ذاتی صفحہ: آج کچھ درد مرے دل میں


\"shakeel

ممکن ہے آپ کو بھی اس قسم کا تجربہ ہوا ہو کہ خیالوں کا ایک ہجوم ذہن میں شور کرتا ہو اور قلم منحرف ہو، کبھی یہ واقعہ بھی ہوتا ہے کہ قلم اظہار کے لیے بے قرار ہے اور ذہن انکاری، خالی خالی سا ہے، اور کبھی ایسا بھی کہ دماغ اور قلم کی یک جائی ہے، دونوں آمادہ اظہار ہیں، اور یک سوئی نہیں ہو پارہی۔ دل ہے کہ کسی تلاطم سے دو چار ہے۔ یہ قلم کیا! قلم تو ایک وسیلہ ہے، زبان کی طرح؛ سبھی کی آمادگی شرط ہے، دل کی دماغ کی اور زبان کی۔ اِس نامہ جاں، نامہ شوق، ذاتی صفحے کی خامہ فرسائی کے وقت میری حالت بھی کچھ یہی ہے، اور اس مرتبہ کچھ یوں ہے جیسے کوئی روکتا ہو۔ میں اسے پہچان نہیں پا رہا، لیکن جیسے کوئی بہ ضد ہے کہ یہ مت کہو، وہ مت لکھو، جانے بھی دو، سب کچھ کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا، اور اب کیا کہنا سننا ہے، چپ رہو، اور ہوسکے تو اِس بار یہ صفحہ سادہ ہی چھوڑ دو، بین السطور پر موقوف کرو۔ شاید کچھ حقیقتوں کی تکرار سے اس فشار و غبار کی منزل آسان ہو۔

یہ زندگی بھی کیا تماشا ہے۔ جب دیکھیے، ایک فسانہ ہوتا رہتا ہے؛ کبھی ٹھمک ٹھمک ساتھ چلتی ہے، کبھی کسی سبب بہ غیر رُوٹھ جاتی ہے، اور ہزار مناو، رُوٹھی ہی رہتی ہے، کہیں دیوار بن جاتی ہے، کبھی کھِلواڑ کرنے لگتی ہے، مجھ سے تو یہ کچھ زیادہ ہی چہلیں کرتی رہی ہے۔ چھہ سال کی عمر تھی کہ قریباً نوجوان باپ کو جدا کردیا۔ مشفق نانا نے پروں میں سمیٹ لیا۔ اُن دنوں اُن کا ستارہ چمک رہا تھا، ابا کے چلے جانے کا احساس ہی نہیں ہوا، پھر کسی بد نگاہ کی نظر لگ گئی، نانا کے بال و پر شکستہ ہونے لگے تو بولے، ”اب آگے تمھیں نہیں پڑھا سکتا۔“ ٹیوشنیں کر کے کسی طور تعلیمی شغل جاری رکھا کہ اس طور ازالے ممکن تھے۔ جب حالت دگر گوں ہونے لگی تو ایک رات، گھر میں کچھ بتائے بہ غیر، ایک مہاجن کے پاس اماں کی چمپا کلی گروی رکھ کے چالیس رُپے جوڑے اور اس شہر پناہ گیراں میں آ کے دم لیا۔

چند مہینے زندگی نے شوخیاں جاری رکھیں، پھر ابا کے دوست اور ساتھی حضرت رئیس امروہوی کی خانقاہ میں قدم رکھا تو ایسا لگا کہ دوسرا گھر میسر آگیا ہے۔ کچھ جی بھی اس طرف مائل تھا، روز و شب بھی شعر و ادب کے نصیب ہوئے؛ مباحثے، مناظرے، نام وراں، سخن وراں کی محفلیں، عالموں کی جوتیاں اٹھانے کا شرف۔ چند دن پہلے رئیس امروہوی اور سید محمد تقی کے بھائی شاعرِ بے بدل جون ایلیا بھی سینہ چھلنی کیے اس شہر میں آ بسے تھے۔ علاج ہوتا رہا، اور بڑے بھائیوں نے چھوٹے نا تواں بھائی کی گزر بسر اور اُفتادِ طبع کے پیشِ نظر ایک علمی اور ادبی پرچے ”انشا“ کا اہتمام کیا۔

یہ فروری 1958ء کی بات ہے۔ یہ بے یار و مدد گار بھی اسی سے منسلک ہوگیا۔ ہر طرح کے جتن کرلیے، اشاعت کی سوئی بارہ سو کا ہندسہ نہ پھلانگ سکی۔ اُس زمانے میں لاہور کے ایک ڈائجسٹ کی کثیر اشاعتی نے ششدر کر رکھا تھا، سو ”انشا“ کو عالمی ڈائجسٹ کردیا گیا۔ قامت گھٹ جانے اور سیرت بدل جانے پر اتنا ضرور ہوا کہ اشاعت چار ہزار تک پہنچ گئی اور سوئی پھر اٹک کے رہ گئی۔ تنگ آ کے اُسے داستانی رنگ دینے کی تدبیر کی۔ یہ کرنا تھا کہ اشاعت بیس ہزار جا پہنچی۔ ”انشا“ کا رُوپ بدلنے پر جون صاحب عملاً کنارہ کش ہوچکے تھے، میں اور ان کے ایک اور بڑے بھائی سید محمد عباس ہی جتے رہتے تھے۔

حساب کتاب، انتظام، اشاعت کے معاملات سے وہ نمٹتے تھے۔ کہانیوں کا انتخاب، سرخیاں، نوٹ، آرائش، جز بندی، طباعت اور اشتہارات کے حصول کی ذمے داری میری تھی۔ کم اشاعت رسالے کا سب سے تکلیف دہ مرحلہ اشتہارات کا حصول ہے، جان پر بن آتی ہے۔ دن میں پرچے کی دوڑ بھاگ، شام کو کالج، رات گئے تک نصابی کتابیں پڑھنا، اور نامے لکھنا۔ اُس گھر میں چودہ سال کی رفاقت کے بعد منکشف ہوا کہ اپنا تو کچھ بھی نہیں۔ خوش گمانیوں میں اتنا وقت گُزر گیا۔ دوسری بار دوسرے گھر سے ہجرت کرنی پڑی۔

ارادہ ہی ایک سرمایہ تھا، اور ایک زعم اور اعتماد کہ کچھ ممکن ہوجائے گا۔ اُس کے بعد کا قصہ آپ کو معلوم ہے۔ مختصر یہ کہ ”سب رنگ“ نے اپنی طرز کے رسالوں میں ایسا کچھ کر دکھایا کہ ایک رِکارڈ ہے، اور آج تک قائم ہے۔“سب رنگ“ کا اجرا میرے لیے دوسرے جنم کے مانند تھا، بے شمار محرومیوں اور تلخیوں کا مداوا۔ میں نے قریب ہی کسی شمارے میں عرض کیا تھا کہ محنت، دیانت اور راست سمت میں فکر و کاوش، چاہے وہ کسی شعبے میں ہوں، ضرور ثمر دیتی ہیں۔ ”سب رنگ“ کے بعد میں نے اپنی نہیں، ”سب رنگ“ کی زندگی گزاری ہے، عام آدمیوں سے یک سر مختلف۔ زندگی کے دیگر معمولات، مطالبے بھی گو پورے ہوتے رہے مگر رسمِ ادائی کی طرح۔ ”سب رنگ“ ہی مقدم و محترم، ”سب رنگ“ ہی حرزِ جاں بنا رہا۔

پذیرائی سے دو مختلف صورتیں ہوتی ہیں، یا تو ایک اطمینان کہ بات تو اب بن ہی گئی ہے، یا ایک اضطراب کہ بات بنی ہے تو کسی طرح بنی ہی رہے، بل کہ اس سے کچھ سِوا ہو۔ ہر شمارے کا اہتمام اس بے چینی سے کیا جاتا رہا کہ وہی پہلا شمارہ ہو۔ گزشتہ شماروں کی پذیرائی کی رعایت میں پانو پسارے نہیں گئے کہ اب تو چاروں طرف کچھ ثابت ہو ہی چکا ہے، ایک دو شماروں کی تن آسانی سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ ہر بار کنواں کھودنے، از سرِ نو بساط بچھانے اور پہلے سے کچھ نیا کر دکھانے کا سودا۔ ایک ہی موضوع ہونے کے باوجود ہر بار کے ذاتی صفحے میں ہیجان بیانی کا یہی ایک سبب تھا، اور ہوا یہ کہ آٹھ سال کے تواتر کے بعد خوب تر کی جست جو میں رخنہ پڑتا گیا۔ اُدھر یاروں نے فسانہ طرازیاں شروع کردیں کہ اب تو چمک دمک سے آنکھیں خیرہ ہوجانی چاہیں۔ حال آں کہ عدم تواتری کا نتیجہ تو صاف زیاں تھا، اور کوئی چار پانچ کا نہیں، سات آٹھ ہندسوں کا زیاں۔ اپنی زبان سے کہنا نہیں چاہیے، لیکن یہاں بہت سے گواہ ہیں۔ تواتر سے اعتبار کا اندیشہ زیاں تھا تو عدمِ تواتر سے نانِ شبینہ زد پر آ جانے کا۔ دفتر موجود تھا، رفقا بھی اور گھر بھی قائم۔ رفتہ رفتہ ہاتھوں سے کیا کیا چھلنی ہوتا رہا، پلاٹ، گھر اور بہت کچھ ۔۔۔ کہاں تک گِناؤں لیکن اعتبار تو ہواؤں سے بچائے رکھا۔

اس ملک میں رسالہ کاری ایک مشکل کام ہے۔ پندرہ کروڑ سے زائد آبادی بتائی جاتی ہے۔ اخباروں، رسالوں اور کتابوں کے لیے ایک کروڑ سے زیادہ نہیں۔ خواندہ کو مطالعے سے ایسی رغبت نہیں اور کتابیں رسالے خریدنے کی روایت شاذ شاذ ہے۔ سو میں شاید کسی ایک گھر کے بجٹ میں کتاب کی خریداری کی گنجائش رکھی جاتی ہے۔ نصاب کی بات دِگر ہے۔ کہانی کے رسالے کے لیے اعلا درجے کی کہانیوں کی دست یابی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اِدھر الیکٹرانک میڈیا نے مطالعے کا بہت سا وقت غصب کرلیا ہے۔ ”سب رنگ“ کی اور مشکل تھی، ہر بار بہ ترین انتخاب پر اصرار، زبان و بیان کی صحت، عبارتوں، پیرایوں میں نفاست، جمالیات کا احساس، پیش کش میں کسی ندرت کی فکر۔ جیسے جیسے سفر بڑھتا گیا، وحشت بھی دو چند ہوتی رہی کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے، آخر آخر وقت میں تصحیح و ترمیم، غلطی رہ جانے پر جان کنی کی حالت۔

“سب رنگ“ کی وجہ سے بہت سے لوگ قریب آئے اور ”سب رنگ“ اُنھی کی رقابت کا باعث بنا۔ کیا سوسن و سنبل، کیا نسرین ناز آفریں۔ کچھ ہوش ہی نہیں تھا، کس نے دستک دی ہے، کون لالہ رُخ سار، ماہ جمال دروازے پر ہے۔ ”سب رنگ“ تو خود ایک کارِ عشق تھا، ایک عشق کے بعد پھر کسی اور طرف دیکھنے کی مہلت کہاں ملتی ہے۔ اس آفتِ جاں نے ہر طرح سے باندھ رکھا تھا۔ 37 سال بعد اب اغیار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا تو اپنا ایک مزاج، ایک تیور ہے، اس کا تو اپنا ایک لہجہ، اپنا ایک ذائقہ ہے، اپنی ایک چھب ڈھب ہے۔۔۔ اور یہ تو ایک فرد ہے، اور فرد کی تو ایک بساط ہوتی ہے۔ دو ڈھائی سال ہوئے، ادارہ بنانے کے ارادے سے، ”سب رنگ“ کے انتظامی ڈھانچے میں کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں؛ اس خیال سے کے باقی امور، طباعت، اشاعت، اشتہارات اور حساب کتاب وغیرہ سے فراغت ہو تو بالکلیہ ”سب رنگ“ کی تدوین و آرائش میں وقت صرف کیا جائے۔ نئی صورتِ حال سے بے قاعدگی میں خاصی کمی ہوئی، اور ”سب رنگ“ کو ”سب رنگ“ ہی رہنے دیا گیا۔

صفحے میں سمائی نہیں ہورہی، مزید کچھ کہنے کا یارا بھی نہیں۔ میرے لیے یہ سب سے گراں ذاتی صفحہ ہے، باقی پھر کبھی، پھر کہیں۔۔۔ اپنی سوسن و سنبل کو سلام، اپنی نسرین نازِ آفریں کو سلام۔ گزارش ہے، جو نہیں لکھ پایا، اسے بین السطور پڑھ لیجیے۔ سرِ دست تو یہ شمارہ دیکھیے، ”سب رنگ“ ہی ہے نا! اور تو کچھ نہیں کہنا۔ خدا حافظ! پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔ ایک اور مصرع بھی ذہن میں منڈلا رہا ہے؛ آج کچھ درد مرے ۔۔۔ باقی آپ مکمل کرلیجیے۔ وما علینا اِلا البلاغ۔ شکیل عادل زادہ عفی عنہ۔

جلد نمبر: 38، شمارہ نمبر: 132 – 133، دسمبر 2006


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments