کورونا کے ساتھ کرپشن کے وائرس سے بھی لڑنا ہے!



تحریک انصاف حکومت کو قائم ہوئے بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ گندم اور چینی کے بعد پاور اسکینڈل بھی سامنے آچکا ہے، مگر ان تمام اسکینڈلوں کے کرداروں کا ابھی تک کچھ نہیں بگاڑا جاسکا، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے تمام اہم کردار وفاقی کابینہ میں موجود ہیں۔ اصولی طور پرہونا تویہ چاہیے تھا کہ ذمہ دارین کو فوری طور پر اقتدار کی راہ داریوں سے دور کردیا جاتا، تاکہ غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوسکیں، مگر سب وفاقی کابینہ میں نہ صرف شامل ہیں، بلکہ ان کا شمار بااثر وزرا میں ہوتا ہے۔

اس کے باوجودوفاقی کابینہ نے بجلی کے شعبے میں مبینہ گھپلوں اور عوام کو مہنگی بجلی کی فراہمی کے حوالے سے انکوائری رپورٹ عام کرنے کا فیصلہ کیاہے، اس کے نتیجے میں اس شعبے میں شفافیت لانے کی کوششیں موثر طور پر بروئے کار آئیں تو دوسرے شعبوں میں بھی اصلاح و بہتری کے امکانات روشن ہوں گے۔ اس حوالے سے قانون کے مطابق کمیشن آف انکوائری تشکیل دیا جارہا ہے جو فرانزک یا مزید تحقیقات کرنے کا مجاز ہوگا۔ اس کی تحقیقات سے ایسے لوگوں کا واضح تعین کیا جا سکے گا جو بجلی کے پیداواری و ترسیلی نظام اور ملکی معیشت کے لئے مشکل صورتحال پیدا کرنے میں ملوث رہے ہیں۔

اس تناظر میں وزیر اعظم نے جہاں اس بات کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں، وہاں یہ بھی واضح کیا ہے کہ کوئی بھی طاقتور گروہ عوامی مفادات کا خون کر کے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گا، اس کے بعد عوام میں قوی امید قائم ہوئی ہے کہ منافع خوری کے مکروہ دھندے میں ملوث افراد کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔

یہ امرواضح ہے کہ سابق ادوار میں حکمران طبقات کی جانب سے قومی دولت و وسائل کو شیرمادر کی طرح چوسا اور چچوڑا جاتا رہا ہے۔ تحریک انصاف سے عوام نے اپنے تلخ تجربات کی بنیاد پر ہی بہتر مستقبل اور کرپشن فری معاشرے کی توقعات وابستہ کی ہیں تو اس کی سیاسی اور حکومتی قیادت کو بہرصورت عوام کی ان توقعات پر پورا اترنا ہے جس کے لئے آٹا ’چینی کے مصنوعی بحران اور نجی پاور پلانٹس کے ذریعے قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے والوں کو کیفرکردار کو پہنچانا ضروری ہے۔

اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان اپنے اصولی موقف پر سختی سے قائم ہیں اور کورونا کے ساتھ ساتھ کرپشن کے وائرس سے بھی لڑنے کا عزم رکھتے ہیں، انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ آٹاچینی اور پاورپلانٹس سکینڈلزرپورٹ کے نتائج سامنے آنے کے بعد کوئی بھی طاقتور گروہ عوامی مفادات کا خون کر کے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گا۔

اس تنا ظر میں جہاں وفاقی حکومت نے پاور سیکٹر میں ہونے والے گھپلوں پر کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے، وہاں نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے بھی گندم ’چینی میگا سکینڈل اور پاکستان پٹرولیم میں کرپشن کی تحقیقات کی منظوری دیدی ہے۔ گندم اور چینی کی فرانزک رپورٹ آنے کے بعد نیب کو اس سلسلے میں تو کسی قسم کی مزید تحقیق کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، کیونکہ پہلے ہی تحقیقاتی کمشن نے عرق ریزی سے اس پر کام کیاہے، لیکن پاکستان پٹرولیم میں کرپشن پر نیب کو خود تحقیق کرنا ہو گی۔

اگر نیب سنجیدگی سے شفاف تحقیقات کا آغاز کرے تو اربوں روپے کے مزید گھپلوں کا انکشاف ہو گا۔ پی ایس او میں پہلے ہی اربوں روپے کے گھپلوں کا انکشاف سننے میں آ رہا ہے، پچھلے برس تیل چوری کے 48 کیسز سامنے آئے ہیں، جس پر ذمہ داران کی جانب سے کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں لیاگیا، اس کے علاوہ پی ایس او کے ٹینکرز کے ذریعے دیگر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو بھی تیل کی ترسیل کا انکشاف ہوا ہے، جبکہ نیب کے پاس پہلے سے ہی پی ایس او کا 23 ارب روپے کا سکینڈل موجود ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئی پی پیز ایک سفید ہاتھی کی شکل ختیار چکا ہے، انکوائری رپورٹ کے مندرجات کے مطابق 13 سال میں قومی خزانے کو 4 ہزار 802 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، جس میں سبسڈی اور گردشی قرضے کی وجوہات شامل ہیں۔ 16 آئی پی پیز نے 50 ارب 80 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی اور 415 ارب روپے سے زائد کا منافع کمایاہے۔ ہر دوسرے مہینے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا رہا، لیکن ارباب اختیار نے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی، یہ طرفہ تماشا ہے کہ عوام بجلی استعمال کریں یا نہ کریں، حکومت آئی پی پیز کو پیسے دے گی، آج تک کسی بھی حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ 1994 ء میں ہونے والے معاہدے پر نظرثانی نہیں کی ہے، کیونکہ آئی پی پیز کے مالکان کسی نہ کسی شکل میں حکومت میں شامل رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے اس معاہدے پر نظرثانی کرنا گوارا نہیں کیا، کیو نکہ ان کی حکومت نے ہی یہ معاہدہ کیا تھا، جبکہ مسلم لیگ (ن) نے اس بنا پر خاموش رہی کہ ان کے ذاتی مفادات معاہدے سے وابستہ تھے۔ مشرف دور میں بھی مفاد پرست طبقہ اقتدار کی راہداریوں میں موجود رہا اور آج بھی آئی پی پیز کے مالکان وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔ نیب ہو یا کوئی اور ادارہ جب تک طاقتور ملزمان سے ریکوری کر کے انہیں جرائم کی سزا نہیں دلواتا تب تک تحقیقاتی کمشن قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، بلکہ یہ وقت کا ضیاع ہو گا۔

اس میں شک نہیں کہ نیب کارکردگی کے حوالے سے آزاد خود مختار ادارہ ہے، تاہم اکثر ٹھوس بنیادوں پر شواہد نہ ہونے کے باعث با اثر ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں۔ اگر نیب ٹھوس شواہد کے ساتھ گندم ’چینی اور پی ایس او میں کرپشن کرنے والے با اثر ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں کامیاب ٹھہرتی ہے تو یقینی طور پر عوام کے نزدیک اس ادارے کی تحسین کی جائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان کرپٹ مافیاز کی جڑ کاٹنے کے راستے پر گامزن ہیں، وہ کورونا کے ساتھ ساتھ کرپشن کے وائرس کا بھی خاتمہ کر نا چاہتے ہیں، انہوں نے موجودہ بحران میں ثابت کیا ہے کہ وہ معاشی مشکلات کی پروا کیے بغیر اس ملک کے بھوکے ننگے‘ بے روزگار ’ستم رسیدہ عوام کے مصائب کم کرنے کے لئے کوشاں ہیں، اگر آٹا‘ چینی ’پٹرول‘ بجلی اور قرض معافی سکینڈل میں ملوث با اثر افراد کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہو گا کہ قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کو سزا ملے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments