اے حمید ”ایک رومان ایک نوسٹلجیا“


انتیس اپریل کو اے حمید صاحب کی برسی ہے- اُن کی یاد میں ایک مختصر تحریر۔

اسلام آباد شریف میں جب بھی گہرے کالے بادل چھاتے ہیں تو اُنھیں دیکھتے ہی ہمیشہ کی طرح دل و دماغ میں اے حمید صاحب کی یاد کے بادل بھی منڈلانے لگتے ہیں۔

نوجوانی کے دنوں میں جو کچھ پڑھا جو کچھ دیکھا غرض جو بھی تجربہ ہوا۔ اُس نے شخصیت پر گہرا اثر ڈالا۔ اُس وقت لکھنے والوں میں صرف اے حمید صاحب کو جانتا تھا۔ بچپن میں بھی اُنہیں کی لکھی کہانیوں کو پڑھا۔ بس اُن ہی کے لکھے سے واقف تھا۔ اور ابھی دوسرے لکھاریوں کو دریافت نہیں کیا تھا۔ اُن کو متعدد خط بھی لکھے تب خط لکھنے کا رواج بھی تھا۔ اُن میں سے ایک عدد اخبار میں چھپا اور ایک کا تو اُنھوں نے جواب بھی لکھ ڈالا۔ تب میں خوشی سے پھولے نہیں سماتا تھا اور مست ہوا جاتا تھا۔ اُس خط کا جواب آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ سینما میں ابا کام کرتے تھے تو اُن کے ساتھ کام میں مدد کے لئے جاتا تو وہاں سلطان راہی اور شان شاہد کی فلمیں بھی دیکھتا تھا۔

اے حمید کے لکھے کو میں حرف آخر سمجھتا تھا۔ گو اب اُن کی تحریروں کے بارے میں میری رائے یکسر بدل چُکی ہے۔ پر اُن تحریروں کا اثر آج بھی محسوس کر سکتا ہوں۔ وہ اپنے ایک خاص انداز اور نوسٹلجیا کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ ان کی تحریروں میں بارش، خوشبو، چائے، اور سماوار کا ذکر بار بار پڑھنے کو ملتا ہے۔ اُنہیں فطری مناظر دیکھنے، پھول پودے، جنگل، بارش اور باغات وغیرہ سے عشق تھا۔ پاک و ہند ہجرت پر بھی کثرت سے لکھ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ عورت اُن کی تحریروں کا خاص موضوع رہی ہے جس کی تعریف اور رومان میں وہ زمین آسمان ایک کر دیتے تھے۔

یہ سب تحریریں پڑھتے ہوئے میں بھی ایک رومانس میں مبتلا ہو جاتا تھا۔ اُسی رومانس کا اثر اب بھی محسوس ہوتا ہے۔ جب کبھی بھی آسمان پر کالے گہرے بادلوں کی وجہ سے ہلکا اندھیرا چھا جائے۔ بارش ہو رہی ہو یا ہونے کا امکان ہو۔ ہوا چل رہی ہو اُس سے درختوں کے پتے لہرا رہے ہوں۔ تو ایسا منظر بارش وغیرہ مجھ پر بھی نوسٹلجیا، ایک سحر طاری کر دیتا ہے۔ اے حمید صاحب کی یاد دلاتا ہے۔ اُن کی کتابوں کے مناظر، جگہیں، رومان اور کردار میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ بچپن میں پڑھی کہانیاں یاد آنے لگتیں ہیں۔

پھر وہ چاہے جنگلوں پے برستی بارش کا ذکر ہو۔ پھول پتے، پودے، خوشبو، چائے اور سماوار کا ذکر ہو۔ یا پھر حسیناؤں کے حِنا مالیدہ ہاتھ، اُن کے آلوچے جیسے بھرے بھرے ہونٹ، لمبی زلفیں اور لچکیلے بدن ہوں، یا اندھیری گلیاں، گھنے بادل، سنسان سڑکیں اور اُن پر برستی بارش، بارہ دریاں، خانقاہیں، پرانی عمارتیں، مندر، گرجا گھر، دھول سے اٹی راہیں، راہب، پنڈت، ناریل کے پھول، گیندے کے پھول، باغات، ریلوے سٹیشن، ریل کی پٹریاں، دھند میں لپٹے کھیت، جاڑے کی راتیں، مندر میں بوچا کرتیں ناریاں اُن کے بدنوں سے لپٹی ساڑیاں اور نا جانے کیا کیا دماغ میں گھومنے لگتا ہے۔

اُن کو جس نے بھی پڑھا ہے وہ سمجھ سکتا ہے، محسوس کر سکتا ہے کہ اے حمید ایک رومان ہے ایک نوسٹلجیا ہے جو اے حمید کے پڑھنے والوں کی آخری سانس تک اُن کے ساتھ رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments