انسپکٹر جمشید کی پانی کی بندوق


مجھے ستر کی دہائی کی فلمیں پسند ہیں۔ تب کی ہندوستانی فلمیں بھی بڑی اعلیٰ ہوا کرتی تھیں اورتب پاکستان کا سینما بھی کافی بہتر تھا۔ ہر عہد کا ایک مزاج ہوتا ہے۔ ستر کے مزاج میں ایک نوع کی رومان پسندی پائی جاتی تھی۔ تب کی فلموں میں اصولی لوگوں کو اصولوں پر ڈٹتے دکھایا جاتا۔ کبھی ایسے حالات پیش آتے کہ اصول کے لئے باپ بیٹے پر پستول تانتا اور کبھی ماں بیٹے پر گولی چلاتی۔ کبھی بھائی بھائی سے سوال پوچھتا کہ ’میرے پاس گھر ہے، بنگلہ ہے، گاڑی ہے تمہارے پاس کیا ہے۔ اور دوسرا بھائی بڑے غرور سے کہتا ’میرے پاس ماں ہے! ‘ اور ماں حق کا ساتھ دیتی۔ فلم کالیا میں کالیا (امیتابھ بچن) برائی کی راہ پر چل کر لکھ پتی بن جاتا ہے اور اپنی ماں جیسی بھابھی کو اپنے ساتھ اپنے بنگلے پر لے آتا ہے۔ مگر جوں ہی بھابھی کو علم ہوتا ہے کہ اس کا کلّو اب بگڑ کر کالیا ہوچکا ہے تو وہ سامان اٹھا کر گھر سے نکل آتی ہے۔ اسے حرام کی کمائی کا لقمہ بھی برداشت نہیں۔

ایسی فلموں میں اصول ایک کردار کی طرح فلموں میں موجود ہوتے تھے۔ وہ نظر نہیں آتے تھے مگر وہی ہر موڑ پر کھڑے ہوتے تھے۔ فلم شکتی میں دلیپ کمار صاحب اپنی بہو سے فرماتے ہیں کہ ’میری طرف دیکھو، میرے پاس جو کچھ بچا ہے میں وہ آج کھونے والا ہوں‘ اسی دن وہ اپنے واحد بیٹے کو اپنی گولی کا نشانہ بنادیتے ہیں۔ یہ سخت اصول کبھی ضمیر کی آواز بن کر ہیرو کے سامنے اُسی کی شکل میں جلوہ گر ہوتے تو کبھی کسی ایماندار حق پرست ساتھی کی صورت میں برائی سے روکنے حاضر۔

یہ روایت بڑی حد تک نوے کی دہائی تک بھی جاری رہی مگر پھرموضوعات بدل گئے۔ اس نوع کی فلموں میں عموماً ڈرامائی تصادم پیدا ہی انسان کی خواہشات اور اصولوں کے ٹکراؤ سے ہوتا۔ اُس عہد اور اُس کے کافی بعد تک پاکستانی ڈرامے بھی اصولی لوگوں سے بھرے ہوتے۔ حق و باطل کی لڑائی، اصولی اور غیر اصولی لوگوں کے ٹکراؤ میں ظاہر ہوتی۔ حق و باطل کی انسانی تجسیم ایک نوع کی رومانوی فضا پیدا کرتی۔ نوے کی دہائی تک حق پرست کردار اپنے تکیہ کلام میں بھی اپنی سچائی اور حقانیت کا اعلان کرتے اور برے کردار اپنی برائی اور ذلالت کا اعلان کرتے۔

نجانے اُن فلموں نے ہمارے سماج کی صورت گری کی یا وہ فلمیں ہمارے سماج کا ہی ایک ٹرک آرٹ نما اظہار تھیں۔ ہماری مڈل کلاس بڑی حد تک اسی ستر کی دہائی کے فلموں کے کرداروں کی پیروڈی میں زندگی گزارتی ہے۔ اصول و قواعد کسی چٹنی یا اچار کی طرح ہمارے مڈل کلاس گھرانوں میں قیمتی برنیوں میں سجا کر رکھے جاتے ہیں اور بڑے ذوق سے اپنی بے رنگ زندگی کی روکھی روٹی پر لگا کر کھائے جاتے ہیں۔ ہمارے مڈل کلاسیے فخر سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اسکول اور کالج میں چیٹنگ نہیں کی، انہوں نے بڑی ایمانداری سے نوکری کی، وہ محلے میں ایک عزت دار انسان مشہور ہیں، تیس سال کی نوکری میں وہ محض ایک مرتبہ دیر سے دفتر گئے اور وہ بھی اُس دن جب ان کے والد کا انتقال ہوا۔

اِن مڈل کلاسیوں کے پاس کچھ لائق ِ نفرین رشتہ دار بھی ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ اپنی نوکری میں رشوت لیتے ہیں، بجلی کے تار پر کنڈا مارتے ہیں، نوکری سے چھٹی کرتے ہیں یا پھر جن کا گھر مقررہ حد سے باہر نکلا ہوا ہے۔ ایسے لوگ اخلاقی مڈل کلاسیوں کو جہنم کی خالص غذا معلوم ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار انہیں سمجھانے کی سعی بھی کی جاتی ہے اور عموماً یہ کام ایسے لوگوں کے بچوں کو بیٹھا کر ان سے مکالمہ کرکے کیا جاتا ہے۔

ماشاء اللہ اب یہ مڈل کلاسیے بڑی تیزی سے سماجی میڈیا پر تاتاری فوج کی طرح مسلط ہیں۔ یہاں بڑے بڑے اخلاقی و اصلاحی بیانات اسٹیٹس اور ٹویٹس کی صورت جاری ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ایان علی کا کیس جاری تھا تب میرے ایک بینکر دوست روز سماجی میڈیا پر اُس پر تبریٰ بھیجا کرتے۔ ایک مرتبہ ایان علی کو ایک منچلے نے جامعہ کراچی میں ایک پروگرام میں مدعو کرلیا تو سماجی میڈیا پر بھونچال آگیا۔ ہر طرف سے مڈل کلاس کے انسپکٹر جمشید اپنی پانی والی پستول لے کر نمودار ہوئے اور اخلاقیات کا واٹر کینن کھول دیا۔

سمجھ نہیں آتا کہ ہماری مڈل کلاس کے سارے ہی لوگوں کو خود کو ہر معاملے میں حق ثابت کرنے کا کیا جنون ہے؟ وہ حق ہیں تو ظاہر ہے کہ کوئی باطل بھی ہوگا اسی لئے کوئی نہ کوئی اُن توپوں کے ہدف پر رہتا ہی ہے۔ ہمارے بینکر دوست، شاہ زیب قتل کیس کے زمانے میں بہت جذباتی تھے۔ شنید ہے کہ ایک مرتبہ موم بتی لے کر شاہ رخ جتوئی کے خلاف مظاہرے میں بھی شریک ہوئے۔ ایک مرتبہ میں نے اُن سے دریافت کیا کہ وہ اس معاملے میں کیوں اتنے جذباتی ہورہے ہیں توانہوں نے ارشاد فرمایا کہ یہ ان کی سماجی ذمہ دار ی ہے۔

اُنکی اِس بات سے میرے ذہن کی ایک بڑی گتھی سلجھ گئی۔ سماجی میڈیا پر باطل کا شکار کھلنا دراصل ہماری مڈل کلاس کی بے رنگ زندگی میں رنگ بھرنے والی واحد سیاہی ہے۔ ہماری زندگیوں میں جو خوفناک یکسانیت ہے وہ ایک قسم کی خیالی دنیا بنانے پر ہم کو بہت شدّت سے مجبور کردیتی ہے۔ اِس ’سماجی ذمہ داری‘ کے کھیل سے اپنا وجود کسی قسم کا فلمی کردار معلوم ہوتا ہے اور حق و باطل کا کسی قسم کا ٹکراؤ ہر جانب نظر آنے لگتا ہے۔

ہماری مڈل کلاس کے لوگ ویسے کسی حقیقی تضاد اور تناؤ کو ایک گھنٹہ برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ محلے میں پڑوسی سے لڑائی کر لیں تو راتوں کی نیند اڑجاتی ہے۔ دفتر میں افسر جھڑک دے تو روح نکل جاتی ہے کہ اگر کل کو نوکری سے برخاست کردیا گیا تو کیا ہوگا؟ مگر یہی لوگ ایان علی کو بھی گالی بکتے ہیں اور شاہ رخ جتوئی کو بھی روز اپنی پانی کی بندوقوں سے غسل دیتے ہیں۔ یہ کیسی دورنگی ہے؟ یہ کیسا مذاق ہے؟ عجیب بات یہ بھی ہے کہ یہ مڈل کلاس ’سوپر مینز‘ اور ’آئرن وِمن‘ اگر کبھی کسی حقیقی اخلاقی مسئلے کا شکار ہوجائیں تو ان کا ردعمل شتر مرغ سے مختلف نہیں ہوتا۔

فرض کیجئے کہ ان کے سامنے کچھ مسلح اوباش لڑکے کسی لڑکی کو زبردستی سڑک سے اٹھا کر اپنی گاڑی میں ڈالتے ہیں تو یہ اُس لڑکی کی مدد کو آگے نہیں بڑھیں گے۔ یہ کسی موبائل اسنیچر کے سامنے ہمت کر کے اُس کا پستول نہیں چھینتے، یہ کسی ظالم پولیس والے کا گریبان نہیں پکڑتے۔ ان کا سماجی میڈیا کا تبریٰ کسی نہ نظر آنے والے شاہرخ جتوئی، کسی نہ نظر آنے والی ایان علی کے حصے میں آتا ہے۔ ان کی پانی کی بندوق بھی سامنے موجود حقیقی باطل پر پچکاری نہیں مار سکتی۔

یہ جب کسی اوباشوں کے گروہ کو کسی لڑکی کو بزور طاقت اٹھاتا دیکھتے ہیں تو منہ موڑ لیتے ہیں اور جب ان کا ضمیر ان کو ملامت کرتا ہے تو اُس کو بڑے پیار سے پچکار کر سمجھاتے ہیں کہ ’ہم مڈل کلاس لوگ ہیں ہم کب اِن بکھیڑوں میں پڑ سکتے ہیں؟ ‘ مگر یہی مڈل کلاسیے اپنی اولاد کو ہزار روپے چوری کر لینے پر ساری زندگی اپنی زبان سے درّے مارتے رہتے ہیں۔ یہ اخلاقیات صرف کمزور کے لئے ہیں یا پھر حقیقی زندگی کے نامعلوم اور سماجی میڈیا کے معلوم بدنام لوگوں کے لئے۔ یہ اخلاقیات ایک چونچلا ہے، ایک ڈھونگ ہے ایک بیماری ہے۔ مگر یہ حقیقت جاننے والے لوگ مڈل کلاسیوں کے بھاشن سن کر مسکرا دیتے ہیں اور اُن سے یہ کھلونا چھینتے نہیں کیونکہ بقول شاعر، ’اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments