قبرستان میں ڈبل سواری منع نہیں ہے


ان کی تدفین دو قسطوں میں کی گئی۔\"asif-farrukhi_1\"

جو حصّہ کاٹ کر الگ کیا گیا تھا، وہ پہلے دفن کر دیا گیا۔ جسم کی موت کے بعد باقی ماندہ تدفین۔

وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو کسی بھی کام کے لیے دوسروں کو تکلیف دینے کے بجائے خود تکلیف اٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اسی وضع سے گزاری کہ کسی کو زحمت نہ دیں۔ پھر بیماری بڑھتی گئی تو اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام کے قابل بھی نہ رہیں۔ بیٹے نے بہت خدمت کی، رات دن ایک کر دیا۔ لیکن پھر یہ حال ہوگیا کہ سُننے والوں کو تکلیف ہونے لگتی۔ وہ سراپا درد اور تکلیف بن کر رہ گئیں۔

پائوں کے پاس ایک چھوٹے سے دھبّے سے گینگرین شروع ہوا اور ٹانگ سیاہ پڑنے لگی۔ ٹانگ کو کاٹنا پڑے گا، ڈاکٹر نے فیصلہ کیا۔ یہ خیال بھی بہت اذیت ناک تھا__ ایک سالم انسانی وجود سے اس کا اتنا بڑا حصّہ کاٹ کر نکال دیا جائے۔ آپریشن جب تک رُک سکا، روکا گیا۔ لیکن اس کی بھی ایک حد تھی۔ آپریشن کامیاب رہا، ڈاکٹر نے کہا۔ وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں اسپتال میں لیٹی رہیں اور آپریشن تھیٹر کے عملے نے قطع شدہ ٹانگ ان کے بیٹے کے حوالے کر دی کہ اسے لے جائیے۔ جسم سے کاٹ کر علیحدہ کی جانے والی ٹانگ تقریباً سیاہ پڑ چکی تھی۔ اس کو پرانے اخباروں میں لپیٹ کر مریضہ کے لواحقین کے حوالے کر دیا گیا۔ اب ہم اس کا کیا کریں؟ بہت حیرت کے ساتھ پوچھا گیا۔

اسے قبرستان لے جائیے، مختصر اور فوری جواب آیا۔

قبرستان میں؟ وہاں تو مُردے لے جائے جاتے ہیں۔ پوچھنے والے کا تعجّب ابھی جاری تھا۔

یہ بھی مُردہ ہے، جواب آیا۔ اور اسپتال کے عملے کا ذمہ دار شخص اس طرح دیکھنے لگا جیسے تسلّی کررہا ہو کہ لواحقین اس ٹانگ کو یہیں نہ پھینک دیں، اپنے ساتھ لے کر جائیں۔

پرانے اخبار میں لپیٹ کر وہ اس ٹانگ کو اپنے ساتھ لے جانے لگا اور گاڑی کے پچھلے حصّے میں رکھ کر قبرستان کی طرف روانہ ہوا تو اس کو بے حد ڈر لگ رہا تھا۔ بعد میں اس نے مجھے بتایا کہ ان دنوں کراچی میں گاڑیوں کی تلاشی لی جارہی تھی۔ رینجرز یوں ہی آتے جاتے کسی گاڑی کو روک کر اس کی تلاشی شروع کر دیتے ہیں__ اگر اسی سپاہی نے اس گاڑی کو روک لیا اور پوچھا کہ ’’یہ اخبار میں لپٹا ہوا کیا رکھا ہے؟‘‘

تب وہ کیا جواب دے گا کہ یہ کیا ہے۔ کیا اسپتال سے اس کے لیے ایک علیحدہ سرٹیفکیٹ لینا چاہیے تھا__ ایک ٹانگ کی موت کا سرٹیفکیٹ؟ کیا اسپتال والے ایسا کوئی

\"Pakistani

کاغذ دیتے ہیں؟

بہرحال اس کو کسی نے نہیں روکا۔ وہ قبرستان پہنچ گیا اور قبر کھودنے والے سے کہا، اس کو دفن کرنا ہے۔ قبر کھودنے والے نے بھی شک شُبے کی نظر سے دیکھا۔ شاید اسے شک ہو کہ یہ کوئی نوزائیدہ بچّہ یا مسخ شدہ اعضاء نہ ہوں۔ کسی نہ کسی طرح وہ ٹانگ قبرستان میں دفنا دی گئی۔ مٹّی کی چھوٹی سی ڈھیری جس پر کوئی نام ممکن تھا اور نہ نشان۔۔۔

ان چیزوں کی ضرورت اس وقت پڑی جب ان کا انتقال ہوگیا۔ تھوڑے دن کے بعد ان کا باقی ماندہ جسم بھی ان کی ٹانگ کے راستے پر چل پڑا۔ شاید وہاں پہنچ کر دوبارہ سے ان کی تکمیل ہو جائے گی۔ اسپتال والوں نے لاش حوالے کر دی۔ اب یہ گھر والوں کی صواب دید پر تھا کہ گھر لے جائیں یا ایدھی سینٹر کے سردخانے میں اس وقت تک رکھوادیں جب تک کہ انتظامات مکمل نہ ہو جائیں۔

انتظامات__ واقعی، موت کے گھر میں کتنے بہت سارے کام نکل آتے ہیں۔ جن جن لوگوں کو خبر ملتی گئی، وہاں جمع ہوتے گئے۔ گھر کے باہر شامیانہ تن گیا اور ڈیکوریشن کی دُکان سے کرائے پر کرسیاں منگوائی گئیں۔ خالی کرسیاں تھوڑی دیر بعد بھرنے لگیں۔

لے جانا کہاں ہے؟ سوال اٹھا۔ اوہو، قبر کا انتظام کرنا ہے۔ جب تک اس کی نوبت نہیں آئی، کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتنا عجیب مرحلہ ہے۔

میرے والد اس معاملے میں بڑے دور اندیش نکلے۔ انہوں نے اپنی قبر کی جگہ خود طے کر لی تھی اور دوگز زمین کا الاٹ منٹ مکمل کروا کے اس کے کاغذات اپنے انتقال سے پہلے ہی ہمارے حوالے کر دیے تھے۔ جب وقت آیا تو ہم انہیں وہاں لے گئے اور زمین کے حوالے کردیا۔

یہاں سوال اٹھا کہ قبرستان لے جانا ہے مگر کون سا قبرستان؟ آج کل قبر کی جگہ ملنا بھی بڑا مشکل ہے، سب کو ایک مبہم سا اندازہ تھا۔\"grave\"

اس افراتفری میں مجھے یاد آیا کہ میرے ٹیلی فون میں قبر والے کا نمبر اسی نام سے محفوظ ہے۔ ہوا اس طرح کہ اب میں کئی برس پہلے میری خوش دامن کی تدفین اس قبرستان میں عمل میں آئی جو ان کے گھر سے نزدیک تھا۔ وہ قبر پُختہ کرا دی گئی اور ان کے نام کا کتبہ لگا دیا گیا۔ جس آدمی نے قبر پکّی کی تھی، اس نے اصرار کرکے اپنا فون نمبر لکھوا دیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے ان کو بُھلا تو نہیں دیا لیکن قبرستان جانے کے وقفوں میں طوالت بڑھتی گئی۔ دوسرے تیسرے مہینے، پھر کبھی کبھی۔۔۔ ایک بار بارش کے بعد اس آدمی نے فون کرکے بتایا کہ تیز بارش سے قبر کی مٹّی ہٹ گئی ہے، ڈر ہے کہ کہیں قبر بیٹھ نہ جائے۔ اس کو تھوڑے بہت پیسے دے کر قبر کے آس پاس مٹّی دوبارہ بھروا دی گئی۔

لیکن تھوڑے دنوں کے بعد اس نے پھر فون کیا، اسی آدمی نے۔ اس نے کہا، اس کو گائوں جانا ہے، پیسے چاہئیں۔ اس نے کئی مرتبہ ایسا کیا اور ہم اس کو پیسے پہنچاتے رہے کیونکہ یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ جس قبر پر لوگ کم آتے ہیں اس کو لاوارث سمجھ کر یہ لوگ برابر کر دیتے ہیں۔ اور اس جگہ کو دوسری قبر کے لیے بیچ دی جاتی ہے۔قبرستان میں جگہ کم اور شہر میں مُردے بہت۔

قبر کے اوپر قبر کی تعمیر کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے حالاں کہ سرکاری طور پر یہ قبرستان ’’بند‘‘ کر دیا گیا ہے۔ اس میں مزید تدفین کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اپنے مُردوں کو قبرستان میں برقرار رکھنے کے لیے بھی تھوڑے بہت پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ یعنی عام زبان میں، خرچہ پانی۔

اس خرچے کی ضرورت قبرستان کے مُردوں کو نہیں، زندوں کو ہے۔

کراچی سے نقل مکانی کرنے والے اپنے مُردوں کو ساتھ نہیں لے جاسکتے۔ اس شہر کی زمین میں ان مُردوں کو مدفون رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔ میرے خُسر اپنے بیٹے کے پاس کینیڈا چلے گئے اور وہاں ان کا انتقال ہوگیا تو شہر کے صاف ستھرے مضافات کے ’’مسلم قبرستان‘‘ میں مناسب جگہ مل گئی۔ اس قبر کی موجودگی یا صفائی ستھرائی کے بارے میں سات سمندر پار بھی ہمیں کوئی تردّد نہیں۔

مجھے یاد آیا پچھلی بار میں اس قبر پر گیا تھا تو ایک نوجوان لڑکا میرے پاس آیا اور کہنے لگا، میرا فکسڈ ریڈ ہے۔ یٰسین کا ایک ہزار اور قُل کے پانچ سو۔ میں حیران ہو گیا مگر جب اس کی بات میری سمجھ میں آئی تو میں نے جواب دیا، بھائی یہ تلاوت تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ وہ میری کنجوسی پر منھ ہی منھ میں بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔

لیکن یہ الگ قصّہ ہے۔ اس وقت میں نے سوچا کہ اپنی بانگی دکھائوں۔ میں نے سب کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ میرے پاس ایک قبر والے کا نمبر موجود ہے اور وہ ہمارے ساتھ رعایت کرے گا کیونکہ ہم اس کے پرانے گاہک ہیں۔\"grave1\"

یہ بات چل رہی تھی کہ کوئی اطلاع لے کر آیا کہ اسی قبرستان میں جگہ مل گئی ہے جہاں پچھلے سال میرے چچا کو رکھا گیا تھا۔اس قبرستان میں میری چچی اور میرے دادا کی قبریں بھی موجود ہیں۔ ان کی قبریں پاس پاس ہیں۔ دوسری طرف پھوپھا کی قبر ہے جن کو کوئی نامعلوم موٹرسائیکل سوار مار کر بھاگ گیا تھا۔ دو دن کی تلاش کے بعد خبرملی تھی کہ فلاں اسپتال میں بے ہوش پڑے ہیں۔ یہ اس وقت کی بعد ہے جب لوگ ٹریفک حادثات کا شکار ہوتے تھے، نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بننا عام نہیں ہوا تھا۔

ایک موت سے مجھے کتنی موتیں یاد آنے لگتی ہیں__ اب ان کو ایک لاش کے طور پر میّت گاڑی کے گہوارے میں رکھا جارہا تھا۔ میرے دل پر ایک گھونسا سا لگا کہ میری پھوپی اب یہ کفنایا ہوا پیکر بن رہ گئی ہیں۔ ان کا محبّت بھرا زندہ وجود اب زندگی سے عاری ہو کر قبر کے حوالے کیا جارہا ہے۔ میّت گاڑی چلنا شروع ہوا تو مجھے عجیب سا خیال آرہا تھا__ جیسے سب لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ بچپن میں سڑک پر دولہا کی سجی بنی گاڑی دیکھتے تھے تو خیال آتا کہ ہم اس وقت برات میں سجی بنی گاڑی نہیں، میّت گاڑی تھی۔ کب ایسی گاڑی میں دولہا کے ساتھ بیٹھیں گے اور لوگ ہمیں اسی طرح دیکھیں گے۔ سڑک پر آنے جانے والے لوگ واقعی ہمیں دیکھ رہے تھے۔ کراچی میں بعض لوگ اب بھی میّت گاڑیوں کے لیے راستے چھوڑ دیتے ہیں۔

ٹریفک میں پھنستے پھنساتے کسی نہ کسی طرح قبرستان پہنچے۔ کلمہ پڑھتے ہوئے اس گہوارے کو لے کر تیار شدہ قبر کی جانب لے کر چلے جدھر گورکن اشارہ کررہا تھا۔ لیکن چند قدم چلنا بھی دشوار ہوگیا۔ قبروں کے درمیان کچّی پکی زمین ختم ہوگئی اور قبریں ہی قبریں تھیں، خاموشی کے ساتھ، ایک دوسرے کے کاندھے سے کاندھا ملائے ہوئے۔ اب ان ہی قبروں کو لانگھتے پھلانگتے جانا ہوگا۔ قبریں بھی آڑی ترچھی، اونچی، نیچی۔ ایک کی منڈیر ٹوٹی ہوئی ہے تو دوسری کا کتبہ راستے میں آرہا ہے۔ خوف بھی آتا ہے کہ قبروں کی بے ادبی ہورہی ہے جو اس طرح ان کو یوں روندتے چلے جارہے ہیں۔ لیکن کیا کریں، آگے بڑھنا ہے اور اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

بڑی مشکل سے یہ فاصلہ طے ہوا۔ تب ان کو قبر میں اتارنے لگے۔ وہاں سیدھے کھڑے ہونے کی جگہ بھی برائے نام تھی۔ کوئی دوسری قبر پر پائوں جمائے کھڑا ہے۔ کوئی ایک اور قبر پر۔ ایک آدمی قبر کے اندر اُترا اور ایک طرف سے اس طرح پکڑ لیا کہ مجھے لگا زمین کی طرف سے وصولی کررہا ہے۔

اس کے بعد سب لوگ قبر کو مٹّی دینے لگے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ پتھر کی سل رکھ کر ذرا دیر میں قبر بند کر دی گئی۔

وہاں سے واپس ہونے لگے تو مجھے خیال آیا، یہاں تک آئے ہیں تو دادا ابّا کی قبر پر فاتحہ پڑھتا چلوں۔ اتنی مشکلوں سے پہنچے ہیں اور پہنچ گئے تو ان کو سلام کر لوں۔

گورکن کو میں نے بتایا کہ قبر کے کتبے پر یہ نام لکھا ہوگا اور یہ قبر یہیں کہیں ہوگی۔ وہ میرا مُنھ تکنے لگا۔ ’’یہیں تو کھڑے ہو۔ یہی تو قبر ہے۔۔۔‘‘ اس نے اس انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہا جیسے اسے میری بات کا یقین نہ آرہا ہو۔\"graveyard\"

دادا ابّا کی قبر کھود ڈالی گئی؟ شاید میرے ہونٹوں سے یہ سوال نہیں نکلا لیکن چہرے پر ضرور پھیل گیا ہوگا۔

کیا بات کررہے ہیں، چُپ ہو جائیے__ کوئی مجھے سمجھا بجھا کر ایک طرف لے جاتا ہے۔ ان قبرستانوں میں اب جگہ کہاں ملتی ہے؟ کسی جاننے والے کی قبر ہو تو اس کے پہلو میں گنجائش نکال کر ترچھا کرکے لٹا دیتے ہیں۔ ایک قبر کے دو حصّے ہو جاتے ہیں اور دونوں کے نام کا آدھا آدھا کتبہ لگ جاتا ہے۔

مگر میں قبر کے بارے میں نہیں سوچ رہا تھا__ مجھے یاد آرہا تھا کہ گھر کے برآمدے کے ایک حصّے میں تخت لگا کر دادا ابّا نے اپنے بیٹھنے کی جگہ بنا لی تھی۔ ان کا سارا سامان اسی تخت پر رکھا رہتا تھا۔ کیا مجال کہ اس کو کوئی ہاتھ لگا دے۔ میرے چچا کا چھوٹا سا بیٹا کھیلتا ہوا ادھر آنکلتا تو وہ مسکرا کر اس کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے اور کہتے تھے ’’ہم ان کو اپنی چیزوں کی چھوا چھیڑی سے منع کرتے رہتے ہیں۔‘‘

بیٹھنے کی جگہ بھی ان کی اپنی تھی اور اس پر رکھا سامان بھی۔ چیزیں زیادہ جمع ہو گئی تھیں اور ایک مرتبہ دادی اماں نے کہا کہ ان کو پھنکوا دیا جائے، تو انھوں نے بہت رسان سے کہا تھا، ان چیزوں کے ساتھ ہمیں بھی پھنکوا دو۔

دادا ابّا نے اس وقت سب کو چُپ کروا دیا۔ مگر اب وہ کچھ نہیں کہہ سکتے تھے جب آخری آرام گاہ بھی سمٹ کر آدھی رہ گئی۔ پوری زندگی کے بعد آدھا کتبہ__

بچپن سے سُنا تھا کہ جب قیامت کا دن آئے گا تب ایک قبر سے سیکڑوں مُردے نکل پڑیں گے۔ میں حیران ہوا کرتا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہوگا__ ایک قبر میں تو ایک ہی مُردہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ پرانی بات ہوگئی۔ جو اس وقت ممکن نہ تھا، اب ممکن ہے۔ اب قُربِ قیامت کی نشانیاں کراچی میں نظر آنے لگی ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں کی تو بات ہے کہ ایک بزرگ خاتون نے مجھ سے کہا، یہاں تو اب موت کا بھی احترام نہیں رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments