مولانا طارق جمیل، کرونا وبا اور بے حیائی


23 اپریل کووزیرِاعظم کی احساس ٹیلی تھون میں مولانا طارق جمیل نے خواتین اور نو جوانوں کے خلاف نہایت نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ مولانا نے فرمایاکہ میرے دیس پر جو کرونا کا عذاب ہے یہ خواتین کے مختصر لباس اور کالج، یونیورسٹی میں پڑھنے والے نوجوانوں کی بے راہ روی کی وجہ سے ہے۔ عورتوں اور نوجوانوں کا رویہ ملک پر اس طرح کا قہر لایا ہے۔ جب تک بے حیائی کو نہیں روکتے، عذاب نہیں رُکے گا۔ بے حیائی کوختم کر کے ہی اس وبا سے نجات مل سکتی ہے۔

مولانا کے ان الفا ظ پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔ پہلے دو دن تو ٹویٹر پرہیش ٹیگ طارق جمیل اورہیش ٹیگ مولانا طارق جمیل ٹاپ ٹرینڈز میں رہے جن پہ اس بیان کے حق اور مخالفت دونوں میں گولہ باری ہوئی۔ تاہم تیسرے دن سے
voicepk.net
کے توسط ہیش ٹیگ آن لائن جلوس پر زیادہ منظم طریقے سے مولانا کے الفاظ پر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

کئی سیاستدانوں، ماہرِتعلیم، وکلا، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اورسول سوسائٹی کے افراد نے مولانا کے ان کلمات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے مولاناکو آڑے ہاتھوں لیا۔ انھوں نے کہاہم خواتین کو ایسے مضحکہ خیزالزام کا نشانہ نہیں بننے دیں گے۔ ہم نے آئینِ پاکستان میں درج اپنے حقوق کے حصول کے لئے سخت جدوجہد کی ہے۔ انھوں نے ٹویٹ کیا۔ کسی بھی حیثیت میں کسی کے لئے یہ کہنا یقیناً بے معنی ہے کہ کووڈ 19 خواتین کے مختصر بازو پہننے کی وجہ سے ہے یانجی سکول اور یونیورسٹیاں نو جوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ یقیناً عالمی وبا سے مکمل لاعلمی یا پھر عورت بیزار ذہنیت ہے جو بالکل نا قابلِ تسلیم ہے۔

بیرسٹر ملیکا بخاری پارلیمانی سیکریٹری لا اینڈ جسٹس نے ٹویٹ کیا کسی بھی حال میں کسی وبا کے پھوٹنے کا تعلق خواتین کے تقویٰ یا اخلاقیات سے نہیں۔ اس طرح کا ربط پیدا کرناخطرناک ہے۔ اس سے خواتین کے خلاف متشدد جرائم میں اضافہ ہو گا اور ان کی زندگیاں مزید مشکلات کا شکار ہوں گی۔

اسی دوران کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان نے اپنی آفیشل سٹیٹمینٹ میں کہا ’ایچ آر سی پی مولانا طارق جمیل کے اس بیان پر دہشت زدہ ہے جو ناقابلِ توجیہہ طور پر خواتین کی حیا کا کووڈ 19 وبا سے تعلق جوڑتا ہے۔ ایسی واضح تجسیم نا قابلِ قبول ہے۔ جب اسے سرکاری ٹیلیویژن پر نشر کیا جاتا ہے تو اس سے معاشرے میں عورت بے زاری کو بڑھاوا ملتا ہے۔‘ انسانی حقوق کی کارکُن محترمہ حنا جیلانی نے کہا کہ مولانا نے تمام عورتوں اور نو جوانوں کی بے عزتی کی ہے۔

اس سے زیادہ بیہودہ اور بے شرم بیان کیا ہو سکتا ہے؟ اس میں وہاں بیٹھے سارے صحافی اور وزیرِ اعظم بھی شامل ہیں۔ انھوں نے مولانا کے اس بیان پراحتجاج نہ کر کے عورتوں اور نوجوانوں کی تذلیل کی ہے۔ انسانی حقوق کی کارکُن محترمہ طاہرہ عبداللہ نے اس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ طارق جمیل کے خلاف آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 25 اور 25 A کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔

سیاسی وسماجی رہنما افراسیاب خٹک نے کہا ’مولانا طارق جمیل نے عمران خان کی ٹیلی تھون میں خواتین کے بارے میں جو الفاظ استعما ل کیے ہیں، وہ ایک ذہنیت ہے جو ضیا ا لالحق کے بعد پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی شکل میں وجود میں آئی۔ بدقسمتی سے یہ ایک انتہائی تنگ نظر، فرقہ واریت سے بھری اور بہت خطرناک ذہنیت ہے۔ جس نے پاکستان کو مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ یہاں مذہبی منافرت اور دہشت گردی کو فروغ دیا ہے اور کمزور طبقات خصوصاًخواتین کے خلاف تعصب اور تشدد کو جنم دیا ہے۔ ا س کی مذمت کی جانی چاہیے اور پورے جمہوری معاشرے کو اس کے خلاف آوازاٹھانی چاہیے‘ ۔

مولانا طارق جمیل نے جب دعا کی تو ان کا انداز حسبِ معمول مکمل ڈرامائی تھا۔ وہ پورے خشوع وخضوع کے ساتھ ہچکولے لے کر رو رو کر دُعا کر رہے تھے جس سے وزیرِ اعظم پاکستان اور کچھ صحافی بہت متاثر ہوئے خاص طور پر ایک خاتون اینکر کی تو رو رو کر گھگھی بندھ گئی۔ نا تو وزیرِ اعظم نے اور نا ہی کسی اینکرپرسن نے مولانا سے کہا کہ انھیں ملک کی اتنی بڑی آبادی کی توہین کرنے کا کوئی حق نہیں۔ مولانا کے کلمات حقیقتاً ظالمانہ اور توہین آمیزہیں۔

طارق جمیل نے نوجوانوں کی تذلیل کی ہے، عورتوں کی تذلیل کی ہے۔ بے حیائی کا ٹیگ عورت پر لگانا اس کو گالی دینا ہے۔ مرد چاہے جو بھی پہنے بے حیا نہیں۔ مگرعورت کے لباس کی وجہ سے عورت بے حیا ہے اور بعقول طارق جمیل عذاب آگیا ہے۔ ایسی عورتوں پربہت تعجب ہوتا ہے جو طارق جمیل جیسے مردوں کی عزت کرتی ہیں جو انھیں گالی دیتے ہیں۔ مولانا ایک طرف فرماتے ہیں کہ کرونا وبا عذابِ الہی ہے۔ یہ بے حیائی، گمراہی اور گناہوں کی سزا ہے جبکہ ایک دوسرے خطاب میں کہتے ہیں کروناسے مرنے والے شہادت کا درجہ پائیں گے۔ گناہوں کی سزا پانے والے گنہگار شہید کیسے ہو سکتے ہیں؟ کرونا سے مرنے والی بے حیا عورتیں جنت کی حقدار کیسے ٹھہریں گی؟

اگر مسلم معاشرے کی طرف نگاہ دوڑائی جائے تو کرونا نے سب سے زیادہ تباہی ایران میں پھیلائی ہے۔ وہاں تو عورتیں مکمل پردہ کرتی ہیں۔ پھر سعودی عرب میں کرونا سے تباہی کی کیا دلیل ہے؟ آخر اس باحیا معاشرے پر اللہ نے کس بات کا عذاب نازل کیا ہ؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کرونا وائرس خواتین کی وجہ سے عذاب ہے تو یہ مردوں پر کیوں اثر انداز ہو رہا ہے؟ مردوں کو ان کے معقول لباس اور حیا کے سبب اس وبا سے بالکل نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔

ویسے تو کرونا جیسے طبی بحران کو انسانوں کے افعال سے جوڑ کر اسے عذابِ الہی قرار دیناقطعی غیرمنطقی ہے۔ تاہم مولانا نے اپنے کسی بیان میں زینب جیسی بچیوں اور بچوں پر جنسی تشدد کرنے والوں کو قصوروارنہیں ٹھہرایا۔ خواتین پر تشدد کرنے والوں کو توبہ کی تلقین نہیں کی۔ چہروں پر تیزاب پھینکنے والوں کواستغفار پڑھنے کو نہیں کہا۔ غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو عذابِ الٰہی کی وجہ نہیں گردانا۔

اگر غیرجانبداری سے جائزہ لیاجائے تو کرونا وباکے اس کٹھن سمے میں پاکستانی عورتیں بہت باہمت ہیں۔ وہ عورتیں جوگھریلو تشددکاشکارہیں۔ وہ عورتیں جوخاونداور بچوں کا چڑچڑاپن برداشت کر رہی ہیں۔ وہ عورتیں جوان حالات میں گھرکانظام چلا رہی ہیں۔ وہ عورتیں جو لمبی قطاروں میں اپنے بچوں کے لئے راشن لینے کے لئے کھڑی ہیں۔ وہ عورتیں جوکھیت مزدور ہیں اور ان کواس وقت کام نہیں مل رہا۔ وہ عورتیں جودوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔

علاوہ ازیں وہ عورتیں جوڈاکٹرہیں، نرسیں ہیں۔ جو مصیبت کی اس گھڑی میں ملک کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ان کو خراجِ تحسین پیش کیاجائے، اُن پر تہمتیں لگائی جارہی ہیں۔ اس مشکل وقت میں یکجہتی کی ضرورت ہے۔ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کوغلط قرار دے کر الگ کرنانامناسب ہے۔ کرونا سے بچاؤ کے لئے طبی احتیاطوں اور سماجی فاصلے پر دھیان ہونا چاہیے نا کہ عورتوں اور نوجوانوں کو قصوروار ٹھہرانے پر۔ جب سائنسی ایجادات اور جدید طریقوں پر توجہ ہونی چاہیے وہاں اس طرح کے کلمات وبیانات کے لئے پلیٹ فارم مہّیاکرناخطرناک ہے۔

مولانا طارق جمیل کو ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کی توہین پرعورتوں اور نوجوانوں سے معافی مانگنا چاہیے۔ معافی تو انھیں تمام شہریوں سے مانگنی چاہیے جنھیں انھوں نے بے ایمان کہا ہے۔ تاہم اس بے ایما ن قوم کاوزیرِاعظم ایک ایماندار شخص ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments