بل گیٹس: مستقبل کی وباؤں سے کیسے نبردآزما ہونا ہے؟


کرونا تین بڑی طبی پیشرفتوں میں تیزی لائے گا۔ یہ تو محض آغاز ہے۔

جب مورخ کووڈ 19 کی وبا کے بارے میں کتاب لکھے گا توجو ہم پہ اب تک بیتی ہے، یہ اس کہانی کا بمشکل تیسرا حصہ ہوگا، جبکہ کہانی کا بڑا حصہ وبا سے بعد کے اثرات پر مشتمل ہوگا۔

بیشتر یورپ، مشرقی ایشیا اور شمالی امریکہ میں شاید اس مہینے کے آخر تک وبائی مرض کے گراف کی انتہائی سطح گزر چکی ہوگی۔ آئندہ چند ہفتوں میں بہت سارے لوگ یہ امید لگالیں گے کہ صورتحال دسمبر والی سطح پہ آجائے گی۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوگا۔

مجھے امید ہے کہ بالآخر انسانیت جیت جائے گی، لیکن زندگی اس وقت تک معمول پر نہیں آ سکے گی، جب تک آبادی کے ایک بڑے حصے کو ویکسین نہیں لگادی جاتی۔ کیونکہ ان اقدامات کے بغیر اگر حکومت لاک ڈاؤن ختم کردے اور کاروباری مراکز کھل بھی جائیں تو فطری طور پر پھر بھی لوگ خود کو بیماری کے منہ میں دھکیلنا نہیں چاہیں گے۔ ہوائی اڈوں پر زیادہ رش نہیں ہوگا۔ کھیل خالی میدانوں میں کھیلے جائیں گے۔ عالمی معیشت زوال پذیر ہوگی کیونکہ مارکیٹ میں اشیا کی طلب میں کمی رہے گی اور لوگ زیادہ محتاط انداز میں خرچ کریں گے۔

ترقی یافتہ ممالک میں وبائی مرض میں کمی آتی جارہی ہے، لیکن ترقی پذیر ممالک میں مرض کا پھیلاؤ تیز ہوجائے گا۔ تاہم ترقی پذیر ممالک میں ا س وبا کے اچھے اثرات سامنے نہیں آئیں گے۔ غریب ممالک میں سماجی فاصلہ کے اصول پر عمل پیرا ہوکر کام نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے سماجی دوری رکھنے کے اقدامات کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔ ان ممالک میں وائرس تیزی سے پھیل جائے گا اور ان کے صحت کا نظا م متاثرہ افراد کی دیکھ بھال کرنے کا اہل نہ ہوگا۔ بظاہر کووڈ 19 کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ نیویارک ہے، لیکن اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مین ہٹن کے ایک ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے بیڈ افریقہ کے اکثر ممالک سے زیادہ ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں اموات لاکھوں کی تعداد میں ہوں گی۔

دولت مند قومیں اگر اس بات کو یقینی بنائیں کہ اہم رسد صرف زیادہ بولی دینے والے ملک کو نہیں دی جائے گی تو یہ غریب ممالک کی بہت بڑی مدد ہوگی۔ کیونکہ امیر اور غریب ممالک میں لوگ اسی وقت محفوظ رہیں گے جب ان کے پاس اس وائرس کا موثر طبی حل یعنی ویکسین موجود ہوگی۔

مجھے امید ہے کہ 2021 کے آخری حصہ میں دنیا بھر کے ماہرین ویکسین بنا رہے ہوں گے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ ایک تاریخ ساز کامیابی ہوگی، کیونکہ اتنی سرعت رفتاری سے ایک مرض کی تشخیص کرلینے کے بعد انسانیت کو اس سے لاحق خطرے سے بچالیا جائے گا۔

ویکسین بنانے میں اس کامیاب پیش رفت کے علاوہ، اس وبائی بیماری سے دو بڑی کامیابیاں بھی سامنے آئے گی۔ اگلی بار جب کوئی اور نول وائرس نمودار ہوگا تو شاید لوگ گھر ہی پر بالکل اسی طرح آسانی سے جانچ کراسکیں گے جیسے حمل کے ٹیسٹ ہوجاتے ہیں، یعنی ایک سٹک پر پیشاب کرنے کی بجائے، لوگ اس پر اپنے ناک کی رطوبت لگا دیا کریں گے۔ ماہرین ایک نئی بیماری کی تشخیص کے بعد چند مہینوں کے اندر اس قسم کا ٹیسٹ سسٹم بنا سکتے ہیں۔

تیسری پیش رفت اینٹی وائرل دوا کی صورت میں ہوگی۔ یہ سائنس کی وہ شاخ ہے جس میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔ ہم ابھی تک وائرس کے خلاف لڑنے کے لیے اتنی موثر دوا نہیں بنا سکے ہیں جس قدر ہمارے پاس بیکٹیریا سے لڑنے کے لیے ہے۔ لیکن اب صورتحال بدل جائے گی۔ اب ماہرین اینٹی وائرل کی بڑی بڑی اور مختلف اقسام کی لائبریریوں کو تیار کریں گے۔ جن کی بدولت نول وائرسوں کے لیے موثر علاج تلاش کیا جاسکے گا۔

ان تین تکنیکوں کی مدد سے ممکنہ وبائی مرض کو اسی وقت قابو کرلیا جائے گا جب اس نے ابھی بہت کم لوگوں کو متاثر کیاہوگا۔ یہ بنیادی تحقیق نہ صرف متعددی امراض سے لڑنے میں ہمارا ساتھ دے گی، بلکہ کینسر کے علاج میں بھی بہتری لانے میں ہماری مددگارہو گی۔ (سائنسدانوان نے طویل عرصے سے سوچ رکھا ہے کہ ’مورنہ‘ ویکسین کینسر کی حتمی ویکسین ہوسکتی ہے۔ تاہم کووڈ 19 کے سامنے آنے تک اس بارے میں زیادہ تحقیق نہیں ہوسکی ہے کہ اس کو کس حد تک سستی قیمتوں پر تیار کیا جاسکتا ہے۔ )

ہماری ترقی صرف سائنس میں ہی نہیں ہوگی بلکہ یہ بھی ہماری قدرت میں ہوگا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر شخص کو اس سائنس سے فائدہ ہو۔ 2021 کے بعد کے سالوں میں ہم وہ سبق سیکھیں گے جو ہم نے 1945 کے بعد سیکھا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد، راہنماؤں نے مزید تنازعات کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے بنائے۔ کووڈ 19 کے بعد رہنما مستقبل میں وباؤں کی روک تھا م کے لیے ادارے بنائیں گے۔

یہ ادارے قومی، علاقائی اور عالمی تنظیموں کے میلاپ سے جنم لیں گے۔ مجھے توقع ہے کہ وہ باقاعدگی سے ”جرثومہ کھیل“ میں اسی طرح حصہ لیں گے جس طرح مسلح افواج جنگی کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ادارے ہمیں چمگادڑوں یا پرندوں سے انسانوں پر حملہ آور ہونے والے وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے تیار رہیں گے۔ یہ ہمیں اس بات کے لیے بھی تیار رکھیں گے کہ کیا کسی ’بدکردار‘ نے گھر کی لیب میں متعددی بیماری پیدا کی ہے اور اسے بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ وبائی مرض کی اس قسم کی مشق سے دنیا بھر کے ممالک بائیوٹیرایرزم کے کسی بھی عمل کے نتیجے میں اپنا دفاع کرسکیں گے۔

اس مسئلہ کو عالمی سطح پر دیکھیں

میں امید کرتا ہوں کہ دولت مند قومیں ان تیاریوں میں غریبوں کو بھی شامل کریں گی اور خاص طور پر ان کے صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی نظام کی تشکیل کے لیے مزید امداد دیں گے۔ حتی کہ اس موجودہ صورتحال میں انتہائی خود پسند شخص اور حکومت کو بھی اتفاق کرنا چاہیے۔ اس حقیقت کو ہم پسند کریں یا نہ کریں مگر اس وبائی مرض نے ہمیں دکھایا ہے کہ وائرس سرحدی قوانین کی پاسداری نہیں کرتے، اور ہم سب مائیکرو سکوپک جراثیم کے نیٹ ورک کے ذریعہ حیاتیاتی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر کسی غریب ملک میں نوول وائرس ظاہر ہو تو اس کے ڈاکٹر اس قابل ہوں کہ وہ اس کا سدباب کرسکیں، بلکہ جتنی جلدی ہو اسے جڑ سے اکھاڑ دیں۔

تاریخ کسی طے شدہ نصاب کی پیروی نہیں کرتی ہے۔ یہ انتخاب لوگوں نے کرنا ہوتاہے کہ انہوں نے کون سا رخ اختیار کرنا ہے، شاید وہ غلط موڑ مر جائیں۔ 2021 کے بعد کے سال 1945 کے بعد کے سالو ں سے ملتے جلتے ہوسکتے ہیں۔ لیکن شاید آج کے لیے سب سے بہترین مشابہت 10 نومبر 1942 کی ہوسکتی ہے۔ برطانیہ نے ابھی اپنی پہلی زمینی جنگ جیتی تھی اور ونسٹن چرچل نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ ”یہ اختتام نہیں ہے، حتی کہ یہ اختتام کا آغاز بھی نہیں ہے۔ لیکن شاید یہ آغاز کا اختتام ہے۔

بل گیٹس کے مضمون کا لنک

https://www.weforum.org/agenda/2020/04/bill-gates-explains-how-the-world-can-use-science-to-tackle-the-crisis/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments