ریڑھی والے حرامخور


رمضان شریف کے آتے ہی خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے اس پر بعد میں بات ہوگی پہلے اپنا تازہ مشاہدہ شیئر کردیتا ہوں۔

جیسے ہی لاک ڈاؤن میں تھوڑی کمی آئی، کچھ کاروباری مراکز کھل گئے، میں اپنے دوست کے ساتھ کچھ خریداری کرنے گیا۔ ہم نے کپڑے خردنے تھے ہم اچھی شاپ پر گئے۔ دام پوچھا اور تھوڑا کم کروا کر خرید لئے، پھر ہم سیور فوڈ پر گئے وہاں سے دو پارسل کا آرڈر دیا۔ ویٹرز جو آج کل پارسل دے رہے ہیں دو پارسل لے آیا۔ ہاتھ میں بل تھما دیا ہم نے پیسے نکال کر اسے پورا بل ادا کردیا۔ پھر ہم کسی بڑے شاپنگ مال میں گئے وہاں سے کچھ اچھی چیزیں خریدیں، قیمت تھوڑا کم کروانا چاہی مگر وہاں کھڑے لڑکے نے بولا کہ ہمارے ریٹ فکس ہوتے ہیں۔ ہم نے خاموشی سے پیسے نکال کر دے دیے۔

وہاں سے نکل کر ہم ایک ریڑھی والے کے پاس چلے گئے۔ ریڑھی والے سے ایک درجن کیلے لینے تھے۔ درجن کا ریٹ پوچھا تو ریڑھی والے نے بتا دیا۔ ہم نے کہا یہ تو بہت زیادہ ہے ذرا کم کردیں۔ ریڑھی والا بولا! بھئی اتنے عرصہ سے کوئی کام نہیں تھا اور ہم بھی مجبور ہیں ہمیں منڈی سے جتنے میں پڑتا ہے اس پر ہم 10، 15 روپے بچت رکھتے ہیں۔ گو کہ ریڑھی والے کی تمام باتیں درست نہیں تھی مگر پھر بھی انہیں دن کی صرف دیہاڑی ہی بچتی ہے۔ ہم نے کہا نہیں یہ بہت مہنگے ہیں کم کردیں۔

آخر ہماری محنت رنگ لائی ہم نے ریڑھی والے سے 15، 20 روپے کم ہی کرا دیے اور صرف ایک درجن کیلے خریدے۔ مزید یہ کہتے ہوئے آگے نکل گئے کہ ایسے حرامخوروں کی وجہ سے ہمارا ملک ترقی نہیں کرتا۔

آپ اسے ہماری حقیقی کہانی سمجھیں یا فرضی داستان مگر یہ سچ ہے ہمارا ایمان اس ریڑھی والے پر حرکت میں آتا ہے۔ ہمارا ضمیر ریڑھی والے کے 5، 10 روپے زیادہ لینے پر جاگ جاتا ہے۔ مگر شاپنگ ہالز میں ہم من مانی قیمتیں دیتے وقت بھی نہیں سوچتے۔ اور بحث تک نہیں کرتے کیوں کہ ہمارا لیول گر سکتا ہے۔ جبکہ ریڑھی والے پر ہم خود کو ویل ایجوکیٹڈ، ایماندار اور ملک کا ہمدرد سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم نے حکومت کی نا اہلی، مگرمچھوں کی کرپشن، چینی کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے مافیاز، انتظامیہ کی غفلت، الغرض سب کا ذمہ دار اس ریڑھی والے کو ٹھہراتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ ان حرامخوروں کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کرسکا۔ جبکہ شاپنگ ہالز میں چپ چاپ قیمت ادا کرتے وقت ہمارا ضمیر فخر محسوس کر رہا ہوتا ہے کہ ہم سلجھے ہوئے لوگ ہیں اس لئے بحث نہیں کرتے۔

حضرت امام حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما کی یہ سنت مبارک ہے کہ وہ جب کسی غریب سے کچھ خریدتے تو اسے مقررہ قیمت سے تھوڑا زیادہ ادا کردیتے اور جب کسی امیر سے کچھ خریدتے تو بحث کرکے دام میں کمی کروا لیتے۔

لہذا اپنی مفت کی غیرت، اپنی بے پناہ ایمانداری اور ملک کی خاطر کڑھنے والے ضمیر کو غریبوں کے 5، 10 روپے پر نہ جگایا کریں۔ اگر ریڑھی والے سے کچھ مہنگا مل رہا ہے تو کسی بڑی شاپ سے جاکر اچھا والا فروٹ خرید لیا کریں تاکہ عقل ٹھکانے آجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments