عرفان خان! تم کردار سے جان نکالنا بھی جانتے ہو


اداکاروں کی چکا چوند زندگی کے ڈوبتے پل، کسی کی حقیقی زندگی پر بننے والی فلموں کو بڑے سے پردے پرروشن کرنے سے پہلے ہال میں گھپ اندھیرا۔ فلم شروع ہوئی، ہلکے پھلکے مناظر کے بعد ٹریجڈی سین۔ ملنا بچھڑنا، انتظار، موت، حاضرین کی خاموش سسکیاں دماغ میں اپنے کسی دکھ کا تصور۔ ہدایت کار فلم بینوں کی حساسیت سے واقف ہے۔ بہت دیر کرب میں رکھنا اچھا نہیں ہو تا۔ سو آئٹم سونگ آگیا، یا کسی مزاحیہ اداکار کی اینٹری نے روتی آنکھوں کے آنسو پو نچھ ڈالے، ہال میں لڑکیوں کی مترنم ہنسی، لڑکوں کے قہقہے اور جیالوں کی سیٹیاں گونجنے لگیں۔

مگر حیف! اس دنیا کے پردے پر لاتعداد کہانیاں اور کردار بکھرے ہو ئے ہیں۔ شاید ان کے کرداروں کے ہاتھ میں اسکرپٹ نہیں دیا گیا۔ شاید ہدایت کار ہی کہانی کار ہے اس کے پاس ون لائنر ہے۔ اس نے اداکاروں کو بتا دیا ہے کہ سچویشن کے مطابق خود ہی اینٹری مارنی ہے۔

عرفان خان، عام سے کرداروں کو خاص کر دینے والا، اسے بولتے، لڑتے، پیار کرتے، مسکراتے، بڑبڑاتے، جھنجلاتے، کھسیاتے، دوڑتے بھاگتے، چیختے چلاتے، روتے، در د میں تڑپتے بہت سوں نے دیکھا۔ اس کے جسم کا ہر عضو اداکاری کرتا تھا۔ لیکن اس کی آنکھوں کی اداکاری سب پر بھاری تھی۔ جانے ان آنکھوں میں کیا تھا۔ اس کے ابلے ہوئے دیدے ہر وقت آنکھوں سے باہر آنے کو تیار رہتے۔

کوئی اس قدر حقیقی اداکاری کیسے کر سکتا ہے۔ ایسا انوکھا کردار ایسی انوکھی آنکھیں اور ایسی انوکھی بیماری۔ تخلیق کار جتنا بڑاہوتا ہے، اتنا ہی حساس ہو تا ہے۔ ایسے انسان کو چہرے پر کرب لانے کے لیے اداکاری کا سہارا نہیں لینا پڑتا نہ ہی آنکھ میں آنسو لا نے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ سوچتی ہوں اس انوکھی بیماری میں وہ درد سہنے کے لیے کیسے جتن کرتا ہو گا اگر حقیقی زندگی میں اسے کسی درد میں تڑپتے ایسے ہی کسی انوکھے کینسر کے مریض کا کردار دیا جا تا تو کیا وہ اس کردار سے انصاف کر پاتا؟ کیا وہ اس تڑپ میں درد کی شدت کی وہ لہریں بھی دکھا پاتا جو اس کی جان آدھی کر دیا کرتی ہوں گی؟

کیسے جانگسل لمحات ہوں گے اس درد سہتے، کرب میں لپٹے اور ماں کے غم میں ڈوبے فنکار کے لیے۔ کتنا عرصہ وہ اپنی بیماری سے لڑتا رہا اپنے ادھورے سپنے پورے کرنے کے لیے اس نے موت کی آنکھوں میں اپنے موٹے موٹے دیدے انڈیل دیے۔ پر ماں کو شاید اپنی جیت کا یقین نہ دلا سکا۔

وائنڈ اپ کا اشارہ ملنے سے پہلے ہی اس نے اپناسامان لپیٹ لیا۔ فلمی کہانیوں میں کیسے کیسے غمناک مناظر کی عکس بندی کی جاتی ہے۔ پر اس کی فلم بنا نے والے نے سائنوپسز میں ہی فلم بنا ڈالی۔ وہ تو اس دن ہی مر گیا تھا جب اسے ماں کے مرنے کی اطلاع ملی اور لائٹ، کیمرا، ایکشن کے بغیر اس نے اپنی زندگی کی سب سے پہلی اور آخری فلم مکمل کی، جب بیماری، کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس نے ماں کی آخری رسوما ت کی لا ئیو کوریج دیکھی۔ فلموں کے تمام کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے والے نے حقیقی زندگی میں اوور ایکٹنگ کر دی۔ جب کہانی میں اچانک تبدیلی کر دی جائے تو سچوئیشن بھی تبدیل ہو جا تی ہے۔ ایسے میں اداکار، کردارمیں جان ڈالنے کے بجائے جان نکال لیا کرتے ہیں۔

بچوں کو چوٹ لگتی ہے تو ماں کو بہت درد ہو تا ہے۔ بیٹے کی تکلیف سہتے سہتے شاید ماں تھک گئی تھی۔ پھر ماں ایسی پکی اداکارہ بھی نہ تھی۔ وہ موت کو کیسے یقین دلاتی کہ بیٹے کی تکلیف سے اسے کوئی خاص درد نہیں ہو تا۔

جاؤ عرفان ہم تمہاری خوشی میں خوش ہیں جاؤ ملو اپنی ماں سے، اب تمہاری بیماری کے عذر میں کورونا کی لگی لپٹی نہیں چلے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments