کیا آپ کی زندگی میں کوئی گاڈ فادر ہے؟


” آہ۔ زندگی بھی کتنی عجیب ہے۔ اور ہم انسان، اُس سے بھی عجیب۔“
ہم سب نے اس قسم کے ”فجائیہ جملے“ اکثر سُنے ہوں گے۔ ایسے جملے جن میں خوشی، غمی، حیرانی یا افسوس کا اظہار پایا جاتا ہے۔ لیکن جب مفہوم دریافت کیا جائے تو کوئی با ضابطہ کوائف نہیں ملتے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ”انسان اور زندگی“ کا شمار رب العزت کی ایسی نعمتوں میں ہوتا ہے کہ اُس کی تعریف کسی بھی عقل فہم کے لیے کرنا ممکن نہیں۔ جہاں انسان ایک پچیدہ مخلوق ہے وہیں زندگی بھی اپنے اندر ایک بہت پُراسراریت سمیٹے ہوئے ہے۔

اس کی مثال اپنی زندگی کے اس راز سے پردہ اُٹھاتے ہوئے دوں گی کہ فیس بُک ہم سب کا دلدادہ، ہماری پسندیدہ کتاب جس کو آج کل کے دور کا ہر انسان پڑھنا چاہتا ہے۔ انگلیاں کسی اور کتاب کے اوراق پلٹیں یا نہ پلٹیں، اُس کی خوشبو سے سیر آب ہوں یا نہ ہوں، اس کتاب پر ہاتھ عموماً چسپاں رہتے ہیں۔ مانا گیا ہے ہر شہ کے فائدے اور نقصان یکجا ہونا لازم و ملزوم ہیں۔ جیسے کسی دوائی کے جہاں فائدے مرتب ہیں وہیں نقصان کی فہرست بھی بہت لمبی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو مریض اس ڈر سے کہ کسی نئے نقص کا مرتکب نہ ہوجائے دوائی کو لینے سے انکاری ہو جاتا ہے جب کہ دوا سازی کی رُو سے فوائد اور نقصانات میں سے ہمیشہ فوائد کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ فیس بُک نے میری زندگی پر کب اور کیسے اثرات پیدا کیے۔ اس میں جہاں سب سے بڑا منفی اثر وقت کا زیاں تھا وہیں مثبت اثر۔ نئی سوچ اور نئے رشتوں نے بھی جنم لیا تھا۔ مجھے نا چاہتے ہوئے بھی اپنا ہر وہ رشتہ یہاں ملا جس نے میری شخصیت کے جغرافیے کو ہی بدل ڈالا۔ میری سوچ کے زاویے، میرے جذبات کی تسکیں، غم اور خوشی سے قربت، حقائق کی پہچان غرض یہ کہ میرے فطری عمل کو بھی ایک نئی سمت دے دی۔ یہ نام نہاد رشتے جو میری جھولی میں آ گر ے تھے اُن رشتوں میں ایک رشتہ ڈاکٹر خالد سہیل صاحب، باپ نما عزیز جس کو میں ”گاڈ فادر“ بھی کہتی تھی مل گیا۔

ڈاکٹر صاحب بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ایسے انسان جنہوں نے نہ صرف میرے اندر کے چھُپے لکھاری کو دریافت کیا بلکہ بقول اُن کے وہ صرف ایک کیٹالسٹ ثابت ہوئے ہیں۔ صاحب سے ملاقات پر مزید ان کی شخصیت کے پرت کھلتے چلے گئے۔ انسان دوست تو تھے ہی شفیق باپ جیسا رویہ بھی رکھتے تھے۔ اُن سے فیض پانے والے کئی شاگرد تھے جن کو وہ باقاعدہ بیٹھک میں سُنتے اور اپنے قیمتی آرا سے مستفید کرتے۔ جہاں کسی میں لکھنے پڑھنے کا شوق دیکھا وہیں اُس کی حوصلہ افزائی کر ڈالی۔

وقت کی اس دوڑ میں جب انسان صرف خود کی بقا کے لیے زندہ ہے، ایک دوسرے کو کسی نہ کسی طرح پیچھے چھوڑنے یا نیچا دکھانے کے حربے ڈھونڈ رہا ہے یہ گاڈ فادر، باپ نما شفقت لیے اپنے گرد و نواح کو چلنا بلکہ بھاگنا سکھا رہا ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان سے بلا شبہ کسی نا کسی صفت میں مختلف ہے اس لیے عقل کے ایک ہی چشمے سے سب کو نہیں دیکھا اور پرکھا جاُسکتا۔ انہیں جاننے اور سمجھنے کے لیے سوچ کے مختلف لینزز کو استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔

اس لیے ایسے انسان کا زندگی میں ہونا کیوں ضروری ہے۔ اب سمجھ میں آیا ہے۔ میرا ماننا یہ بھی ہے کہ ان جیسے کئی لوگ ہمارے ارد گرد ہی موجود ہوتے ہیں جن کو ہم اکثر و بیشتر پہچان نہیں پاتے۔ کچھ ایسے جن کے لیے ہم قابل ستائش ہوتے ہیں اور کوئی جو ہمارے لیے قابل اہم بن جاتے ہیں۔ ساری بات صرف خلوص اور احساس پہ آ کے رُکتی ہے۔ میرے گاڈ فادر، انسان دوست ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی نفسیات کو بخوبی سمجھبے کے شعبے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔

میڈیکل سے لے کر نفسیات اور نفسیات سے لے کر احساسات سبھی پر عبور حاصل ہے۔ اپنے مشاہدوں کو قلم بند کرکے ادب کو مزید رونق بخشتے ہیں۔ خالد صاحب نے اپنے کسی دوست کے کہنے پہ مجھ سے ایک دن رابطہ کرکے مجھے جیسے عزت بخش دی ہو۔ کہنے کو سرسری سا تعارف ہی تھا لیکن کیا معلوم تھا وہ دانشور انسان میری لکھت کا معیار تعین کر رہا تھا۔ اور میری چند تحریروں سے جیسے حتمی فیصلہ سنا دیا ہو۔ ان کے وہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔

” گل صاحبہ! آپ کا ذہن اُس نعمت خانہ کی مانند ہے جس میں ہر چیز میسر ہے گوشت، سبزی، پھل وغیرہ۔ آپ نے فقط یہ سوچنا ہے کہ ریسیپی کیا بنانی ہے۔ کیونکہ اکثر لوگوں کا نعمت خانہ ہی خالی ہوتا ہے۔“ یہ الفاظ میرے لیے کسی داد سے کم نہ تھے۔

میری زندگی کا پہلا شعر میں نے کلاس سوم میں سُنا جو اُن جیسی مخلص شخصیت کے لیے جیسے کہا گیا ہو۔
؀ جو عالی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھُک کے ملتے ہیں
صُراحی سر نگوں ہوکر بھرا کرتی ہے پیمانے

اُس وقت اس شعر کی تشریح تو کیا مطلب بھی واضح نہیں ہوا تھا لیکن پھر یقین ہوا کہ یہ شعر تو کنجی ہے عمر کے دروازے کی۔ کردار کی عمارت کی نیو اسی ظرف کی پہلی اینٹ پہ رکھی جاتی ہے۔ باقی تو

خوش خیالی، آداب، اخلاق اور کردار کے چار ستون وقت کے ساتھ کھڑے ہو ہی جاتے ہیں۔ پھر کیا یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ زندگی میں صدق دل سے چند خیر خواہ لوگوں یا ”گاڈ فادر“ کا ہونا بھی کسی خوش قسمتی سے کم نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments