پابندی مت لگائیں، مساجد میں جانے کا پاس جاری کریں
گزشتہ چند دنوں سے بے بس حکومت اور طاقتور علما کے درمیان رسہ کشی چل رہی ہے۔ حکومت کہتی ہے کرونا پھیل رہا ہے، ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ زیادہ پھیلاؤ کی صورت میں علاج فراہم کر سکیں، علما کہتے ہیں کہ تمہاری جرات کیسے ہوئی کہ مساجد میں باجماعت عبادات سے روکو، وہ بھی رمضان جیسے مبارک مہینے میں جب عوام کا رجحان نیک اعمال کرنے اور راہ خدا میں خرچنے کی طرف ہوتا ہے۔ سارے سال کا اجر ایک طرف، اس ایک مبارک مہینے کے فیوض و برکات ایک طرف۔ حکومت کہتی ہے کہ پانچ سے زیادہ افراد اجتماع مت کریں، علما کہتے ہیں کہ عوام خود آ جاتے ہیں تو ہم کیا کریں؟ ویسے بھی کسی کو اس طرح عبادات سے روکنا مناسب نہیں ہے۔
ہم نے معاملے پر غور کیا ہے اور دونوں فریقین کو حق پر پایا ہے۔ حکومت کی پریشانی بجا کہ اس کے پاس نا طاقت ہے نا استطاعت۔ علما کی پریشانی بجا کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں حکومت دین اور مساجد کے معاملات میں کیسے دخل اندازی کر سکتی ہے، یہ کوئی سعودی عرب، ایران، مصر، امارات یا ایسے دیگر ممالک جیسی بادشاہت تو ہے نہیں کہ بادشاہ جو کہے وہی درست قرار پاتا ہے اور علما اس کی مانتے ہیں۔ یہ تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔
ہماری رائے میں معاملہ اتنا پیچیدہ نہیں ہے جتنا حکومت نے بنا دیا ہے۔ واقعی عبادت کے لیے جمعے، نمازوں، تراویح اور عید وغیرہ کے اجتماعات پر مشرق وسطیٰ کے ممالک کی نقل میں قدغن لگانا مناسب نہیں ہے۔ جس شخص کا دل کر رہا ہے کہ وہ مسجد میں جا کر عبادت کرے، حکومت اسے کیسے روک سکتی ہے۔ بفرض محال وہ ایسا کرنے کی کوشش بھی کر لے تو شوق سجود سے بھرے لوگ اس کی ناک توڑ دیں گے، جیسا کہ آپ نے کراچی کی ایک تھانیدارنی کی ناک ٹوٹتے دیکھی ہو گی۔
بہتر ہے کہ معاملہ افہام و تفہیم سے ایسے انداز میں حل کیا جائے کہ فریقین کے تحفظات دور ہو جائیں۔ ہماری رائے میں مساجد میں جا کر اجتماعی عبادات میں شامل ہونے کے خواہش مندوں کو خصوصی اجازت نامے جاری کیے جائیں اور پولیس کو ہرگز اس امر کی اجازت نا دی جائے کہ وہ ان نیک لوگوں کو فرض، سنت اور نفل کی ادائیگی سے روکے یا ان کے اعتکاف میں بیٹھنے پر معترض ہو۔ اس سے مساجد میں جا کر عبادات کرنے والوں کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔
اب حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر اجتماعات کے باعث کرونا پھیل گیا تو اس کے ہسپتال اتنی تعداد میں کیسے لوگوں کا علاج کریں گے؟ حکومت کا یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے وہ مجوزہ بالا اجازت نامے کی درخواست میں ایک حلف نامہ بھروا لے کہ کرونا کا شکار ہونے کی صورت میں اجازت نامہ حاصل کرنے والے افراد کو سرکاری ہسپتال میں داخل نہیں کیا جائے گا اور وہ اپنا علاج اپنے گھر پر خود ہی کروائیں گے۔ اس حلف نامے کے ذریعے نادرا کے ریکارڈ میں ان کا شناختی کارڈ مارک کر دیا جائے اور ہسپتال لائے جانے کی صورت میں ان کے حلف نامے کے مطابق انہیں داخل یا واپس کیا جا سکتا ہے۔
یوں حکومت کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا کہ اس کے ہسپتالوں پر بوجھ نہیں پڑے گا، اور عبادت گزاروں کو بھی بلاوجہ تکلیف نہیں اٹھانی پڑے گی۔ حکومت کو بھِی بے فکری ہو جائے گی کہ یہ برگزیدہ افراد وبا پھیلانے کا باعث نہیں بن رہے اور ان نیک روحوں کو بھی مکمل یکسوئی سے عبادت کرنے میں دقت نہیں پیش آئے گی۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).