۔

پاکستان میں خدا نہ کرے کورونا بحران سنگین ہو مگر جس طرح سے روزانہ کے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اب دس ہزار کا نشان پار کر چکی ہے اور 212 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، یہ بحران شدت اختیار کر سکتا ہے اور پاکستان جیسے ملک کا ہیلتھ کیئر سسٹم تیس چالیس ہزار کیسز سے زیادہ کیسز کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا…. اس وقت ہم شاید سمجھ جائیں گے کہ کورونا سے ڈرانے والے لوگ بھی سچے تھے اور حکومت غافل، بزدل اور نااہل ثابت ہوئی مگر اس وقت تک دیر ہو چکی ہو گی…. یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم آج سمجھیں تو شاید سنبھل جائیں، وگرنہ تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments