قوم کی ناچتی بیٹیاں اور راگ درباری میں چھیڑی گئی دعائیں


ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا۔ ہمیشہ سے ہی زمانے کا چلن یہ رہا ہے کہ جس چیز کا سِرا ہاتھ نہ آئے اُسے دیوتاوں سے جوڑ دو۔ آسمان سے پانی برسا تو حیرت سے انسان انگلیاں دانت میں دباکر آسمان کو تکنے لگا۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیسے ہو رہا ہے۔ علم محدود تھا، تو بس اتنا سا خیال آیا کہ کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے۔ آگے چل کر یہ “کوئی” دیوتا بن گیا جو ہر کیوں اور ہر کیسے کے ساتھ قدم جماتا چلا گیا۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ لوگ بارش کا انتظار کرتے رہے، مگر موسموں کے رخ ایسے پھرے کہ کسی کی نصیب کی بارشیں کسی کی چھت پر برس گئیں۔ یہاں بھی سوال پیدا ہوا کہ وہ صبح آتے آتے آخر کہاں رہ گئی؟ ظاہر ہے دستیاب علم اس سوال کا جواب دینے کے لیے بھی ناکافی تھا۔ لاعلمی نے بہت سوچ کر بھی یہ جواب دیا کہ وہ یار اب ہم سے روٹھ گیا ہے۔ اب رادھا ناچے گے تو تیل نکلے گا یا منصور دار پہ چڑھے گا تو بات بنے گی۔

یہی معاملہ زلزلے کا بھی ہے۔ زمین ہلی تو انسان نے جھٹ سے پیچھے مڑ کے کہا، کون ہے بے؟ پیچھے دیکھا، دائیں بائیں دیکھا کوئی نظر نہیں آیا۔ بہت دیر سرگرداں رہنے کے بعد اس نے سوچا کہ ہو نہ ہو کوئی جیتی جاگتی ہستی جڑوں میں بیٹھ کر تار ہلا رہی ہے۔ کسی سیانے نے بہت اعتماد کے ساتھ کہہ دیا کہ زمین کے نیچے ایک گائے ہے جو ایک سینگ پر دھرتی اٹھائے کھڑی ہے۔ جب وہ دائیں سینگ سے دنیا کو بائیں سینگ پر پلٹتی ہے تو زمین ہلتی ہے اور برتن ٹوٹتے ہیں۔ کسی نے اس انکشاف سے اختلاف کیا بھی تو اپنا ہی جناور دریافت کر لیا۔ فرمایا، اس دنیا کو ایک بڑی سی چھپکلی نے اپنی پشت پر اٹھا رکھا ہے۔ کبھی تھک ہار کے گہرا سانس لیتی ہے تو دنیا جھول جاتی ہے۔

مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ انسانی عقل نے پانی کا اگلا سِرا تلاش کر لیا۔ ہواوں کی سمت اور موسموں کی چال معلوم کرلی۔ ابھی کل تک تو وہ بارش کے اوقات اور مقدار پیشگی بتاتا رہا تھا، آج کی جسارت یہ ہے کہ اپنے بادل وہ آپ پیدا کر سکتا ہے اور اپنی بارش خود برسا لیتا ہے۔ زمین کے نیچے اُس نے وہ پلیٹ لیٹس بھی دریافت کرلیں جس کی رگڑ کھانے سے زلزلے آتے ہیں۔

جنہوں نے علم کا احترام کیا انہوں نے تدبیر کو اپنا شعار بنا لیا۔ بپھری ہوائیں مسخر کیں اور بے قابو زمین کو سینگوں سے پکڑلیا۔ پہلے گائے ڈکرا بھی لیتی تو جاپان، سوئٹزرلینڈ اور امریکہ میں لاکھوں لوگ موت کا ایک نوالہ بن جاتے۔ اب گائے رسی توڑ کے بھاگ بھی جائے تو بہت سے بہت زلزلے آتے ہیں، عذاب نہیں آتے۔ اُسی گائے کی ہلکی سی کھانسی پر آج بھی اُن ممالک میں لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں جہاں تقدیر کے فرشتے تو بہت ملتے ہیں مگر تدبیر کے نوشتے کہیں نہیں نظر نہیں آتے۔ ایک پل کو لوگ ٹھہر کے پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا۔ لاحول پڑھتے ہیں اور “لوگ بد عمل بھی تو اتنے ہیں” کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

اب یہ بداعمالی کس سیلابِ بلاخیز کا نام ہے؟ اگر ٹوٹے ہوئے بند کو اپنے حال پہ چھوڑ دینا، ڈیموں کو بابا رحمتے کا کشکول بنا دینا، پانی کو الٹی سمت میں بہا دینا، ماحول کو آلودہ کرنا، درختوں کو اکھیڑنا، جنگلوں کو پھونک دینا، ترازو کے باٹ گھِس دینا، انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالنا، صنفی مساوات سے یکسر انحراف کرنا، اظہار پر بندشیں عائد کرنا، فرد کی زندگی میں مداخلت کرنا، عقیدے کی بنیاد پر برتاو کرنا، فرقہ واریت کو نصابی حیثیت دینا، نفرت کو آئینی درجہ دینا اور فیصلے کے دن عوام کی گواہی کو مسترد کر دینا بد اعمالی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی۔ ہماری بداعمالی تو کُل ملا کے یہ ہے کہ قوم کی بیٹیوں کو کوئی نچا رہا ہے۔

ہمیں لگتا ہے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کے اگر ہم کراچی کے سمندر میں یومیہ پچاس کروڑ گیلن گندا پانی پھینکیں گے تو پانی اور آبی حیات کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وضو کر کے اگر سارے درخت کاٹ لیے جائیں تو آکسیجن برابر ملتی رہے گی۔ ہذا مِن فضلِ ربی پھونک کر جعلی ادویات بیچیں گے تو خدا اپنی قدرت سے اس میں شفا ڈال دے گا۔ تعلیم کے پیسے بسم اللہ پڑھ کے قتال وجدال میں اڑ ڈالیں گے تو بھی خدا اقوامِ عالم میں شملہ اونچا رکھے گا۔ اگر یہ سب کرکے بھی پانی آلودہ ہو گیا، دریا سکڑ گئے، بند ٹوٹ گئے، ہوائیں منہ زور ہو گئیں، آکسیجن ہش پش ہو گئی، دوا زہر بن گئی اور ہم گلی گلی رسوا ہوگئے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو گا کہ ہمارے اعمال میں کہیں کوئی خرابی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شہر میں ہمارے علاوہ کچھ لوگ بستے ہیں جو بے ایمانی کے یہ سارے کام پوری ایمان داری سے نہیں کرتے۔ نتیجے میں خدا ناراض ہو جاتا ہے اور سارے جہاں کا عذاب سمیٹ کر ہمارے نصیب میں لکھ دیتا ہے۔

سیاست کی سیدھی سادی کتاب کو مذہب کے جُزدان میں لپیٹنا اشرافیہ کا طریقہ واردات ہے۔ حق مارو اور غلافِ کعبہ کے پیچھے چھپ جاو۔ اگر پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، انفرا سٹرکچرتباہ ہو رہا ہے، ریل کی پٹریاں اتر رہی ہیں، اشیائے خور و نوش میں ملاوٹ ہو رہی ہے، گندم کم پڑ رہی ہے، چینی غائب ہو رہی ہے، چوٹ پہ رکھنے کو مرہم نہیں ہے اور دماغ کھولنے کو کتاب نہیں ہے تو ذمہ دار کون ہے؟ بااختیار طاقت کے علاوہ ذمہ دار کون ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ سوال کریں گے تو طاقت ور حلقے میڈیا اور منبر پر خدا کے برگزیدہ بندوں کو متحرک کر دیں گے۔ جن کی صبح شام کی جگالیوں کا کُل خلاصہ یہ ہوگا کہ یہ سب لوگوں کی بد اعمالیوں کے نتیجے میں ہوا ہے۔ یہ بات کتاب کے بیچ سے وہ اِس طرح کریں گے کہ یہاں سادہ روحوں کی توجہ ذمہ داروں سے ہٹ کر اپنے خدا پر لگ جائے گی۔ وہاں طاقت کا سُتون بہت سکون کا سانس لیتے ہوئے گالف کلب میں بال کو ہٹ لگائے گا اور بے فکری کا سگار سلگا کے بلیک کافی آرڈر کردے گا۔

کورونا کی صورت میں زمین پر ایسی وبا حملہ آور ہو چکی تھی کہ جس کا مقابلہ توپ وتفنگ سے ممکن نہیں تھا۔  فوجی دستے اتارے جا سکتے تھے نہ جیٹ طیارے چھوڑے جا سکتے تھے۔ یہ طبیبوں کا میدان تھا، مگر جب ہم نے حساب لگایا تو ذخیرے میں ایک سے بڑھ کر ایک ہتھیار نکلا، مگر درد کے درماں کے لیے مرہم تو کیا ملتا ماسک بھی پورے نہیں نکلے۔

بجائے اس کے کہ دوسروں کی جان بچانے والے بے دست وپا ڈاکٹروں کو حفاظتی سامان دیتے اور اضافی معاوضہ دیتے، ہم نے انہیں سلیوٹ دیے، سفید جھنڈے دیے اور علماء سے مشاورت کے بعد یہ اطمینان دیا کہ جب تم مر جاؤ گے تو ہم تمہیں شہید پکاریں گے۔

ہمارے پاس وینٹی لیٹر نہیں ہیں، دوا دارو نہیں ہے، ماسک دستانے اور کِٹ نہیں ہیں ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ کُل ملا کر ہمارے پاس راگ درباری میں کمپوز کی ہوئی بے سمت سی دعائیں ہے۔ ان دعاوں میں بھی ہم خدا سے کلام کہاں کرتے ہیں۔ ہم تو طاقت و اختیار کی ایمان داری کی قسم کھاتے ہیں اور عوام پر تہمتیں باندھتے ہیں۔ خدا کو مخاطب کرکے خلقِ خدا سے تقاضا کرتے ہیں وبائی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی کسی کمی کوتاہی کا طاقت و اختیار سے مت پوچھو، کیونکہ یہ یہ سب تو عذابِ خداوندی ہے۔ اپنا گریبان چاک کرو یا دامنِ یزداں چاک کرو، کیونکہ یہ عذاب قومی کی ناچتی ہوئی بے حیا بیٹیوں کی وجہ سے آیا ہے۔

تنہائی کے لمحے کبھی تو واعظِ شہر سے پوچھتے ہوں گے کہ قبلہ! یہ کیسا عذاب ہے جو ہمیشہ اُنہی پر آتا ہے جو گناہ خریدنے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔ وہ لوگ ہمیشہ کیوں بچ جاتے ہیں جن کے آنگن میں جرائم کے اتوار بازار لگتے ہیں۔ اور یہ کیسا اتفاق ہے کہ آپ کی بانہیں جب بھی پھیلتی ہیں گناہوں کے ایوانِ بالا میں ہی پھیلتی ہیں۔ آپ کی بانچھیں جب بھی کِھلتی ہیں گناہوں کے ایوانِ زیریں میں کھِلتی ہیں؟ آپ کی جبینِ نیاز میں تڑپنے والے ہزار سجدے ہمیشہ کسی داغ داغ دامن پر ہی کیوں ادا ہوتے ہیں۔ آپ کی ہچکیاں اور سبکیاں انہی کے حق میں کیوں جاتی ہیں جن کے دستخط سے گناہ جاری ہوتے ہیں؟

یہ بات اپنی جگہ کہ فقیہِ بے توفیق نے وبا کی ساری ذمہ داری قوم کی بیٹیوں پر ڈال دی، مگر اس کا کیا کیجیے کہ فرنٹ لائن پر لڑنے والے بے وسیلہ مسیحاوں کو دعاوں کی خیرات میں بھی حصہ نہیں ملا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments