اردو ناول کی گم ہوتی دنیا



مستنصر حسین تارڑ بھی ناول کی دنیا کا ایک اہم نام ہے۔ ’خس وخاشاک زمانے‘ تارڑ کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کے بغیر اردو ناولوں پر گفتگو ممکن ہی نہیں ہے۔

اپنے ناول نگار دوستوں سے مخاطب ہوں جو افسانوں اور ناولوں میں تجربوں کا دم بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تجربہ تو ہونا ہی چاہیے، مگر زیادہ تر لوگ تجربہ تب کرتے ہیں جب ان کے پاس وہ فن یا ہنر نہیں ہوتا، جو مکالمہ نگاری پر قدرت رکھتا ہو، جہاں کردار نگاری کا جال بچھایا جاتا ہو، جہاں ایک کہانی صدیوں پر محیط فکر وفلسفے کا نیا باب روشن کرتی ہو۔ ہم تجربہ کررہے ہیں۔ یا ایسی کئی کہانیاں اس وقت اچھی لگتی ہیں، جب ہم کسی مخصوص لمحے ان کو پڑھنے بیٹھے ہوں۔

گزرتے وقت کے ساتھ ان کی چمک ماند پڑنے لگتی ہے۔ پھر وہ تجربہ، جو ایک وقت میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ وہ ناول یا کہانی وقت کے ساتھ افسانہ گمشدہ بن چکی ہوتی ہے۔ علی اکبر ناطق ہوں، خالد جاوید، یا ایسے کئی نام۔ یہاں تجربوں کی شاندار روایت رہی ہے۔ مگر ڈر ہے۔ کہ آنے والی صدی میں کہانیوں کی تفہیم کے لیے فاروقی نہ ہوں گے، تو قاری تک ان کہانیوں کو کون پہنچائے گا۔ مغرب کے ایسے ہزاروں لاکھوں اثاثے تجربے کے نام پر وقت کی بھیڑ میں کھو گئے۔ ان کا بھی وہی حشر نہ ہو۔

مستنصر حسین تارڑ کو پڑھتے ہوئے ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ کیا ایسی کردار نگاری وہ لوگ کرسکتے ہیں جو صرف تجربے کا دم بھرتے ہیں؟ میرا جواب ہے نہیں۔ کیونکہ یہاں ہوایا خلا میں معلق تحریر نہیں ہے۔ یہاں زندگی کو پیش کرنے کی جرا ¿ت کی گئی ہے۔ جو زیادہ مشکل کام ہے اور جنہیں یہ ہنر نہیں آتا وہ تجربے سے کام چلاتے ہیں۔ علی اکبر کے یہاں بیانیہ شاندار ہے۔ تجربے کی دھوپ بھی۔ نیا دینے کی کشمکش بھی۔ خالدجاوید کو بھی اسی راستے پر چلنا ہوگا۔

اور ان لوگوں کو بھی جو محض تجربوں کو ادب سمجھتے ہیں۔ ہم سب شب خونی جدیدیت کا حشر دیکھ چکے۔ ایک وقت میں چونکا دینے والی کہانیاں اب ماضی کا افسانہ بن چکی ہیں۔ ادب محض لفظوں کی بھول بھلیاں کانام نہیں۔ یہاں منہ میں چھالے اگانے ہوتے ہیں۔ لہو تھوکنا پڑتا ہے۔ زندگی قربان کرنی ہوتی ہے۔ اور مستنصر حسین کی طرح زندہ کرداروں سے نئے فلسفوں کی دھوپ چرانی ہوتی ہے۔ علی اکبر سے امیدیں ہیں لیکن ابھی منزل دور ہے۔ ان لوگوں کو خالد طور، مستنصر، مرزا اطہر بیگ کے ساتھ ہماری داستانوں اور مثنویوں کے خزانے کو بھی ساتھ لینا ہوگا۔ صرف تجربہ عظیم تخلیق کے لیے کافی نہیں۔

سارتر کا ایک کردار اپنی کہانی دیوار میں ایک سوراخ کے بہانے موہوم سی روشنی کا طلبگار تھا۔ صدیوں پر محیط ناول خس وخاشاک زمانے میں تارڑ آزادی اور غلام فضا دونوں ایام میں اسی روشنی کو تلاش کرتے رہے۔ وہ بونے تو نظر آئے۔ جو کنواں کی گہرائیوں سے نکل کر بختے کو تقسیم کا خوف دکھا رہے تھے۔ لیکن ایک تقسیم کے بعد بھی تقسیم کا سلسلہ بند کہاں ہوا— ہندو پاک کے ڈراؤنے خواب سے نکل کر یہ داستان سقوط بنگلہ دیش، ایران، افغانستان، عراق کے پس منظر میں جب اپنے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں دکھاتی ہے، تو ارتقا، سائنس اور تیزی سے بھاگتی نئی دنیا کا خوف ذہن ودل پر طاری ہوتا ہے — تارر کے پاس لفظیات کا خزانہ ہے۔

ہزاروں مثالیں، تشبیہیں ایسی ہیں جو اس سے پہلے مغرب کے کسی ناول کا حصہ بھی نہیں بنیں۔ یہاں کچھ بھی مغرب سے مستعار نہیں، یہاں داستانی رنگ ہے۔ اور ذلیل ہونے کے لیے ہماری، آپ کی خوفناک دنیا منتظر۔ ہزاروں کرداروں کو تارڑ نے اس فنکاری سے سمیٹا ہے، کہ یہ کام نہ فاروقی کے بس کاتھا، نہ کسی اور کے — میں نے آگ کا دریا دو بار پڑھا ہے۔ اور ان لوگوں سے معذرت کے ساتھ جو ادبی صحیفے کو پڑھتے نہیں، پرستش کرتے ہیں۔

کہ یہ ناول آگ کا دریا سے بھی میلوں آگے کی چیز ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ پاکستان میں جہاں بیکار کے ناولوں پر مسلسل لکھا جارہا ہے، اس ناول پر آفاقیت اور عالمگیریت کے حوالے سے گفتگو کے دروازے کیوں نہیں کھلے۔ ایک ناول نگار کی حیثیت سے میں مستنصر حسین تارڑ کو اس غیر معمولی تخلیق کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ اسے لکھنا آسان نہیں تھا۔ اس میں صدیاں قید ہیں۔ اور صدیوں کو قلمبند کرنے کے لیے، جس غیر معمولی زبان، اسلوب اور لہجے کی ضرورت تھی، تارڑ کے پاس یہ خزانہ موجود تھا۔ یہ ناول اردو زبان کے لیے ایک کرشمہ ہے — اس ناول کی آمد سے ہماری زبان کے قد اور وقار میں اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح رضیہ فصیح احمد کے ناولوں خصوصی طور پر صدیوں کی زنجیر کا تذکرہ نہ ہو تو ناول پر گفتگو مکمل نہیں ہوسکتی۔ مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ نقادوں نے ناول پر گفتگو کرتے ہوئے قرة العین حیدر کے ارد گرد اپنی محدود دنیا بنا لی تھی۔ اور اس دنیا سے باہر دیکھنا انہیں منظور نہیں تھا۔ جس زمانے میں قرة العین گردش رنگ چمن تحریر کررہی تھیں، اسی زمانے میں سقوط بنگلہ دیش کے حادثے کو سامنے رکھ کر رضیہ فصیح احمد اپنا شاہکار صدیوں کی زنجیر مکمل کر رہی تھیں۔

جس زمانے میں آگ کا دریا لکھا گیا تھا، اسی زمانے میں سنگم لکھا گیا۔ مگر گفتگو آگ کا دریا سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ ہندوستانی منظر نامہ کا حوالہ بھی ضروری ہے کہ اسی زمین نے لہو کے پھول (حیات اللہ انصاری) ، بے جڑ کے پودے (سہیل عظیم آبادی) انقلاب (خواجہ احمد عباس) بہت دیر کردی (علیم مسرور) شکست کی آواز (عبدالصمد) جیسے شاہکار اردو کو دیے۔ شکست کی آواز کی کہانی محبت سے شروع ہوتی ہے اور جادو پر ختم ہوتی ہے۔

اور یہ جادو ہے، نئی تہذیب کا تحفہ یعنی موبائل فون— آج کی تیز رفتار زندگی کا جس کے بغیر تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ شکست کی آواز، صفر سے ایک تک، پوکے مان کی دنیا، لے سانس بھی آہستہ تک آتے آتے ایک نئی دنیا کے دروازے ہمارے لیے کھل جاتے ہیں۔ سائبر اسپیس سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اس کے بھیانک نتائج تک حقیقت یہ ہے کہ ایک خوفزدہ کر دینے والی دنیا بھی ہماری ساتھ ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments