سندھی ڈاکٹر کی ڈائری


پچھلے کچھ عرصے سے مسلسل اندرون سندھ سے نوعمر ہندو بچیوں کے جبراً قبول اسلام اور مسلم لڑکوں سے شادیوں کی خبریں گردش میں رہی ہیں۔

میرا تعلق اندرون سندھ سے ہے بچپن کا بڑا حصہ ہندو سہیلیوں کے ساتھ کھیلتے کودتے گزرا، پھر میڈیکل کالج میں کتنے ہی ہندو کلاس فیلوز لڑکے لڑکیاں جن کے ساتھ اچھی دوستی رہی۔ بلاشبہ کسی بھی بچی کا گھر سے بھاگ کر والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنا ہمارے معاشرے کے لئے ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔اور وہ مولوی بھی اس ناپسندیدہ عمل میں شریک ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ ہی ہے جو کہ ولی کی اجازت کے بغیر بچی کا نکاح پڑھا دے۔

امریک سمیت ترقی یافتہ ممالک میں شادی کی عمر 18 جبکہ باہمی رضامندی سے سیکس کی عمر 16 سال ہے۔ نائیجریا میں یہ عمر 11 سال جبکہ جاپان میں 13 سال ہے۔ پاکستان میں بھی کئی سالوں سے یہ کوشش جاری ہے کہ شادی کی کم از کم عمر 18 مگر باہمی رضامندی سے جنسی تعلقات کے لئے میرا جسم میری مرضی کا قانون لاگو ہو۔

مجھ سمیت میری بے تحاشا سینئر جونئیر ڈاکٹر کولیگز۔ اور وہ سب ملازمت پیشہ عورتیں جنہوں نے گھر میں 13، 14 سال کی بچیاں ”ہیلپر“ رکھی ہوتی ہیں روزانہ اس طرح کے مسائل سے دوچار ہوتی ہیں کہ کبھی گھر میں کوئی مرد ملازم، کبھی پڑوسیوں کے مالی گارڈز، کبھی کسی انڈر کنسٹرکشن بلڈنگز کے مزدور، جن کے ساتھ کچھ ”ہیلپر“ بچیاں انوالو ہو جاتی ہیں۔

اور سب کا ہی یہ مشاہدہ بھی ہے کہ ان گھروں میں کام کرنے والی کچھ بچیوں کی بہت چھوٹی عمر میں شادیاں بھی ہو جاتی ہیں مگر شادی سے پہلے دو تین دوستیاں بھی کر چکی ہوتی ہیں۔ معاشرے کے اس انتہائی محروم اور پسماندہ طبقے ( کہ جہاں بنیادی ضرورتیں روٹی کپڑے کا ہی فقدان ہو ) کے اس طرح کے تعلقات کی وجہ جنسی سے زیادہ مادی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ نسبتاً بہتر وسائل سہولیات اور تعلیم کے حامل طبقہ میں گو کہ یہ مسائل اتنی شدت سے نہیں ہوتے، مگر ان کی حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔

یہاں، اپر کلاس سے تعلق رکھنے والے نویں جماعت کے وہ بچے بھی یاد رہیں جنہوں نے محبت میں ایک ساتھ خودکشی کی تھی۔ کہ بہرحال بلوغت کے ساتھ صنف مخالف کے لئے رغبت اور پسندیدگی بھی ناقابل تردید حقیقت ہے۔

ایسے میں یہ کہ دینا بالکل غلط ہے کہ 14 یا 15 سال کے بچوں میں صنف مخالف کے لئے پسندیدگی یا جنسی جذبات نہیں ہو سکتے۔ بہرحال بلوغت کی عمر تو ہے یہ۔ پسماندہ علاقے جہاں تعلیم شعور کے ساتھ وسائل کی بھی بے انتہا کمی ہو، اس طرح کے ناپسندیدہ واقعات قدرے عام ہیں۔ (ایک کمرے میں درجن بھر کی فیملی، کچے ذہن، میڈیا کی بے راہ روی، فیشن انڈسٹری، ۔ اور دیگر وجوہات پر لکھ کر تو کئی صفحے کالے کیے جا سکتے ییں ) ۔

جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، ان شادیوں میں مذہب کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی شرمیلا ٹیگور اور اس کی دونوں بہوؤں (امرتا سنگھ اور کرینہ کپور) کی شادیوں میں تھی۔ کہ مسلمان مرد کے لئے ایمان کا کم سے کم درجہ کہ نکاح اسلامی طریقے کے مطابق کر لیا جائے تاکہ ساری زندگی گناہ پر نہ گزرے۔ (غیر مسلم اکثریت کے معاشرے میں بھی مسلمان مرد عورت کو کلمہ پڑھا کر ہی نکاح کرتا ہے، چاہے وہ محمد علی جناح ہوں، عمران خان یا نواب پٹودی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو عورت کلمہ پڑھتے ہی شادی کر لیتی ہے اس کا رجحان اسلام سے زیادہ اس مسلمان مرد میں ہوتا ہے جس سے وہ شادی کرتی ہے، چاہے وہ عورت رتی جناح ہو، جمائمہ گولڈ اسمتھ، شرمیلا ٹیگور، یا کوئی  غیر مسلم عورت)۔

غیر مسلم پاکستان میں اقلیت میں ہیں تو لڑکوں کی تعداد بھی کم ہے، ایسے میں ایک علاقے، محلے، اسکول کالج میں ساتھ رہنے کی وجہ سے مسلم لڑکے سے پسندیدگی ہو جانا، اور پسند کو پانے کے لئے ہر حد سے گزر جانا غیر معمولی تو ہو سکتا ہے مگر حیرت انگیز نہیں۔ یاد رہے کہ اس طرح کے واقعات میں بچے بچیاں عموماً کم عمر اور معاشرے کے پسماندہ طبقات سے ہوتے ہیں۔ جہاں ایک طرف غیر مسلم بچی نیم خواندہ اور پسماندہ گھر سے ہوتی ہے تو مسلم لڑکا بھی اس طرح کے حالات کا ہی شکار ہوتا ہے۔ اوردونوں کو ہی اپنے مذہب کی سمجھ بوجھ بہت بنیادی سطح کی ہوتی ہے۔

اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ مسلم لڑکی غیر مسلم لڑکے سے شادی کیوں نہیں کرتی، تو اس کا یہی جواب کہ شاید کوئی اکا دکا واقعہ ہو کیونکہ غیر مسلم کمیونٹی تو ویسے ہی اقلیت میں ہے اور لڑکے قابل ہوں تو لڑکیوں کے والدین تو پہلے ہی انہیں نظر میں رکھ لیتے ہیں۔

دوسری طرف انڈیا میں جہاں مسلم اقلیت میں ہیں وہاں مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کے بھی بے تحاشا واقعات ہیں۔ بلاشبہ ہمارے معاشرے میں گھر سے بھاگ کر والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنا انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے، چاہے کوئی مسلم بچی کرے یا غیر مسلم۔ اور اس ناپسندیدہ فعل کی حوصلہ شکنی معاشرے کے ہر طبقے کو کرنی چاہیے بشمول مولوی، لبرلز اور فیمنسٹ۔

لیکن پسند کی شادی کے مسئلوں کو مذہبی رنگ دے کر تفرقہ بازی پیدا کرنے کا مقصد پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments