23 اپریل کتاب کا عالمی دن: میں اور ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی


23 اپریل کتاب کا عالمی دن ہے۔ شکریہ انٹرنیٹ اور دوستوں کا، کہ انھوں نے اپنے پیغامات اور پوسٹوں کے توسط سے اطلاع دی کہ ایسا ایک دن، ہے۔ جس میں کتاب کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ہم بہت سارے موضوعات اور مساہل کے دن بھی مناتے ہیں۔ لیکن اس دن کے حوالے سے میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ اس دن میرے جیسے کم پڑھنے والوں کو کم از کم ترغیب دی جاتی ہوگی۔ یا یہ بتا دیا جاتا ہوگا کہ کتاب کیا چیز ہے اور کتاب کیا کچھ تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہے۔

اس دن کے ہونے کا احساس ہو گیا، تو کہہ سکتے ہیں دیرآید درست آید، اب جا کر اپنے آپ کو لعنت ملامت کرنے یا یہ عہد کرنے کا موقع ملا ہے کہ کتاب پڑھنی چاہیے تاکہ بندہ اپنے آپ کو تلاش کرتا رہے کہ میں ہوں کیا چیز۔ اور خالق نے میرے چیسے ایک وجود کی کیا ضرورت محسوس کر کے خلق کرنے کا حکم دیا تھا۔

میں کتاب کے بارے میں کیا بتاوں جس نے اپنی پوری زندگی میں اب تک جتنی کتابیں پڑھی ہں جو سنجیدہ پڑھنے والے شاید ایک دن میں پڑھتے ہوں گے ۔ سوچتا ہوں میرے جیسے اور بھی ہوں گے جو کتاب بڑے شوق سے خریدتے تو ہیں لیکن پڑھتے نہیں ہیں َ یا کچھ لوگ کیسے ایک سیشن میں یا آدھے دن میں پوری کتاب پڑھ ڈالتے ہیں۔ خیر اس موضوع کو آاس طرح سے بیان نہیں کرنا کہ یہ میری کہانی بن جائے۔

اس دن کی افادیت کے حوالے سے ایک خوش بختی یہ ہوئی کہ 23 کی شام کو ایک موقع یہ ملا کہ میں آن لائن ایک کتاب کی تقریب رونمائی دیکھ پایا۔ کتاب کا نام تھا ”ٹو کینڈلز آف پیس“ جو دو مصنفین ڈاکٹر کامران احمد اور ڈاکٹر خالد سہیل کی انسان دوستی، روحانیت، امن دوستی اور تصوف دوستی کا ایک آمیزہ ہے۔ یہ کتاب اب تک میں نے نہیں پڑھی ہے۔ لیکن اس آن لائن سیشن کی وجہ سے یہ جانے کا موقع ملا کہ یہ کتاب کیسے دریافت ہوئی ہے۔ اور اس کتاب کی تعمیر سے لے کر روح ڈالنے تک۔ ان دو مصنفین نے جو کہ انسانیت، مذاہب، نفسیات اور تصوف کو قریب سے جانتے ہیں۔ اپنی ذہانت، معلومات اور زندگی کی اپج اور اختلافات کے تبادلہ کے لئے خط وکتابت کا سہارا لیا اور معلومات یہ ہیں کہ انھوں نے 35 خطوط کا آپس میں تبادلہ کیا۔

کچھ تکنیکی وجہ سے تقریب میں جناب ڈاکٹر خالد سہیل صاحب (شریک مصنف) موجود نہیں تھے۔ چونکہ میں نے کتاب پڑھی نہیں ہے تو اس پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا لیکن اس سیشن میں جو کھل کر باتیں ہوئیں میرا خیال ہے مصنف کے ساتھ ساتھ ماڈریٹر اور شرکا کی ایسی آرا تھیں، ان کا عکس ضروری نہیں کہ ہمیں اس زیر بحث کتاب میں بھی ملے۔ بہرحال تصوف اور روحانیت پر سیر حاصل بحث ہوئی مجھے جو اچھا لگا وہ میں یہاں بیان کرنے کی اجازت چاہوں گا۔

اس سیشن سے جو میں سمجھ پایا وہ یہ کہ روحانیت کو ایک ایسا میڈیم، ہستی، احساس اور آگاہی کے طور پر لینا چاہیے ہیں جس کو نا تو کسی نے بیان کیا ہے اور نہ کہ کسی نے اس کے وجود کو الفاظ کا لباس پہنایا ہے۔ انسان اپنے وجود کی دریافت میں ایسے سوال پوچھے جو کسی نے اب تک پوچھے نہ ہوں۔

بہرحال اس کتاب کا اہم پیغام یا بہت سارے پیغامات کیا ہیں۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد معلوم ہوگا۔

اسی سیشن میں ڈاکٹر کامران احمد کی ایک اور کتا ب کا ذکر ہوا جس کا نام طریقت: سیون ایلیمنٹ آف صوفی ازم اِن پاکستان ہے۔ جناب غازی صلاح الدین صاحب نے ایک کتاب ”انتخابِ زندگی“ کا ذکر کیا جو کہ اردو ترجمہ ہے لیکن ایسے ہی مراحل میں سے گزر کر لکھی گئی۔ انتخابِ زندگی کے مصنفین آپس میں ملاقات کیا کرتے تھے اور بات چیت کو ریکارڈ کرتے تھے اور بعد میں اس کو کتاب کی شکل دی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments