مابعد وبا۔ کشف صدا


یوں تو وبائیں ہر دور میں ہی انسانی زندگیوں کے ساتھ ساتھ مختلف شکلوں میں حملہ آور ہوتی رہیں ہیں، سو ان کو ماحول کے مطابق دیکھا، سمجھا اور treat کیا گیا ؛ مگر کروناوائرس وبا کا سب سے مختلف پہلو یہ ہے کہ اس نے آج کی اس گلوبل دنیا کو یکساں انداز (uniform) میں دنیا کے 192 ممالک میں پھیل کر گلوبل ولیج کے مصدر اطلاق کا ثبوت پیش کیا ہے۔ اب اگر مجموعی زمینی ماحول کا احاطہ کریں تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ جیسے جیسے بڑی انواع میں ان کے ظاہری (phenotype ) اور باطنی (genotype ) میں دیلیاں آئی ہیں اسی طرح تمام دیگر بڑی چھوٹی جان وبے جان کے جسمانی اور عملی رویوں میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

جیسا کہ بیسویں صدی 1918۔ 19 میں ہسپانوی فلُو پھیلا تو اس کے پورے چالیس برس کے بعد 1958۔ 59 میں ایشیائی فلُو کی و با پھیلی اور پھر چالیس ہی برسوں بعد 2009 میں ہانگ کانگ فلُو کی و با اور پھر تو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایبولہ، سوائین اور دیگر فلُو کی وباوؤں کی لپیٹ میں انسان رہا۔ چنانچہ آج کے عالمگیری دور میں وباؤوں نے بھی اپنے محسوسات اور عمل کے دائرے بدل لئے ہیں یعنی عددی پیمانے ڈیجیٹل ہونے لگے ہیں ؛ وباؤں کے زمانوں کے پھیلنے کے انداز اور رفتار بھی ڈیجیٹل رفتار سے بڑھ رہی ہے ؛ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ mutant virus کی اقسام کی شکلیں سامنے آگئی ہیں۔

یہ چالاک وائرس ملکوں، براعظموں اور تمام حدوں کو پار کرتا ہوا انسانیت کے تمام کوٹھے ٹاپتا ہوا کونے کونے میں پہنچ گیا ہے۔ اس ضمنی جاندار کے پاس تو ”ڈی این اے“ بھی نہیں بس ایک MRNA ہے سو artificial intelligence کے زمانے میں آنکھ کھولنے والا یہ کرونا ہماری مادی آرزوؤں اور خواہشوں سے آشنا ہو چکا ہے۔ اس نے بخوبی بھا نپ لیا ہے کہ حضرت انسان کو گل عندلیب، گل اشرفی، گل لالہ، ہار سنگھار یا بیلاموتیا سے کوئی سروکار نہیں، ان کو تو بس برانڈیڈ اور مادی حوالوں کی پہچان باقی رہ گئی ہے۔

ان کی خواہشات میں دلوں کو جیتنا نہیں صارفی رویوں میں دم لینے والی نسلوں کو احساسات اور جذبوں کو بھی خریدنا اور بیچنا آتا ہے۔ بس AI کے دور کے انسان کا نفسیاتی جائزہ لیں تو اس میں ہر موقع پر اشیا ہمارے دروازے پر موجود ہونے کے تمام امکانات پیدا ہو چکے تھے ؛ مگر ”ہم“ تو بھوکے پیاسے بیھڑیوں کی مانند شاپنگ سے علاج معالجہ کرتے، خوشیاں سمیٹتے اور بانٹتے، بڑے بڑے گھروں کو بنوا کر ان میں رہنے کی بجائے ان کو سجا کر ان کو کہیں اندر بند کر لینا چاہتے تھے۔

کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا
اے گردش دوران بھول گئے

زندگی کی مدھم سرسراہٹ کو محسوس کرنے کی صلاحیت کھو چکے تھے، بس بھگدڑ میں دونوں ہاتھوں میں سامان زندگی اٹھائے پھرنے والے انسان کا کسی طرح بھی پیٹ نہیں بھر رہا تھا، بے چارا بھوکا انسان، بھوک کی لوبھ کو بھی کھو بیٹھا تھا۔ دراصل بھوک غریب کی آواز نہیں انسان کا جبلی حق ہے مگر اس کو بھرنے کے لئے اشیاء نہیں ان کو محسوس کرنا اہم ہے۔

لکھاری جذبوں سے بھرے الفاظ لکھتے وقت محسوس کرتے ہیں جیسے وہ سب ان کی گرفت میں ہے جو ان کے تجربے اور مشاہدے میں ہے، قدرت کے نمونوں کو مصور صرف پینٹ نہیں کرتا بلکہ عکس در عکس تمام مظاہر قدرت اور دنیا میں پائے جانے والی نعمتوں کی ملکیت کے احساس کو محسوس کرتا ہے، محفوظ کرتا ہے۔ پس اگر انسان کو الو کے ”اؤ آؤ“ ، بطخے کی ”غٹرغوں، غٹرغوں“ کو ۂل کی کوک اور ہد ہد کی ”کو کو“ سنائی نا دے تو سمجھیں کہ بہت سا قدرتی substances صارفی دنیا کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔

ہم ایک سانس سے سینکڑوں بلبلے بنا سکتے ہیں ؛مگر ایک بلبلے کی جھلی کے ادنی حصے کی جسامت والے نینو ذرے والے وائرس نے پوری دنیا کو ”لاک ڈاؤن“ کر دیا ہے۔ انسان نے دشمنوں کے لئے ہتھیار وں کو بنایا اور مارکیٹوں میں خوب بیچا، دنیا کے ہر شے کو commodities بنا کر منڈی میں لے آئے۔ حتی کہ خدا کو عبادت گاہوں میں، ان سے باہر یا کسی نا کسی رنگ میں بیچا۔

تہذیبیں بدلتی رہیں ؛ ہر دور میں وباوؤں نے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ آج بھی بنی نوع انسان کا دشمن کرونا وائرس جیسا دہشت گرد ہے ؛ اس سے بچنے کا واحد حلُ ”لاک ڈاؤن“ یعنی ”دستور الگ تھلگ“ ہے اور یہ دستور ہی اس وبا کو پھیلانے میں کمزوری لا سکتا ہے۔ یعنی ہم زندگی کی تجربہ گاہ سے نکل کر اپنے بے حد قریبی ماحول میں سمٹ جائیں تو وقت سے پہلے وقت کے آجانے کا خوف اور اندیشہ ٹل سکتا ہے۔ موت مقدر ہے ؛ کیا موت کا خوف اندر بیٹھے انسان کو بھی ویسا ہی ہے جو اسے باہر کے زمانے میں تھا؟

موجودہ حالت میں انسان کو موت کا خوف نہیں بلکہ روح کے اندر یہ خوف پیدا ہو جاتا ہے ؛ کہ ہم کیا آئینے میں اپنا عکس ہی دیکھ رہے ہیں اس میں مادی خواہشوں کی ملاوٹ کی واضح خوشبو مہکنے لگتی ہے، مگر سونگھنے والا، دیکھنے والا تعریف والے کی عدمُ موجودگی سے ایک دن میں بار ہا مرتا ہے۔ صارفی دنیا میں غریب ہونے کا خوف انسان کو اصل زندگی کی لطافتوں سے دور کر دیتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس وبا سے بچنے کے بعد بھی اگر معاشی بدحالی کا گراف اوپر جانے کے خوف میں مبتلا ہو جایئں گے تو پھر یہ ہمارا دشمن اور اس طرح کے بے شمار ان دیکھے دہشت گرد ہ کسی وقت بھی ہمیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔ تاریخی حوالوں کی روشنی میں نظر آتا ہے کہ 2050 میں اگر یہ یا اس کی mutant اقسام حملہ آور ہو ں تو ہم اس صورتحال کو کیسے treat کریں گے۔ انسانی نفسیات ہے کہ وہ برے وقت کو جلد ہی فراموش کر دیتا ہے اور مستقبل کے روشن خوابوں اور آرزوؤں کی تکمیل میں مگن ہو جاتا ہے۔

مگر ہمیں اپنے اخلاقی رویوں میں سچ، ماحول کو میرا نہیں، ہمارا ماحول سمجھنا اور مادی جز سے زیادہ انسانی حوالہ روحانی سمجھیں تو وائرس یا کسی بھی حملہ آور کو ہماری روحانی essence تک پہنچ نہیں ہو گی۔ اس پیرا ڈیکس میں انسان مادی حوالوں سے باہر روحانی رابطوں یوں جڑیں گے جیسے ایک آرٹسٹ کا تعلق قدرت سے اس کے جمالی حوالوں سے بنتا ہے جو اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ وہ اس کو دسترس میں رکھے یا نا رکھے مگر اپنی صلاحیتوں کے باعث ”عکس“ بنا کر اسے حاصل کر لیتا پے۔

یوں اس کے پیٹ کا دوزخ اس روحانی essence سے بھر جاتا ہے، سو ایسے میں انسان بھوک کے ذائقے کو بھی دوسرے تمام میٹھے، کھٹے ذائقوں کی مانند محسوس کرنے لگتا ہے۔ علاوہ ازیں ہم صرف وبا کے زمانوں میں ہی حکومتوں کے حکم پر لاک ڈاوؤنُ میں نا جائیں بلکہ عام حالات میں بھی کبھی کبھی اپنے اندر جھانک کر محسوسات کی دنیا میں چلے جایا کریں۔ کیونکہ خدا کو بھی ہمارے گناہوں کو کشف سے دھونا پڑتا ہے۔

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments