بھیک بیٹھک اور آخری ہتھیار



کورونا وائرس ایک ایسی الجھن ہے جس کو سلجھانے کے لئے ہمارے پاس آئیں، بائیں، شائیں، کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اور سرکاری طور پر ہم نے آخری ہتھیار تھا وہ بھی کل بھیک بیٹھک کے آخر میں فائر ہوگیا اب کورنا جانے اور اس کا نصیب۔

ملکی تاریخ کی سب سے بڑی بھیک بیٹھک ”احساس ٹیلی تھون“ نام سے سجائی گئی تھی۔ اس بیٹھک میں ملک کے بڑے صحافتی ناموں کے ساتھ منسٹرز بھی بیٹھے تھے۔ یہ سرکاری سطح پر کورونا وائرس کے خلاف آخری اور موثر کارروائی تھی۔ اس احساس ٹیلی تھون کے دوران 55 کروڑ 75 لاکھ روپے کے عطیات جمع ہوئے جبکہ اب تک مختلف ٹیلی تھون کے ذریعے 2 ارب 76 کروڑ روپے سے زائد کے فنڈز جمع ہوچکے ہیں۔

اس بیٹھک میں کچھ جاوید میاں داد جیسے بدتمیز بھی آن کال لیے گئے جنہوں نے بھکاریوں کا تاریخی کچا چٹھا کھول کہ رکھ دیا۔ جاوید میاں داد نے اپنے روایتی انداز میں فرمایا کہ وزیراعظم عمران بھائی سے یہی کہوں گا کہ ہماری قسمت میں تو مانگنا ہی رہ گیا ہے۔ بچپن سے لے کر اب تک مانگ ہی رہے ہیں۔

لوگ حسب توفیق دیتے رہے یوں یہ پیسے جمع ہوگئے۔ پھر محسوس ہوا کہ ابھی کورونا وائرس میں تھوڑی بہت سانس بچی ہے تو فیصلہ ہوا کہ اب سرکاری طور پر ہمارے پاس بچا آخری ہتھیار بھی استعمال کردینا چاہیے۔ محفل سج گئی لوگ رونے کے لئے تیار ہو گئے اور مولانا طارق جمیل صاحب رقت آمیز دعا کا دوسرا ورژن لے کر پہنچ گئے۔ دربار الہٰی میں ہاتھ کھڑے ہو گئے دعا شروع ہوگئی اور لوگ لائیو نشریات کے ساتھ رقت آمیز دعا سے محظوظ ہوتے رہے روتے اور کورنا وائرس کو کوستے رہے۔

اب پتا نہیں کہ ہماری قومی لیول پر یہ آخری ہتھیار کتنا کارآمد ثابت ہوا۔ کورونا وائرس ہماری آہ و بکا کو دیکھ کر اپنا بوریا بستر باندھ کر جا چکا ہوگا۔ اگر اس نے ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کیا تو اب ہم اس کو کیا کر سکتے ہیں کمبخت نظر بھی نہیں آتا جو پگڑی قدموں میں رکھ کر منت ترلے کرتے۔ نا ہی سننے کی سکت رکھتا ہے جو ہماری بہادری کے قصے کہانیاں، فتوحات کے سلسلے، وہ ہمارے تاریخ کے روشن باب، وہ ہمارے نمبر ون ہونے کے گیت، وہ ہمارے جذبہ ایمانی کے قصے کہانیاں سن کر ہی بھاگ جاتا۔ مجھے تو یہ کورونا بڑا ہی ڈھیٹ بے شرم نمک حرام اور ملحد لگتا ہے۔ کچھ شک و شبہات ہیں کہ صیہونی ایجنٹ ہی نا ہو۔ خیر جو بھی ہو اب تو ایسا لگا ہے کہ ہمارے حصے بخرے کرنے کے دہانے پر ہے۔

کورونا وائرس مکمل پنجے گاڑ چکا ہے یہ حقیقت سمجھ نہیں آئی تو ہمارے حکمرانوں کو سمجھ نہیں آتی۔ آتی بھی ہے تو کم از کم مولویوں کو سمجھا نہیں پا رہے۔ خدا کرے کوئی ایک کورونا وائرس کا دانہ تربوز جتنا ہو جسے ہمارے عماء کرام دیکھ کر یقین کر لیں کہ ہاں کورونا وائرس بھی کوئی بلا ہے۔ باقی سادہ لوح شخص جسے سپاہی چپیڑ مار کر سمجھا دے وہ بیچارہ تو سمجھ لیتا ہے۔ مسجد میں بیٹھا مولوی اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ ریاست اب اسے نپٹ نہیں سکتی۔ وہ تھرپارکر کے مندروں کے بیچ کی کوئی مسجد ہو یا پھر اسلام آباد میں بنی کوئی لال پیلی مسجد۔

ہمارے آدھے سے زائد لوگ غیر سنجیدہ اور خام خیالیوں میں مبتلا ہیں اوپر سے سرکاری طور پر دعائیہ نشستیں چلا کر لوگوں کو ایک قسم کا اطمینان دیا جا رہا ہے جس کے نتائج شاید خطرناک ثابت ہوں۔ عوام میں پائی جانے والی سب سے بڑی خام خیالی یہ ہے کہ ہم اہل ایمان ہیں اور وائرس تو کیا ہمیں کوئی چیز کچھ نہیں بگاڑ سکتا لہذا مساجد، مدارس، تبلیغ، مجالس، پوجا، بند نہیں کریں گے اور یہ وائرس یہودی سازش ہے۔ اچانک ایک وائرس کو اسلام کا بہت بڑا دشمن بھی بنا کر پیش کردیا گیا۔ مساجد پر تالے لگے تو چھتوں پر عبادات کے سلسلے شروع ہوگئے۔ حکومت جو ان ملاوں کے آگے ڈھیر ہو جاتی ہے، اس بار بھی ڈھیر ہو گئی۔

سندھ حکومت بالخصوص مراد شاہ کے اقدامات قابل تعریف تھے لیکن سچ یہ تھا کہ یہی پیپلزپارٹی تھی جس کی بدولت سندھ کے ہسپتالوں میں 140 وینٹیلٹرز ہیں۔ بیڈ، لیبارٹریز، کوئی سہولت نہیں۔ صرف دکانیں بند ہوئیں باقی کوئی سلسلا نا رک سکا، پولیس رینجرز لوگوں کو گھر بٹھانے میں فیل ہو گئی۔ جو بیروزگار ہوئے ان کو راشن نا دے سکی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اس دہانے پر پہنچنے والے ہیں جہاں موت ہمارے اہل عیال کی منتظر ہے۔

دنیا کے ایوینٹ کینسل ہوگئے۔ کعبے کو بند کردیا گیا۔ لیکن سعودی عرب کو کیا پتا ایمان سیکھنا ہے تو ہم سے سیکھیں، حکومت سے ایک تبلیغی اجتماع بند نا ہو سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وائرس گھر گھر پہنچ گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مذہبی ملک کی اکثریت کے فیصلے چند ایسے علماء کے ہاتھ ہیں جن کو نا وبا کا پتا ہے نا وہ وائرس کو جانتے ہیں، نا کوئی میڈیکل نالج رکھتے ہیں ناہی ان کو کسی وبا کے اس قدر خطرناک ہونے کا اندازہ ہے ان کو اگر نظر آتا ہے تو جاگتے، اٹھتے، بیٹھتے، سوتے، کھاتے پیتے یہودی سازشیں نظر آتی ہیں۔

میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہودیوں کے پاس اتنا ٹائم ہی نہیں کہ ہمارے خلاف سازشیں کریں جو سب سے بڑے ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ چار ماہ میں ہمارے اچھے بھلے لوگوں کو یقین نہیں آ سکا کہ وائرس ہے بھی یا آمریکا کی کوئی سازش ہے۔ جہاں تک حکومتی اقدامات ہیں علماء کرام کے افسوس ناک رویے کے ساتھ وفاقی و صوبائی حکومتوں، حکومت و اپوزیشن کی غیرسنجیدگی ہے۔

ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ جن ممالک کے پاس ایسا وزیراعظم نہیں جو ملکی لیول پر کورونا وائرس کے خلاف بڑی بھیک بیٹھک لگا سکے۔ جن ملکوں کے پاس طارق جمیل صاحب جیسا عالم نہیں جس کے پاس کرپشن کے خلاف، ملکی ترقی اور کورونا وائرس کے خلاف رقت آمیز دعائیں موجود ہوں۔ پولیس، فوج، کرکٹ، ہر ملکی ادارے میں بدعنوانی ختم کرنے کے لیے اس عالم کے پاس دعائی نسخے موجود ہوں۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ عالمی وبا کے خلاف کامیاب دعا موجود ہو۔ وہ ممالک کیسے کرپشن پہ قابو پاتے ہیں اور کورونا وائرس سے کیسے لڑتے ہوں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments