کرونا، لاک ڈاؤن اور اذانیں



ملک میں لاک ڈاؤن کو دو دن اوپر ایک ماہ پورا ہو چکا ہے۔ پابندی کی زنجیریں پڑی ہوں تو وقت بھی جیسے رک سا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ساری عمر گویا اسی کیفیت میں گزر گئی۔ وہ دن زندگی کا حصہ ہی نہیں لگتے جب ہم آزادانہ گھوما کرتے تھے، ہر سطح کا بے خوف و خطر لمس لیا کرتے تھے۔ بازاروں میں، عوامی مقامات پر کھوے سے کھوا چھلا کرتا۔ شادی بیاہوں میں، تقریبات میں اک دوجے سے جڑ کے بیٹھا کرتے تھے۔

بس اڈوں پر، تھیٹروں کے باہر، کنسرٹس میں اک دوجے کو دھکے، کہنیاں مارتے آگے بڑھا کرتے تھے۔ نصیبو لعل بلا خوف وخطر ببانگ دہل کہا کرتی تھی ”جپھی گھٹ کے جے پاویں اک وار گجرا۔ “ برا ہو اس وائرس کا جس نے نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ چاردیواریوں میں قید اور اگر بہ امر مجبوری باہر نکلو تو خوف بھرے وہم کا آسیب اعصاب کو گھیرے رکھتا ہے۔ جب تک گھر آکر ہاتھ منہ مل مل کے دھو نہ لیا جائے سکون نہیں ملتا اور ایک موہوم سا وہم پھر بھی موجود رہتا ہے۔

لگتا یوں ہے جیسے پوسٹ کرونا دنیا اور طرح کی ہوگی۔ ہوسکتا ہے برس دو برس میں اس کا علاج دریافت ہوجائے اور علاج کی نوبت کو پہنچنے سے بچنے کے لئے ویکسین بھی، مگر اس وقت تک ہم پچھلا طرز زندگی شاید بھول چکے ہوں۔ ایک بے لمس دنیا ہماری منتظر ہے۔ جان دار ہوں گے، شجر وحجر بھی اور انسانی ہاتھوں سے تراشی ہوئی دیگر اشیا بھی مگر حضرت انسان کو عطا کردہ پانچ ظاہری حسوں میں سے حس لامسہ کا استعمال کم سے کم ہوتا جائے گا۔

یہ ماسک اور دستانے شاید ہمارے لباسوں کا مستقل حصہ بننے جارہے ہیں۔ تقریبات، شاپنگ، تعلیم و تعلم سبھی کا انداز بدل جانے کو ہے۔ انسان مزید تنہا ہونے جارہا ہے، اپنی کھال کے خول میں تنہا۔ تغیر و تبدل زندگی کا حصہ ہیں مگر پچھلی صدی کی آخری دو تین دہائیوں سے یہ عمل کچھ بہت ہی تیز ہوگیا ہے۔ میرے بچپن اور لڑکپن نے وہ زمانہ دیکھا ہے جب سہ پہر ڈھلتے ہی گلیاں، محلوں کے دھول آڑاتے میدان اور گھروں کے آنگن، آس پڑوس کے بچوں کے کھیل کود سے آباد ہوجاتے تھے۔

تھڑوں پر اور گلیوں کی نکڑوں پر جوانوں کی منڈلیاں لگتی تھیں۔ ادھیڑ عمر اور بزرگ بیٹھکوں، چوپالوں کو رونق بخشتے۔ رہیں خواتین تو ان کے پاس تو خیر پورا دن ہوا کرتا تھا، مل بیٹھنے کا اور ”خبریں“ اک دوجے سے شئیر کرنے کا۔ بندہ، بندے کے قریب تر تھا۔ پھر ٹیلی وژن آگیا۔ اب شام کی رونقیں گھروں میں قید ہونے لگیں۔ ٹی وی عام نہ تھا سو جس گھر میں ہوتا وہاں قریبی گھروں کے بچے، عورتیں اکٹھے ہوجاتے۔

پھر یہ آلہ جوں جوں عام ہوا، زندگی گھروں میں مقید ہوتی گئی۔ میل جول کا دائرہ محلے کے گرد حصار کرنے کے بجائے ایک خاندان کو اپنی آغوش میں بھرنے جوگا رہ گیا۔ ٹی وی، وی سی آر، ڈی وی ڈی اور ڈیسک ٹاپ تک بھی ٹھیک تھا مگر انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کے ارزاں ہونے کے بعد تو اب خاندان کی باہمی جڑت بھی وہ نہیں رہی۔ گھر کے پانچ افراد ہیں اور ایک ہی کمرے میں موجود مگر اک دوجے سے کوسوں دور۔ اپنے اپنے گیجٹ میں مصروف پوری دنیا کے ساتھ بے لمس رابطے میں ہیں لیکن اپنے افراد خانہ سے کوئی رابطہ نہیں۔ بے وجود اموجیز اور لال نیلے پیلے پان کے پتے ایسے دل کے نشانات کے ذریعے پسند، ناپسند، خوشی، اداسی، محبت کے بے روح جذبات دنیا کے دوسرے کونے تک پلک جھپکنے میں پہنچ جاتے ہیں لیکن ایک ہاتھ کے فاصلے پر موجود باپ، ماں، بہن، بیٹی، بھائی، بیٹے کی خبر نہیں۔

بس ایسی ہی دنیا کا پھیلاؤ ہونے جارہا ہے۔ پڑھے لکھے طبقے میں فرد کی ”پرائیویسی“ کے استحقاق کا تھیسز آگے ہی مقبولیت پکڑ رہا تھا، اب وبا نے یہ پرائیویسی مجبوری بنا دی ہے۔ آئندہ استاد کا جماعت سے، دفتر کا سائل سے، مقرر کا سامعین سے، دکان دار کا گاہک سے اور کھیل کا تماشائیوں سے رابطے کا بڑا ذریعی گیجٹس ہوں گے۔ ای شاپنگ اور ای لرننگ کا چلن پہلے ہی شروع ہے اب یہ عمل تیز تر ہوگا۔ تاہم پاکستان جیسا ملک جہاں طبقاتی نظام پہلے ہی خاصا مضبوط ہے، ایک اور بٹوارہ ہوجائے گا۔

معاشی حوالے سے تو پوری دنیا میں طبقات موجود ہیں تاہم مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں صحت و صفائی اور تعلیم کے حوالے سے ہر طبقے میں شعور موجود ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں عوام کی صحت و تعلیم نہ حکومتوں کی ترجیح کبھی رہی ہے اور نہ ہی عوام کو خود اس کی پرواہ۔ بے ایمان تاجر سڑک کنارے بیٹھ کر کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرتا ہے، نہ ریاست نے کبھی اس کا ہاتھ روکا نہ ہم نے کہ جن کے پیٹ میں یہ گند جانا ہے۔ وہ فضا جہاں میں نے، آپ نے اور ہمارے بچوں نے سانس لینا ہے، اس کو میں اور آپ جب جہاں آلودہ کرنا شروع کردیں، کوئی روک ٹوک والا نہیں۔

کرونا کے حوالے سے بھی کچھ ایسی ہی صورت حال درپیش ہے۔ اسی کے ذکر کو بات شروع کی تھی مگر اور طرف نکل گئی۔ گزارش کررہا تھا کہ یہ سطریں لکھی جارہی ہیں تو لاک ڈاؤن کا مہینہ پورا ہو کر دو دن اوپر گزر کے ہیں۔ اب کچھ نرمی بھی کی گئی ہے تاہم لاک ڈاؤن ختم نہیں ہوا۔ سہ پہر ڈھل رہی ہے ابھی ملک کے پانچویں بڑے شہر ملتان کے ایک بڑے بازار جو گردیزی مارکیٹ کہلاتا ہے، سے ہوکر آیا ہوں۔ وہاں کا عالم دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اب اس بے پرواہ قوم کی بس ہوچکی ہے۔

پولیس کا ایک ڈالا چیونٹی کی رفتار میں رینگتا تھا، کہیں ٹھہر بھی جاتا۔ اب ہو یہ رہا تھا کہ دکان داروں کے ملازم باہر کھڑے ہیں۔ جہاں ڈالا گزرتا وہاں سے دس بارہ دکانیں آگے تک ملازم شٹر گرا دیتے ہیں۔ اندر کھچا کھچ خواتین بھری ہیں۔ ڈالا جونہی گزر کے آگے جاتا پیچھے پھر سے شٹر اٹھا دیے جاتے ہیں۔ خال خال خواتین کے چہروں پہ ماسک یا ہاتھوں میں دستانے نظر آتے ہیں۔ بھیڑ بھڑکے کا پہلے کا سا عالم تو نہیں مگر رش بہرحال ہے۔

سوشل ڈسٹینسنگ کیا شے ہے، تاجروں اور خواتین گاہکوں کی بلا جانے۔ بازار کو دیکھ کے لگتا ہے پاکستان میں کرونا وائرس کا گویا کسی نے نام ہی نہیں سنا۔ کنٹ اور حسین آگاہی کے بعد تیسری بڑی مارکیٹ میں لاک ڈاؤن کی پابندی کے لئے ایک ڈالے میں بیٹھے چار سپاہیوں کی تعیناتی سے انتظامیہ کی سنجیدگی بھی ظاہر ہوتی ہے اور عوام تو خیر ہیں ہی بے پرواہ اور عقیدے کے اعتبار سے غالب کے اس مصرعہ کی تصویر کہ ”موت کا ایک دن معین ہے“۔

یہ سماجی دوری اور فاصلے اختیار کرنے کا شعور فقط شہروں کی بیس پچیس فی صد آبادی میں پایا جاتا ہے باقی کسی کو کوئی غرض نہیں۔ احتیاط پسند لوگوں اور ”جیہڑی رات قبر وچ آنی اے اوہ باہر نئیں آسکدی“ ٹائپ سوچ کے حامل دو طبقات وجود میں آچکے۔ یہی ایک نئی طبقاتی تقسیم مستقبل میں نمایاں ہونے والی ہے۔

دیہاڑی دار، وہ بے چارے جو روز کنواں کھودتے اور تازہ پانی پیتے ہیں، یقیناً بھوک سے مرنے کے بجائے کرونا کو ترجیح دیں گے۔ نہ وہ حفاظتی اقدامات اختیار کرسکتے ہیں اور نہ سماجی دوری کا اہتمام۔ ان دونوں کاموں کے لئے معاشی وسائل سے زیادہ شعور کی ضرورت ہے اور وہی عنقا ہے۔ اب آگے رمضان میں عید کی تیاریاں شروع ہوں گی، بازاروں میں ہجوم بڑھے گا، کیا اس کو ہم قابو کرپائیں گے؟ ابھی ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ لاک ڈاؤن میں جب سے نرمی ہوئی ہے کرونا کیسز کی تعداد بڑھ گئی ہے۔

میرے گھر کی شمالی دیوار اور محلے کی مسجد کی جنوبی دیوار ایک ہی ہے۔ گویا ”اک بندہ کمینہ ہم سایہ خدا ہے“ قریب پندرہ دن ہوتے ہیں روز رات کو دس بجے اس خانہ خدا سے اذانوں کی صدا بلند ہوتی ہے۔ پہلے دن مسجد سے اعلان کیا گیا تھا کہ وبا سے نجات کے لئے اپنے گھروں میں بھی تین سے سات بار اذان دیں۔ تب سے ہر شب سات بار اس مسجد کی سپیکروں سے اللہ کی بڑائی، خاتم الانبیا کی رسالت کی گواہی کا اعلان ہوتا ہے اور فلاح مانگی جاتی ہے۔

پہلے میں ان اذانوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا لیکن آج بازار کا چکر لگانے کے بعد اور سڑکوں پر تمام تر احتیاطی ہدایات کی دھجیاں اڑتی دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ اللہ پاک ان اذانوں اور نمازوں کے بعد کی جانے والی دعاؤں کے صدقے اس ملک کو وبا کے ہاتھوں محفوظ رکھے تو رکھے وگرنہ ہمارے عوام کچھ معاشی مسائل کی بنا پر اور زیادہ تر لاپروائی کی وجہ سے کرونا وائرس کی میزبانی کو دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments