اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی


آپ کو ہمیشہ ٹیلی ویژن کی سکرین پر دیکھا آپ کو سنا۔ آپ امہ کے لئے درد رکھتے ہیں۔ خاندان، ماں باپ اور عزیز و اقارب سے محبت کا درس دیتے ہیں۔ آپ کی رقت آمیز دعا سننے اور اس میں شریک ہونے کی ایک دنیا متمنی ہے چاہے وہ سابقہ چور وزیر اعظم ہو یا موجودہ صادق و آمین، ہندوستان کی بالی ووڈ کے شہنشاہ عامر خان ہو پاکستانی کرکٹ کے بوم بوم شاہد افریدی سب کے ہاتھ آپ کی دعا کے ساتھ اٹھتے ہیں۔

ویسے تو یہاں کسی بھی خرقہ پوش پر سوال اٹھانے سے پہلے بندہ سوچتا ہے کہ نہ جانے کس کی آستین میں دشنہ پنہاں ہو۔ یہاں اب کسی بھی معلم، متعلم، مبلغ، محدث، محقق اور مولا سے سوال تو دور کی بات کوئی گلہ بھی نہیں کرتا کہ جانے کب کون سوالی کے گلے میں پھندہ ڈال کر گھسیٹ دے۔ آپ کی بات ہی کیا ہے، دامن نچوڑ کر وضو کر کے گنہگاروں کو فرشتہ بنتے خود اپنی انکھوں سے زمانہ نے دیکھا ہے۔

تقصیر معاف! بندہ ناچیز مگر مالک سے مانگنے کے لئے رونے کی کیفیت پیدا کرنے والی آپ کی نصیحت سے متفق نہ کر پایا۔ جو خالق خون کے خلیوں میں جسم کے ہر رگ میں موجود ہو، جو دلوں کے بھید ہی نہیں، بھیدوں کے بھید بھی جانتا ہو، جو نیت ہی نہیں، نیتوں کی نیت سے بھی آگاہ ہو۔ اس سے کون سی کیفیت ہے جو چھپی رہ سکتی ہے۔ کبھی وہ خود ہی رلا دیتا ہے کبھی وہ ہنسا بھی دیتا ہے، میں تو ہر حال میں اسی کے کرم کا محتاج ہوں۔

آپ کے در پر جو باریاب ہوا، وہ با مراد ہوا، اس کی ساری تقصیر معاف، دین و دنیا میں سرخ رو اور زندگی میں کامیاب و کامران اور شادمان۔ زندگی چاہے جیسے گزاری، میگزینوں کے سرورق پر ہوشربا تصاویر چھپوائیں یا نیلی پیلی فلموں میں جوہر دکھائے جیسے ہی آپ کے دست حق شناس پر بیعت کی، سارے قصور معاف۔

میں دینیات کا ادنیٰ طالب علم ہوں۔ ہندوستان کی سیاسی اور مذہبی تعلیم و تربیت میں میرے لئے دیوبند کا مدرسہ ہمیشہ مینارہ نور رہا۔ یہاں کے اکابر ہمیشہ سرکار، دربار اور خودنمائی سے دور رہے۔ علمائے دیوبند نے ہی جمیعت علمائے ہند کی بنیاد ڈالی۔ سنا ہے شاہ ولی اللہ دہلوی کی حنفی تعلیمات کے اس مرکز سے ابو الکلام آزاد، ابو اعلیٰ مودودی اورسید حسین احمد مدنی کا بھی تعلق رہا ہے۔

ہم نے کہیں پڑھ رکھا ہے کہ ایک تاجر تھا جس نے شہر شہر قریہ قریہ گھوم کر علم کے موتی چنے تھے۔ مرنے سے پہلے علم کے اس خزانے کو شاگردوں کو منتقل کیا تھا۔ شاگرد بھی ایسے کہ جو استادوں کے استاد اور آئمہ کے امام ہوئے۔ خلیفہ وقت کی خواہش تھی کہ وہ قاضی القضاۃ بن جائیں مگر انھوں نے کبھی شاہی رتبہ قبول نہ کیا، پیشہ تجارت تھا، منافع غریبوں میں بانٹنا شیوہ۔ عباسی خلیفہ منصور کی دور میں قید کے دوران ان کی موت ہوئی۔ بعد ازاں ان کے علمی خزانے سے پہلی اسلامی شریعت مرتب ہوئی، جس کو ہم آج فقہ حنفیہ کہتے ہیں اور ان کو خود دنیا امام اعظم کے نام سے جانتی ہے۔ نام کے بجائے کنیت سے مشہور ہیں وہ بھی بیٹی کی نسبت سے ابوحنیفہ کہلائے۔

اصحاب صفہ یعنی چبوترہ پر بیٹھنے والے صحابی ہی زیادہ تر احادیث کے راوی ہوئے۔ اس صفہ یعنی چبوترے سے فقر کی وہ رسم چلی جس کو ہم آج تصوف کہتے ہیں اور اصحاب صفہ کی سنت پر عمل کرنے والوں کو صوفی کہتے ہیں۔ کسی کے تن پر کپڑا پورا نہیں تھا، کسی کو پیٹ بھر روٹی کھانے کو نہ ملی۔ نبی آخر زمانﷺ کی رحلت کے بعد آقا کے ان غلاموں کو بطور تبرک بھی خلفائے راشد نے اپنے دربار میں بٹھانے کی کوشش کی مگر وہ راضی نہ ہوئے۔ صدیق، اکبرؓ، عمرؓ فارقؓ، عثمان غنیؓ اور علی مرتضیٰؑ سے بھی وہ بطور خلیفہ کسی قسم کی رعایت کے خواستگار نہیں ہوئے۔

حضور آپ نے کہا کہ قوم کی بیٹیوں کو نچوایا جا رہا ہے۔ صحیح کہا یہاں ناچنے پر پابندی ہے، نچوانے پر نہیں۔ رقص حسین بن منصور الحلاج کی سنت ہے جس کا قصیدہ عثمان مروندی پڑھ کررقصاں ہوتا ہے۔ لال شہاز قلندر کے مزار پر دھمال کرنے والوں کے چیتھڑے اڑائے جاتے ہیں مگر کبھی کسی نے اس وڈیرے کا ہاتھ نہیں روکا جو طوائف کو نچوائے بغیر بچوں کا عقیقہ بھی نہیں کرتا۔ یہ آپ ہی کی تبلیغ کا کمال ہے کہ آج ملک میں گیت سنگیت موسیقی رقص باقی نہیں رہا۔ نوجوان صرف آپ کا یو ٹیوب کا چینل ہی دیکھ کر ہی محظوظ ہوتے ہیں۔

آپ نے ملک کی آدھی آبادی کو بلا جھجک فحاشی کا مرتکب قرار دیا اور بعد میں بھی اس بات کی پشیمانی نہیں دکھائی۔ کیا خوب کہا دنیا میں ہونے والے نقصانات، زلزلے، سونامی، وبا سب کہ ذمہ دار وہ عورتیں ہیں جن کے کھلے گریبان، ننگی پنڈلیاں اور بازو دیکھ کر مردوں کا ایمان خراب ہوتا ہے۔ ہم نے ت وسنا ہے کہ مردوں کو بھی اپنی شرم گاہوں اور نظروں کی حفاظت کرنے کا حکم ہے مگر آپ نے تو صرف عورتوں کو مجرم ٹھہرا دیا۔

ہندوستان میں کورونا کا الزام معصوم تبلیغیوں پر آیا جن کو معلوم بھی نہیں تھا کہ وہ کس مصیبت میں گرفتار ہوئے ہیں۔ وہاں کی تبلیغی جماعت نے تو خون کا پلازما دے کرکفرانہ ادا کرنے کی کوشش کی مگر پاکستان میں کرونا پھیلانے کے لئے ہر ایک نے اپنے حصے کا کوٹہ ریاست کے ساتھ ایک بیس نکاتی معاہدہ کرکے وصول کیا۔

کیا کبھی اپنی لینڈ کروزر پر سفر کرتے ہوئے اس بات کا احساس ہوا کہ ہمارے دیہاتوں میں گھنٹوں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والوں کے لئے بیت الخلا کی سہولت کہیں موجود نہیں۔ مرد تو بڑی آسانی سے سڑک کنارے استنجا بھی کرلیتے ہیں مگر خواتین رفع حاجت کے خوف سے سارا سفر بغیر کچھ کھائے پیے کرتی ہیں۔ کسی جگہ پبلک ٹوائلٹ موجود بھی ہوتو وہاں جانے والے کتنی بیماریاں لے کر آتے ہیں اس کی فکر آپ کو کیونکر ہو یہ تو اللہ کی طرف سے ان کے گناہوں کی سزا ہے۔

نوجوان جب اپنے کیرئیر بنانے کی عمر سے گزر رہے ہوتے ہیں تو ان کو بتایا جاتا ہے کہ دو دنوں کی دنیا کے لئے وہ اتنا تردد کرنے کے بجائے آخرت کی فکر کریں۔ کلاس روم میں استاد کو سننے کے بجائے وہ بستر سروں پر اٹھائے ہاتھوں میں لوٹے پکڑے نگر نگر گھوم رہے ہوتے ہیں۔ کتاب چھوڑ کر لوٹا پکڑنے کے بعد عملی زندگی بطور مہمان اداکار کے گزارتے ہیں جس کی وجہ معاشرتی طور پر بالعموم اور انفرادی طور پر بالخصوص غربت کی لکیر اوپر کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔

پاکستان نوے فیصد مسلمانوں کی آبادی کا ملک ہے جس میں سے سالانہ دو اڑھائی لاکھ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں، اس سے زیادہ تعداد میں لوگ یہاں سے عمرہ کرنے بھی جاتے ہیں۔ نماز روزے کی پابندی کے علاوہ رمضان میں اعتکاف کے لئے مسجدوں میں جگہ کم پڑ جاتی ہے۔ سارا سال محرم، میلاد، عرس، تبلیغی اجتماعات کی پر نورمحافل و مجالس جاری و ساری رہتی ہیں۔ مگردوسری طرف انٹرنیٹ پر فحش مواد ڈھونڈنے والوں کی سب سے بڑی تعداد بھی یہی پر رہتی ہے۔ مسجد سے جوتے چرانے، ثواب کے لئے رکھے ٹھنڈے پانی کے کولر کا گلاس اٹھانے والوں کی بات کیا کیجئے روزانہ دس سے زیادہ بچوں کا جنسی استحصال بھی یہاں ہوتا ہے، کیا یہ جرائم وبائی  آفات کا باعث نہیں بنتے؟

آپ کے حکم پر بچیوں کا پردہ بھی کروا دیا لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ روزانہ جنسی درندگی کا شکار ہونے والے بچوں میں زیادہ تر لڑکے ہوتے ہیں۔ ان کے لئے آپ کیا کہتے ہیں جو اپنے گھر سے روٹی کمانے نکلتے ہیں وہ سرخی پاؤڈر بھی نہیں لگاتے، نہ ننگی پنڈلیاں اور بازو دکھاتے ہیں مگر پھر بھی جنسی ہوس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس بچے کی بے چارگی پر آپ نے کچھ نہیں کہا جس کے باپ نے کوہستان سے ایک مدرسے میں دین سکھانے کے لئے بھیجا جو سو سے زیادہ بار اپنے روحانی باپ یعنی استاد کی بربریت کا شکار ہوکر ہسپتال میں داخل ہوا۔ کیا اس بات سے آپ بے خبر ہیں کہ بسوں کے اڈوں اور ہائی ویز پر بنے ہوٹل کھانے پینے کے ساتھ بسترگرم کرنے کے لئے لڑکے بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان ہوٹلوں میں ان ٹرکوں کے ڈرائیور بھی رات گزارتے ہیں جن کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ًدعوت تبلیغ زندہ بادً یا ’مجھے دعوت تبلیغ سے پیار ہے‘ ۔

گستاخی معاف! اگلے سال کے اعداد و شمار دیکھ لینا آپ کے عورتوں پر فحاشی کا بہتان لگانے سے نہ وبا رکے گی نہ ہی اس ملک میں جرائم میں کمی آئے گی مگر کئی ایک بھولے بھالے معصوم لوگ آپ کی باتوں میں آکر اپنی بچیوں کی تعلیم چھڑا کر گھر پر بٹھا لیں گے۔ کئی لڑکیوں کو نوکری کرکے رزق حلال کمانے سے روک لیا جائے گا۔ خدشہ ہے آپ کے ماننے والوں کی طرف سے اگلے سال آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر اپنے حقوق کا تقاضا کرنے والی عورتوں کے جلسے اور جلوسوں پر مزید شدت سے حملے کیے جائیں گے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments