چھپن کروڑ کے بدلے بے حیائی کا سرٹیفیکیٹ


ہمارا قومی پرچم پوری قوم کے لیے امن کا پیغام ہے اور ہم اس امن کے سفیر ہیں جس کا پچاس فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور اس میں وہ خواتین ہیں جو خود مختار ہیں۔ جو معذوری کے باوجود اپنا کنبے کو چلا رہی ہیں۔ جو مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں جو خود کو کسی بھی مرد سے کم نہیں جانتی اور اپنے لیے ہر اس امتحان کو بڑی ہمت سے جیت جاتی ہیں جو اس ظالم سماج نے پدر شاہی ستونوں کی مضبوطی کے لیے رائج کیے ہیں جس میں عورت کی کوئی رضامندی شامل نہیں بتاتی چلوں کہ اس پچاس فیصد میں وہ لڑکیاں اور خواتین بھی شامل ہیں جن کو گلی کے کسی بھی موڑ پر جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

کسی بھی سڑک کے کنارے ناپسندیدگی کی بنا پر تیزاب گردی کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔ ریپ کرکے کسی کھیت میں پھینک دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر فوٹو شاپ کرکے بدنام کیا جاتا ہے۔ ونی کیا جاتا ہے۔ راشن کے بہانے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔ باپ اور سگے بھائی زیادتی کرتے ہیں۔ کاروکاری کے الزام میں بے دردی سے معصوم بچیوں کا قتل کیا جاتا ہے۔ شور مچانے پر چچا فائرنگ کرکے قتل کر دیتا ہے۔ غیرت کے نام پر زندہ درگور کر دیا جاتا ہے۔

کالے رنگ کی پاداش میں باورچی خانے میں گیس پائپ کھلا چھوڑ کر زندہ حالت میں آگ سے جھلسا دیا جاتا ہے۔ بیٹے کی خواہش میں اس کی جان لے لی جاتی ہے جس پھر بچوں کی لمبی لائن لگائی جاتی ہے۔ پسند کی شادی پر درندگی کا نشانہ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ شادی کی پہلی رات پردہ بکارت سے خون جاری نہ ہونے پر گلا دبا دیا جاتا ہے۔

حیض کی پیچیدگیوں اور چھاتی کے سرطان سے تنہا لڑتی ہوئی لڑکیاں اور خواتین اپنی جان دے دیتی ہیں۔ آنکھوں کی بینائی سے محروم معصوم بچی کو جنسی تشدد کا آسانی سے شکار بنایا جاتا ہے۔ قبر سے مردہ عورت کو نکال کر اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔ وہ خواتین ہیں جن کو اچھے مستقبل کا جھانسہ دے کر جسم فروشی کے دھندے پر لگا دیا جاتا ہے۔ کتنی ہی خواتین کم عمری کی شادی کی وجہ سے تعلیم سے محروم کر دی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی خواتین کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ پتھراؤ کیا جاتا ہے۔ ملک بدر کیا جاتا ہے۔ گینگ ریپ کر دیا جاتا ہے ایسی عورت کا جو گاؤں کی سادہ زندگی بسر کرتی ہے۔ ان تمام عورتوں کو بالآخر قتل کیا جاتا ہے۔

مولانا جی آپ اتنے بھی جواں عمر نہیں کہ آپ کو ان تمام عظیم خواتین کا پتہ ہی نہ ہو۔ شاید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نہ پتہ ہو کیونکہ آپ کو تو ترغئیب آمیز خطاب سے فرصت ہی نہیں ہے۔ جی مولانا صاحب یہی ہیں۔ وہ بے حیا عورتیں مجھ سمیت جن کی وجہ سے زلزلے آتے ہیں جن کی وجہ سے امت مسلمہ پر کورونا جیسا عذاب نازل ہوا ہے۔ سانسیں چھین لو ہماری یا ہم بے حیا عورتوں کو بیچ دیں یہودیوں کے پاس، کافروں کے حوالے کردیں۔ ہم بے حیاؤں کو لونڈیاں بنا دیں ان کی اور پھر چلائیں اپنی معیشت، سیاست اور سماج کی گاڑی کو۔

تاریخ لکھے گی کہ آپ اس وقت بھی عورتوں کو نشانہ بنانے سے باز نہ آئے جب لاک ڈاؤن کے دوران عورتیں گھریلو تشدد سے متاثر ہو رہی تھیں بچیاں جنسی تشدد کا نشانہ بن رہی تھیں آپ کو اس وقت منافقت اور نفرت پھیلانے کی بجائے سوچنا چاہیے تھا کہ جو چھپن کروڑ ساڑھے تین گھنٹے کے اندر قوم سے اکٹھے کر کے صندوقچی میں محفوظ کیے گئے ہیں۔ اس میں ان گنت بے حیا عورتوں کاحصہ بھی ہے۔ چھپن کروڑ دے کر اس قوم نے اپنی پچاس فیصد آبادی کے لیے بے حیا ہونے کا سرٹیفیکیٹ تو وصول کیا ہی ہے۔ ساتھ پوری قوم پر عورتوں کو نچانے کا الزام اپنے سر لے لیا جبکہ اس کا سہرا نئے پاکستان کے ٹھیکیداروں پر سجتا ہے۔ وہ میڈیا جو سچ بولنے پر جانیں قربان کرتارہا جس کی سچائی کے دعوے ماضی میں خود ہمارے نیک وزیراعظم کرتے رہے اس کو آپ نے جھوٹے ہونے کا شرف بخش دیا۔

اس ملک میں سیکس ایجوکیشن دینا تو گناہ ہے۔ مگر لذت آمیز خطاب جائز ہے۔ ہمیشہ عورتوں کو نشانہ بنانا اور ملکی معاملات سے عوام کی توجہ ہٹاکر معاملات کو اپنے طرز سے چلانا بند کریں میڈیا اگر جھوٹ بولتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی تو طاقتور طبقہ ہوگا جو ان کو اس نیک کام میں شامل کر رہا ہے جس کی بنا پر آپ اس نیک انسان کا نام لینا نہیں چاہ رہے اور اس کو ذاتی معاملہ کہہ کر گول کر گئے ذاتیات کا پیمانہ صرف اشرافیہ کے لیے ہی ہے۔

میری بہت بڑی خواہش ہے کہ افریقہ کی جن سیاہ فام عورتوں کوآپ بدصورت کہتے ہیں۔ اپنے بیان میں اس کرونا کے عذاب کا حل ان کے مقدس قدموں میں موجود ہو اور ہماری بے حیائی جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اس پر عالمی ادارہ صحت نے کوئی غور نہ کیا۔ مجھے تو اس بے حیائی پر اتنا فخر محسوس ہو رہا ہے کہ اپنی ساری ٹک ٹاک وڈیوز ان حوروں کے نام کردوں جو سو لباس پہن کر بھی عریاں ہوں گی۔

چلیں مولانا جی اب کچھ حقیقی بے حیائی منافقت اور جھوٹ روشنی ڈالتے ہیں۔ مجھے امید ہے۔ اس کو پڑھ کر کچھ لوگ متفق بھی ہوں گے اور کچھ میری ذاتیات پر بات بھی کریں گے کہ تم تو خود ایک خود مختار بے حیا لڑکی ہو تم کن حقوق کی بات کرتی ہو۔

تو جناب محترم میں ہر اس بے حیا عورت کی آواز ہوں جن کا ذکر میں اس تحریر کے آغاز میں کر چکی ہوں جن کو اس سماج کی گھٹیا روایتوں کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ ازل سے ہر برائی کی جڑ عورت ہی رہی ہے۔ مجھے کوئی یہ بتا دے کہ شادی کی ضد میں لڑکی کو زبردستی اپنی مردانگی کی طاقت دکھانے والا مرد کیا ہے؟

شیشے میں سے تاڑنے والا مرد کون سا طواف کر رہا ہوتا ہے؟ یہ بازاروں اور مساجد سے نکلتے ہوئے مرد عورت کو آنکھ مارنے والے کون ہیں۔ امت مسلمہ کے ہی ہیں نا؟ کیونکہ کلمہ درود پڑھ کر باوضو حالت میں مسجد سے نکلتے ہیں اور دکانوں کے اندر لکھی ہوئی قرآنی آیات اور احادیث کہ ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“ لکھوا کر مذہب کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں۔ خدا کے نام پر دم درود اور روحانی علاج کے بے تاج بادشاہ جب ہسٹیریا کی مریضہ کے اوپر اپنے جنسی جن کو آزاد کرتے ہیں۔ وہ کون ہیں؟

اپنے خطبات میں حوروں کے حسن پر جو روشنی آپ ڈالتے ہیں۔ وہ سامعین کی جنسی اشتہا کو نہیں بڑھاتی؟ کیا جب وہ یہ سب سن کر مشت زنی کرتے ہیں۔ وہ حلال ہے؟ بیوی کے ساتھ ناجائز طریقے سے ہمبستری کرنے والے کون ہیں؟ ایک لڑکی جس کی ذہنی بلوغت کا اسے خود علم نہیں اس کی زبردستی شادی کرنے والے کوکیا کہیں گے؟ مذہب کہتا ہے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے تو کیا غیرت کے نام پر قتل جائز ہے اور اگر جائز ہے تو اس میں عورتیں ہی کیوں قتل کی جاتیں ہیں؟

کیا ایک شوہر کا بیوی پر ہاتھ اٹھانا شرعی ہے؟ اگر نہیں تو ہاتھ اٹھانے والے کون ہیں؟ آپ نے جن ممالک میں سفر کیا کیا وہ مسلم ریاستیں ہی تھیں؟ کیا وہاں کی پروڈکٹس آپ کو احساس ٹیلی تھون سے مہیا کی جاتی تھیں؟ آنحضور ﷺ کی حیات مبارکہ کے مطابق آپ زندگی بسر کر رہے ہیں؟ اگرنہیں تو آپ کون ہیں؟ کرونا وبا کا عذاب بے حیائی اور فحاشی سے ہے تو ایران اس کی لپیٹ میں کیوں آیا؟ ہر سال جو آپ حج پرلوگوں کو لے کر جاتے ہیں۔ اس سے کمایا جانے والا پیسہ تھر میں مرنے والوں بچوں کی بھوک پیاس کیوں نہ مٹا سکا؟  آخری سوال آپ کے قیمتی آنسوؤں سے لبریز دعاؤں سے کورونا قابو میں کیوں نہیں آ رہا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments