فردوس کے عشاق کے لئے


میرے ایک عزیز کا گھر فردوس کالونی میں ہے۔ وہ مکان پچاس کی دہائی میں خریدا گیا تھا آج ماشا اللہ اس مکان میں اس خاندان کی تیسری نسل رہ رہی ہے۔ میں بھی اپنے بچپن اور لڑکپن میں کئی مرتبہ وہاں رکا۔ ایک زمانے میں میری اپنی نانی اماں کا گھر بھی فردوس کالونی میں ہی تھا۔ اس لیے مجھے اس علاقے سے ایک عجیب عقیدت ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ علاقہ بھی کراچی کے دیگر علاقوں کی طرح تباہ ہوگیا۔ وہاں کے پرانے رہائشی دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے اور وہاں فلیٹ نما مکانات بن گئے (جن کو کراچی کی بولی میں ’پورشن‘ کہا جاتا ہے ) ۔ فردوس اب فردوس کہاں رہی؟ زمانے بدلتے ہیں۔

خیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے عزیز کے گھر والے بھی ممکن ہے کہ وہ علاقہ چھوڑ کر کراچی کے کسی اور علاقے کا قصد کریں۔ مگر میری عقیدت فردوس کے ساتھ قائم رہے گی۔ وجہ یہ کے میں بچپن میں وہاں جایا کرتا تھا اور تب کی یادیں میرے ذہن میں زندہ ہیں۔ یادیں انسان کا بہت حسین سرمایہ ہوتی ہیں۔ یادیں ہی انسان کے دکھوں کا ماخذ بھی ہوتی ہیں۔ کیا چیز ہیں یادیں بھی؟ یادیں نہ ہوں تو انسان گجنی فلم کا سنجے سنگھانیا ہی بن جائے۔

نجانے کس کا شعر ہے مگر ہے بہت خوبصورت،
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
یعنی
اگر جنت زمیں پر کہیں ہے
یہیں ہے، یہیں ہے، یہیں ہے!

بہت سے انسانوں کا نام فردوس نہیں ہونا چاہیے۔ ان پر موزوں نہیں لگتا۔ اسی طرح اوپر مذکور شعر فردوس کالونی کے لئے کبھی بھی موزوں نہیں۔ بلکہ کراچی میں کوئی بھی جگہ اس شعر کا وزن نہیں اٹھا سکتی۔ ہاں ہمارے ملک کے شمالی علاقہ جات فطری حسن سے مالامال ہیں۔ وہاں کے لئے یہ شعر موزوں ہے۔ ہمارے ملک کے ان شمالی علاقہ جات سے قریب ہی ہمارے ملک کی راجدھانی ہے۔ یہ راجدھانی، یا دار الخلافہ، یا وفاق جو بھی کچھ کہیے صدر ایوب کے زمین پر اپنی جنت بنانے کی خواہش کا مظہر ہے۔

صدر ایوب کو اپنے گاؤں کو ملک کا وفاقی دارالحکومت بنانے کی سوجھی۔ کہا جاتا ہے کہ تب شدّاد نے اپنی جنت اس خیال سے بسائی تھی کہ ہمارے ملک کی ایوبی سلطنت کا پایہ تخت ہوگا اور یہ شہر دنیا میں صرف اسلام آباد ہی نہیں بلکہ ایوب کے شہر کے نام سے بھی منسوب ہوگا۔ آخر شاہ قسطنطین کے نام پر آج تک استنبول قسطنطنیہ کہلاتا ہے تو ایوب کے نام سے ایک شہر کیوں نہیں؟

کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد کی مٹی ایوب کو راس نہیں آئی۔ اسلام آباد کی راولپنڈی سے قربت بھی ایوب کی ڈوبتی کشتی کو بچا نہ سکی۔ پھر کئی لوگوں نے ایوب کی راجدھانی پر راج کیا۔ مگر کسی حاکم کو یہ شہر را س ہی نہیں آیا۔ حاکم تو خیر حاکم ہیں ان کے چمچوں اور کفگیروں کے بھی بھاگ ہمیشہ کے لئے اس شہر میں مشکل سے ہی کھلتے ہیں۔ آج ایک چمچہ حاکم کی رکابی میں سالن کی تری نکال رہا ہے اور کل دوسرا چمچہ۔ مگر کچھ چمچیاں کافی مستقل ہوتی ہیں۔

لوگ ان چمچیوں کی قسمت پر رشک کرنے لگتے ہیں۔ ارے ان کی کیا خاص بات ہے؟ یہ کس ملک کی کرنسی ہیں؟ ایسی کرنسی جو دنیا میں ہرجگہ چل جاتی ہے وہ تو ہے ’بٹ کوائن‘ یا ’کرپٹو کرنسی‘ مگر اسے انسانوں کو کیا کہئے کہ وہ انتخابات میں جیت گئے تو وزیر، ہار گئے تو مشیر۔ یعنی چت بھی ان کی اور پٹ بھی انکی۔ ایسے لوگوں کو اسلام آباد کی ناہموار زمین راس آجاتی ہے۔ ہاں پانی راولپنڈی کا ہوتا ہے۔ مگر جب ان چمچیوں کو اچانک کٹلری سیٹ سے نکالا جاتا ہے تو حیرت بھی ہوتی ہے اور ناچنے کا بھی دل چاہتا ہے۔ مگر نئی کٹلری دیکھ کر زبان تالو سے چپک جاتی ہے۔

آخر میں ایک چھوٹی سی کہانی۔ کہانی کیا ہے، ایک بھارتی فلم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ فلم کا نام ہے ہنگامہ۔ فلم میں ایک کروڑ پتی سیٹھ رادھے شیام تیواڑی (پاریش راول) گاؤں میں رہتے ہیں اور اپنی شہر کی وسیع و عریض کوٹھی ایک نوکر کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھی ہے۔ نوکر اس کوٹھی میں نواب بنا گھومتا ہے۔ مالک کی قیمتی شراب پیتا ہے، مہنگے ڈریسنگ گاؤن اپنے جسم پر چڑھا، مالک کا پائپ منہ میں دبا کر بڑی شان سے مہنگے تمباکو کے کش لگا کر لوگوں سے ملتا ہے۔

مالک کی تقریباً ہمیشہ ہی غیر حاضری سے اس کی ہمت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس مکان میں ایک انجان شخص کو کرائے دار بھی بنالیتا ہے اور اس انجان شخص کو اس بات سے بھی منع نہیں کرتا کہ وہ خود کو اس کوٹھی کے اصل مالک رادھے شیام تیواری کا بیٹا لوگوں پر ظاہر کرے۔ ایسے میں اچانک رادھے شیام تیواری اپنی بیگم انجلی کے ساتھ کوٹھی میں وارد ہوجاتے ہیں۔ بیچارہ منہ چڑھا نوکر جس کو ابھی تک یہ کوٹھی راس تھی، وہ سمجھتا ہے کہ مالک مالکن تو کچھ دن کے لئے ہی آئے ہوں گے۔ مگر پھر اسے خبر ہوتی ہے کہ اب مالک خود ہی اپنی کوٹھی میں رہیں گے۔ یعنی اب اسے یہ کوٹھی راس نہیں رہی۔ بیچارہ نوکر آسمان کی طرف دیکھ کر بہت کرب سے کہتا ہے ”ہے بھگوان، میرے پیٹ پر بڑی لات مارنے کے لئے کتنا بڑا پیر اٹھایا تم نے!“

مستقل کٹلری بھی بعض اوقات بدل جایا کرتی ہے۔ اسلام آباد کفگیروں اور چمچے چمچیوں کو بھی ابد تک کے لئے راس نہیں آتا۔ مالک خود ہی کوٹھی میں رہیں گے تو نوکر مالک کے قیمتی ڈریسنگ گاؤن پہن کر منہ میں قیمتی پائپ دبا کر، قیمتی تمباکو پھونک کر، اکڑ کر نہیں چل سکیں گے۔ اب یہ سب کام مالک خود ہی کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments