کیا آپ کو رات کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں؟


صائمہ ملک کا خط

سلام اے شفیق دوست!

اس سے بہتر مخاطب ہونے کا سلیقہ نہیں۔ آپ کی شفقت اور مہربانیاں ہمہ وقت میرے ساتھ رہتی ہیں۔ دو دن قبل میں نے آپ کو مدد کے لیے پکارا تھا کہ میں ذہنی انتشار کا شکار ہو رہی ہوں۔ آپ نے تفصیل پوچھی تھی، میں بتا نہیں پائی کیونکہ ہر آن میری ذہنی اور قلبی حالت بدل رہی تھی۔ آج خود کو سمیٹ کر آپ کو خط لکھ رہی ہوں

میں نے بڑی محنت کر کے اپنا کربناک ماضی بھلا دیا تھا لوگ تو کہتے ہیں کہ برا خواب سمجھ کر بھول جاؤ مگر میں نے تو یہ سب کیا۔ سب کچھ حقیقتاً بھول گئی اور زندگی سے تیس برس نفی کر ڈالے۔ انہیں کہیں بہت پیچھے اپنی تمام خوبصورتیوں اور بدصورتیوں سمیت چھوڑ کر آگے بڑھ گئی مگر ایکا ایکی ایک خواب بلکہ ایک برے خواب نے مجھے آخرکار نیند میں دبوچ لیا خواب آپ کو سناتی ہوں مجھے اس خواب نے وہ تیس برس یاد دلا دیے ہیں اور اب میری اذیت بڑھتی جا رہی ہے میں رنگوں اور موسیقی میں پناہ ڈھونڈتی ہوں مگر مل نہیں رہی میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے

میں خواب میں دیکھتی ہوں کہ مجھے میرے سسرال کے خاندان نے سزائے موت سنا دی ہے اور مجھے اونچے لمبے قد والے مرد اپنی کریہ مسکراہٹ اور بھیانک قہقہوں کے ساتھ مرگھٹ تک لے جا رہے ہیں مجھے ایک کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے اور میرے اردگرد وہی تمام لوگ مختلف آراء قائم کرتے ہوئے تلوار تیز کر رہے ہیں کہ میری گردن اڑا دی جائے جو تکلیف میں ان کے چہروں کو ہی خواب میں دیکھ کر محسوس کرتی ہوں وہ عین وہی تکلیف ہے جو میں نے آج سے آٹھ سال پہلے 2012 میں محسوس کی تھی جب مجھے میرے ہی سسرال کے خاندان نے جج کرنا شروع کیا تھا اس ججمنٹ میں جو تکلیف میں نے سہی وہی تکلیف اس خواب میں تھی۔ ان کے چہروں پر وہی کمینی ہنسی تھی کہ ہم جانتے سب حقیقت ہیں مگر سزا صرف تمہیں ہی ملے گی۔ ہم بات کی تہہ تک پہنچے ہوئے ہیں لیکن ہم اپنی طاقت کے بل بوتے پر تمہیں سزا دیں گے۔ ہم تمہیں ہی ختم کریں گے۔ ان کے چہروں پر ان کی آوازوں میں ان کی باتوں میں ان کی ہر اک ادا میں ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ میں سب میں یہی کچھ تھا۔

تین بار میرے اوپر تلوار سونتتے ہیں اور میں موت کے اس کرب کو محسوس کرتی ہوں کہ اس تلوار کی دھار کتنی تکلیف کے ساتھ میری گردن کاٹے گی۔ میں ہر بار آنکھیں بند کرتی ہوں اور خود کو اس تکلیف کے لئے تیار کرتی ہوں جو جسمانی ہے لیکن ہر بار وہ تلوار میری گردن پر رکھ کر پیچھے کر لیتے ہیں اور میری آنکھیں کھل جاتی ہیں میں آنکھیں کھولتی ہوں تو میں اپنے اردگرد پھر سے وہی مکروہ منظر دیکھتی ہوں کہ ایک بے بس لاچار عورت کو صرف خاندانی رعونت اور خاندانی فرعونیت کی خاطر آواز بند کرنے کو کہا جا رہا ہے، جس پر آوازیں کسے جا رہے ہیں اور جسے بد نام کیا جا چکا ہے اور اب اس کی بدنامی کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں۔ تیسری بار جب میری گردن پر تلوار رکھی جاتی ہے تو اس وقت میں گھبرا کے کہتی ہوں کہ

تم لوگ مجھے مارنا نہیں چاہتے ہو
تم لوگ میری زندگی ختم کرنا نہیں چاہتے ہو
تم لوگ صرف مجھے ڈرا کر میری زبان بند کرنا چاہتے ہو

یہ کہہ کر میں آرام سے ان کے ہاتھ کو پیچھے دھکیل کر میں اس کرسی سے اٹھ جاتی ہوں اور میں انتہائی خوف کے عالم میں باہر کی طرف بھاگتی ہوں یہ بالکل ویسا ہی منظر تھا جیسا کہ حقیقت میں میری آٹھ سال پہلے کردارکشی کی گئی تھی اور اس میں جو الفاظ، جو تانے بانے اور جو طریقہ کار اپنایا گیا تھا مجھے ذلیل اور رسوا کرنے کے لئے اور میری ہمت توڑنے کے لئے وہ سب میں نے دوبارہ سے دیکھا جس کو میں بھول چکی تھی اور میں انہیں لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی شروع کر چکی تھی۔ مجھے اب ان سے ڈر نہیں لگتا تھا لیکن اس خواب نے مجھے ایک ڈر میں دھکیل دیا ہے اور میں جب صبح اٹھی تو میں اس قدر گھبرائی ہوئی تھی اس قدر خوفزدہ تھی کہ ابھی تک کچھ کہتے کچھ لکھتے میں کانپتی ہوں۔

کہتے ہیں نہ جس تن لاگے سو تن جانے

آپ نے یہ منظر دیکھے ہوں گے فلموں میں کہ کس طرح سے victim کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے اور اس کی ذات کی اس کی سوچ کی اور اس کے کردار کی کی دھجیاں بھری عدالت میں اڑائی جاتی ہیں اور وہی victim ہی withdraw کرلیتا ہے کہ وہ اور سہ نہیں پاتا میں تو سب سہ کے سر بلند ہو کے ایک دفعہ نکل آئی تھی اور میں خود کے ساتھ پیار کرنے لگ گئی تھی کہ میں نے بہت بہادری کا کام کیا کہ میں نکل آئی لیکن پھر مجھے یہ میری سوچیں جو ہیں پھر مجھے یہ میرا خواب جو ہے یہ کہاں پھر سے مجھے لے کر پہنچ گیا وہاں۔

ماضی کی بدصورتی کبھی اس قدر ڈراتی ہے کہ میں کسی باکس میں چھپ جانا چاہتی ہوں بالخصوص اپنے بھائی اور بیٹے سے ڈرنے لگ گئی ہوں ملتان میں گرمی آ چکی ہے مگر خوف کی شدت سے خود کو بڑی چادر میں چھپا لیتی ہوں دوستوں سے بات چیت قریب قریب ختم کر چکی ہوں گھر کی دیواریں آنکھیں بن جاتی ہیں فرنیچر تک سوال پوچھتا ہے مجھے کسی پرانے کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے میں سوائے اپنی بیٹیوں کے کسی کو اپنا چہرہ تک دکھانے کو تیار نہیں میں نہیں جانتی کہ میں کیوں ڈور بیل کی آواز سن کر کانپنے لگتی ہوں۔

آج نو برس پرانا ایک دوپٹہ نکالا جو میں اکثر پہنتی ہوں مگر جذبات میں کسی قسم کی کوئی ہلچل نہیں ہوتی تھی مگر آج اس دوپٹے سے وابستہ سب کچھ یاد آیا جو بے حد حسین تھا اور میرے چہرے پر آٹھ دن بعد مسکراہٹ پھیل گئی ہمت کرکے باقی پرانے بند سامان کو کھولا تو ہر الماری اور بکسے سے یادیں نکل آئیں اور یادوں میں درد تھا اور مرہم بھی۔ میں دیر تک اپنا چہرہ آئینے میں دیکھتی رہی میرے تاثرات بالکل بدلے ہوئے تھے کچھ انجان سا لگا اپنا آپ پچھلے آٹھ سالوں والی صائمہ مجھے نظر نہیں آئی جو صائمہ مجھے آئینے میں دکھائی دے رہی تھی وہ بالکل الگ تھلگ تھی جس کو میں خود سمجھ نہیں پا رہی۔

عزیز ڈاکٹر صاحب!

کیا وہ مشقت جو خود کو آگے بڑھانے میں کی تھی میں نے وہ غارت گئی یا صرف ایک بھیانک خواب برسوں کی محنت سے دوبارہ اٹھی صائمہ کو پھر سے گرا رہا ہے اگر ایسا ہوا تو اب کی بار میں اٹھ نہیں پاؤں گی کیا انسان اتنا ہی کمزور ہے کہ یوں ٹھہر جائے پہلے تو بقا کی جنگ تھی میرے بچوں کے لئے خود کے لیے اب تو نہ وہ حالات ہیں اور نہ ہی کوئی مدمقابل کہ جس سے بچنا ہو اب تو صرف خیالات کی تیز آندھی ہے جو میرے دماغ میں گولے کی مانند جلتی ہے اور مجھے اس میں اپنی ہڈیاں تک چٹختی ہوئی محسوس ہوتی ہیں میرے اعصاب شل ہو جاتے ہیں میں گھبراہٹ کا شکار ہوجاتی ہوں میں اپنے ہی خوف کے سیاہ دائروں میں مقید ہو رہی ہوں مجھے ایک سوال کرنا ہے کہ کیا انسانی ذہن اتنا طاقتور ہے کہ کبھی بھی کچھ بھی انسان کے روبرو رکھ دے اور انسان اپنے ہی دماغ کو ہمیشہ کے لئے مہمیز نہ کر سکے۔

***            ***

ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

محترمہ صائمہ ملک صاحبہ!

یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ آپ نے مشکل وقت میں مجھے یاد فرمایا اور اپنا خواب لکھ کر بھیجا تا کہ میرے جواب سے نہ صرف آپ کو کچھ مدد ملے بلکہ ’ہم سب‘ کے دیگر قارئین بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔

آپ نے جو ڈراؤنا خواب دیکھا ایسے خواب ان لوگوں کے لیے غیر معمولی نہیں جو اپنا ماضی میں تلخ واقعات اور حادثات سے گزرے ہوں۔ ہم نفسیات کی زبان میں اسے PTSD) POST TRAUMATIC STRESS DISORDER) کہتے ہیں۔ ایسے ڈراؤنے خوابوں سے انسان اپنے لاشعوری مسائل کا حل تلاش کرتا ہے۔

ایک وہ زمانہ تھا جب ماہرینِ نفسیات یہ سمجھتے تھے کہ پی ٹی ایس ڈی صرف ان فوجیوں کو ہوتا ہے جو جنگ میں خون میں لتھڑی لاشیں دیکھ کر آتے ہیں۔ امریکہ میں ہزاروں لاکھوں ایسے فوجی آج بھی موجود ہیں جو ویت نام اور عراق کی جنگوں سے لوٹے ہیں اور نفسیاتی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں۔

لیکن پھر ماہرینِ نفسیات کو اندازہ ہوا کہ ملک میں جنگ میں زخمی ہونے والے مردوں کے ساتھ ساتھ نجانے کتنی ایسی عورتیں بھی موجود ہیں جو ڈراؤنے خواب دیکھتی ہیں کیونکہ وہ گھر کی جنگ ’خاندان کی جنگ اور سسرال کی جنگ میں زخمی ہوئی ہیں۔ یہ خانہ جنگی کی نئی قسم ہے جو سیاسی نہیں جذباتی جنگ ہے۔ وہ مرد اور عورتیں جو پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہوتے ہیں انہیں ماہرینِ نفسیات مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے خواب لکھیں اور انہیں کسی دوست اور کسی ہمدرد سے شیر کریں تا کہ ان کا حوصلہ بڑھے ان کی ہمت بندھے۔ ایسا کرنے سے ان کی صحت بہتر ہوتی ہے اور ان کے دلوں میں امید کی لو جلتی ہے۔

آپ اس کیفیت سے کافی حد تک باہر نکل آئی ہیں۔ آپ کے نفسیاتی زخم کافی حد تک مندمل ہو چکے ہیں۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اپنے قلم کو اپنی مسیحائی کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

آپ ایسے خوابوں سے بالکل نہ گھبرائیں۔ یہ کبھی کبھار آتے رہیں گے کیونکہ ایسے واقعات اور حادثات سے نکل کر پوری طرح صحت مند ہونا ایک طویل اور جانگسل سفر ہے۔ آپ اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ نے healingکا کتنا طویل سفر طے کر رکھا ہے۔ مستقبل میں آپ کی یہ اضطراری کیفیت عارضی ہوگی اور آپ جلد ایسی کیفیت سے نکل آیا کریں گی۔

آپ کو اس بات کی خوشی ہونی چاہیے کہ آپ اپنے تجربے ’مشاہدے اور اپنے قلم سے بہت سی لڑکیوں اور عورتوں کی مدد کر سکتی ہیں تا کہ اگر وہ اپنے آپ کو ایسے رشتوں میں پائیں جہاں ان کا جسم ان کی روح اور ان کی عزتِ نفس کو خطرہ ہو تو وہ جلد از جلد اس سے باہر نکلیں اور کسی ایسے ہمدرد‘ دوست ’رشتہ دار یا ایسے ادارے سے مدد مانگیں جو انہیں اس خطرناک ماحول سے باہر نکال کر کسی محفوظ مقام تک پہنچائیں۔

معصوم بچیوں اور عورتوں کی حفاظت اور ان کے لیے ایک پرسکون اور باعزت ماحول مہیا کرنا ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔

میری دلی دعا ہے کہ آپ لکھتی رہیں اور جہالت کی تاریکیوں میں اپنے تجربے اور آگہی کی شمعیں جلاتی رہیں تا کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کی عزت اور احترام کا ماحول استوار ہو اور وہ بھی مردوں کے برابر حقوق اور مراعات حاصل کر سکیں۔

یہ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ آپ نے مشکل وقت میں مجھے یاد رکھا۔
دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست

در پریشاں حالی و درماندگی

آپ کا ادبی دوست، خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments