اجتماعی قربتوں سے دوری کا نیا فلسفہ



ناسمجھ بیمار کو اَمْرَت بھی زَہر آمیز ہے
سچ یہی ہے سو دَوا کی اِک دوا پرہیز ہے

پرہیز علاج سے بہتر قرار دیا جاتا ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی و لاپرواہی کے نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، اٹلی، فرانس، جرمنی، اسپین نے تمام تردستیاب وسائل کے باوجود بے احتیاطی کی اور کرونا کو سنجیدہ نہیں لیا، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہزاروں افراد ہلاک و لاکھوں بیمار ہوئے۔ لاک ڈاؤن کرتے کرتے کرونا تباہ کاریوں نے معمولات زندگی و معیشت پر گہرا اثر ڈالا۔ دوسری جانب جن ممالک نے احتیاط کی، وہاں بھی کرونا کی حشر سامانیاں عروج پر رہیں، اس وقت سب سے موثر لاک ڈاؤن عرب ممالک کا دیکھنے میں آیا، جہاں قانون پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے، ان ممالک میں بسنے والے افراد بھی قانون کے لمبے ہاتھوں کی گرفت سے بخوبی آگاہ ہیں اس لئے قانون توڑنے و لاپرواہی کی کوئی گنجائش نہیں۔ مریضوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں لیکن معیشت کو سخت دھچکا ضرور لگا۔ اس کے اثرات سے کتنے عرصے میں نکلنا ممکن ہوگا، اس سے سب لاعلم ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ کرونا سے بچاؤ کے تین طریقے ہیں، پہلا طریقہ یہ کہ ویکسین تیار کرلی جائے، لیکن ویکسین کی تیاری میں جنگی بنیادوں پر کام ہونے کے باوجود، کامیابی کے آثار نہیں، ویکسین اگر تیار ہوبھی جائے تو اس کو بنانے اور اس کو فراہم کرنے میں کئی مشکل ترین معاملات درپیش ہوں گے۔ دوسرا طریقہ یہ بتایا جاتا ہے کہ لاک ڈاؤن، سماجی فاصلے سے کرونا کو پھیلنے سے روکا جائے۔ لیکن لاک ڈاؤن کے تاخیری فیصلوں کے باعث کرونا کو محدود نہیں کیا جاسکا۔

لاک ڈاؤن اور کرفیو کے ساتھ طویل سماجی زندگی بہت دَقت طلب و تکلیف دہ عمل ہے۔ تیسرا طریقہ جو بتایا گیا کہ کرونا کے ساتھ جینے کی عادت ڈال دیں اور سب کچھ ”قسمت“ پر چھوڑ دیں۔ یہ بہت خطرناک طریقہ ہے، جس کو اپنایا نہیں جاسکتا، اسی طرح کوئی ریاست بھی اپنی عوام کو کرونا کے ساتھ موت کے کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتی، کرونا وبا سے متاثرین اور ہلاک ہونے والوں سے زیادہ سماجی دباؤ کورنٹائن جیسی زندگی کا بسر کرنا ہے۔ جیسے کسی آزاد پنچھی کے ہاتھ پیر باندھ کر کھلے میدان میں چھوڑ دیا جائے کہ وہ ”آزاد“ ہے۔

کرونا نے سب سے زیادہ نقصان کروڑوں انسانوں کو سماجی زندگی کی تبدیلی کی صورت میں دیا ہے۔ انسان رضاکارانہ اس نئی تبدیلی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ لاک ڈاؤن اور کرفیو لگانے کا جواز یہی بنا کہ انسان سماجی فاصلوں کے نئے ورلڈ آرڈر کو تسلیم نہیں کررہا، اس لئے علاج و احتیاط کے نام پر قدغن لگانا ضروری ہوگیا۔ یہا ں انسان کوسیر و سیاحت سے ہی نہیں، بلکہ کاروباری زندگی کے ساتھ اپنے مذہب پر آزادنہ عبادات سے بھی روک دیا گیا کہ گھروں تک محدود رہیں جو کرنا اپنے، اپنے گھروں میں ہی کریں۔

یہ ایک ایسی جیل ہے جہاں سب کچھ آپ کے پاس ہو، لیکن ایک قیدی کی طرح وقت بسر کررہے ہوں۔ یہاں سماجی فاصلوں کے خلاف احتجاج کی تحریک نے انفرادی و اجتماعی صورت میں جنم لیا، امریکا، جرمنی میں لاک ڈاؤن ختم کرنے کے لئے احتجاج کیے گئے، فرانس، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہو، اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نئی صورتحال میں نمٹنے میں دشواریوں کا سامنا ہے کیونکہ یہ سماجی احتیاط کے احکامات کے خلاف معاشرتی بغاوت کی صورت میں ابھری فرسٹریشن نے معاشرتی نظام کی ہیت کو تبدیل کردیاہے۔

جن ممالک میں کرفیو وسخت لاک ڈاؤن رہا، وہ انسان کو جبراً اسیر کرنے کا ایک طریقہ بنا، کیونکہ ریاست کے پاس کوئی ایسی حکمت عملی نہیں تھی کہ رضاکارانہ طور پر سماجی فاصلوں اور عملی رابطوں سے گریز پر آمادہ کیا جاتا۔ لاک ڈاؤن و کرفیو کا نفاذ اسی وجہ سے ہوا، کیونکہ رضاکارانہ طور پر کسی بھی مملکت کی عوام خود کو قرنطینہ نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن علاج کے نام پر پرہیز کی دلیل کے تحت پابند کیا گیا، کیونکہ علاج کی کوئی دوسری صورت موجود ہی نہیں۔

مذہب و انسان کا رشتہ صدیوں سے جڑا ہوا ہے۔ مذہب انسانوں کے گروہوں کو ایک ایسے معاشرتی نظام میں جوڑنے کا نام ہے، جہاں وہ اپنے عقائد کے مطابق انسانی رشتوں میں بندھے، بکھرے انسانوں کو آپس میں قریب لائے اور ایک دوسرے کو دکھ سکھ کا ساتھی بننے کے لئے رضا مند کرے، اسی طرح طبقاتی تفریق کو ختم کرکے ایک لڑی میں پُرونے میں مذہب کا ایک اہم کردار ہے۔ کرونا نے معاملہ الٹ کردیا۔ جڑے رشتوں میں فاصلے، اجتماعی قربتوں سے دوری کا نیا فلسفہ دیا۔ جس نے اس نئے قانون کو نہیں مانا، کرونا نے اُسے سزا دی اور سماجی طور پر اُسے اپنی قوت مدافعت کے تحت لڑنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا۔

اس وقت وائرس سے بڑا خطرہ، غفلت کو قرار دیا جا رہا ہے، اس کا ارتکاب کرنے والے فرد کو مجرم گردانا جاتا ہے جو احتیاطی تدابیر سے روگردانی کرتا ہے۔ ریاست کے نزدیک ایک ایسا فرد مجرم ہے جو احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتا، کیونکہ اُس کی بے احتیاطی سے دوسرے انسان کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتے ہیں، اس لئے غفلت برتنے والے فرد کو قانون کے تحت مجرم قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی لاپرواہی و غفلت سے صرف اُسے ہی نقصان نہیں پہنچ رہا بلکہ ایک انسان کی غفلت دیگر دس انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہے، دس انسان سو افراد کو، اور سو افراد ہزار لوگوں اور اسی طرح یہ تعداد بڑھتے بڑھتے لاکھوں، کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ غفلت ایک انسان کے ذاتی فعل سے شروع ہوتی ہے لیکن اس کا خمیازہ لاکھوں انسانوں سے ہوتا ہوا، کروڑوں انسانوں کو اٹھانا پڑرہا ہے۔ معمولی غفلت بڑی تباہی کا سبب بن جاتی ہے اور یہی واحد وجہ ہے کہ بنی نوع انسان پل صراط سے گزر رہے ہیں۔

ضرورت اس اَمر کی بڑھ جاتی ہے کہ وائرس سے زیادہ غفلت کو ختم کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی جائے، آج کرونا وائرس ہے تو کل دوسرا وائرس ہوگا، کائنات میں لاکھوں اقسام کے وائرس ہیں، جو ابھی منکشف نہیں ہوئے، ہر آنے والا دور انسا ن کے لئے دشوار گزار اور نئے امتحان کو لارہا ہے، اگر اس مرحلے پر عالمی برداری میں اس شعور کو اجاگر نہیں کیا گیا اور اس اَمر کی تربیت نہیں دی گئی کہ اپنی معاشرتی ذمے داری میں غفلت اور لاپرواہی کو ختم کرنا ہوگا، ورنہ پھرمستقبل میں نئے چیلنجوں سے نبر الزما ہونے کے لئے انسان کو شعوری طور پر تیار ہو کر مقابلہ کرنا ناممکن ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments