18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی ہونی چاہیے!


حکومت کے ہاتھوں سے پھسلتی معیشت بے روزگاری اور مہنگائی نے نااھلی کا جو تاثر مستحکم کیا تھا اسے کارونا وبا نے  جہاں بربادی کی آخری حد تک پہنچایا ہے وہیں پر حکومت کی نااھلی پر پردہ پوشی کی موٹی چادر بھی تان دی ہے۔

وباکے دوران دفاقی حکومت نے سندھ کے ساتھ مخاصمت کی راہ اپنا کر البتہ اس موٹی چادر کو چاک کر دیا جو اس کی حکومتی ناکامیوں کے لیے ایک غیر متوقع عالمی آفت کا جواز پیش کر سکتی تھی۔ حکومت اور برسراقتدار جماعت کی بچگانہ حرکتوں نے اس موقع کو ضائع کر دیا۔ اس مشکل صورتحال میں حکومت کو ملک میں وسیع تر باھمی مشاورت، سیاسی تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ وبا کے خلاف لڑنا تھا۔ مرکز نے کسی بھی معقول سبب کے بغیر صوبہ سندھ کی حکومت کو نشانے پر رکھ لیا۔ بلاشبہ پی ٹی آئی کی کراچی اور مرکزی قیادت کے ذہنوں میں پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت روز اول سے کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ مقامی اور مرکزی قیادت کسی نہ کسی طرح سندھ میں بھی اپنی حاکمیت کے لیے کوشاں ہے۔ یہ رویہ 1972 کے بعد، شہید ذولفقار علی بھٹو کی جاگیردارانہ حاکمیت پر مبنی اقدامات کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔

حکومت نے انتہائی نامساعد سیاسی معاشی حالات میں جب سیاسی درجہ حرارت خطرے کے بلند نشان کو چھو رہا ہے، پارلیمنٹ میں اپنی عددی کمزوری کو نظر انداز کر کے آٹھارہویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے وفاق اور صوبوں کے پول ایبل وسائل کی تقسیم کے طے شدہ فارمولے میں ترامیم کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ یہ طے ہے کہ آئینی طریقہ کار کے مطابق نیز پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی مجموعی عددی پوزیشن ایسی کسی بھی ترامیم کے امکان کی نفی کرتی ہے۔ پھر متازعہ امور کی سیاسی حساسیت مذکورہ ترامیم کے تناظر میں حکومتی اتحاد کو ہی تتر بتر کر سکتی ہیں۔ حکومت کے افلاطونی وزیر جناب اسد عمر نے نجانے کس برتے پر مذکورہ ترامیم کے لیے حکومتی سوچ کا عندیہ دیا ہے۔ ان کے ہم خیال جناب شاہ محمود قریشی نے بھی ایسی ترامیم کی عاجزانہ حمایت کی ہے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم دراصل ملک کو پارلیمانی وفاقی ریاست بنانے کی طویل جدوجہد کا ثمر ہے۔ قرارداد داد لاہور سے 1973 کے آئین تک جو کٹھن سفر طے ہوا (جس دوران ھماری تاریخ کا جغرافیہ بھی نصف رہ گیا)، اس کے نفاذ سے مسلسل گریز نے ملکی سیاسی امکانات کو گرہن لگائے رکھا ہے۔

1973  کے دستور میں اختیارات کی دو فہرستیں مرتب کی گئی تھیں ایک وفاقی اور دوسری مشترکہ فہرست۔۔۔ دستور ساز مدبروں میں اتفاق ہوا کہ جنگ کے بعد کی نازک صورتحال میں اس بندوست کو دس سال کے لیے قبول کر لیا جائے۔ اصول طے پایا کہ دس سال کے بعد مشترکہ فہرست از خود، یا ایک رسمی ترمیم کے بعد، صوبائی فہرست بن جائے گی۔ کون جانتا تھا کہ اس بیچ ملک ضیائی آمریت کے چنگل میں ایسا الجھے گا کہ اسے اپنے طے شدہ قومی لائحہ عمل کے طرف پلٹنے میں وقت کا لمبا عرصہ اور مذھبی شدت پسندی کے خونی دریا کو عبور کرنا ہو گا۔ سامراج کی پراکسی جنگ میں ملک کے گلی کوچوں میں انتہا پسند رجحانات کی فصل کاٹنا ہو گی۔

ضیا کے عہد سیاہ میں سیاسی جماعتوں نے جمہوریت آئین کی بحالی کی جدوجہد شروع کی۔ ایم آر ڈی میں اتفاق رائے سے وفاق اور صوبوں کے اختیارات کا فارمولا قبول کیا گیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس فارمولے کو کس نے کن کے ایما پر پس منظر میں دھکیلا تھا۔

الْقصہ پرویز مشرف سے نجات کے بعد بننے والی پارلیمنٹ نے صوبائی خودمختاری کا سوال طے کرنے کے لیے آئینی کمیٹی تشکیل دی۔ تمام پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل اس کمٹی نے جناب رضا ربانی کی قیادت میں آئین میں وسیع ترامیم پر اتفاق کیا جسے آئینی ذرائع سے باقاعدہ طور پر دستور پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا۔

صوبائی خودمختاری کے آفاقی اصولوں کو منشور بنا کر سیاست کرنے والی جماعتوں کو عرف عام میں قوم پرست کہا گیا۔ ان  کے پروگرام کے مطابق وفاق کے پاس چار محکمے، دفاع، خارجہ امور، خزانہ / کرنسی اور مواصلات ہوں اور باقی تمام اختیارات صوبائی اسمبلیوں کو منتقل ہونے چاہییں۔ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو جو اختیارات منتقل یوئے ہیں، وہ عالمی وفاقي پارلیمانی نظم کے مطابق بہت کم ہیں لیکن سیاسی عملیت پسندی کی حکمت عملی نے تمام جماعتوں کو اپنے اپنے موقف میں نرمی پر مائل کیا تھا۔ حیرت انگیز طور مرکزی مقتدرہ نے اس آئینی ترمیم کے نفاذ کے چند روز بعد سیکشن افسر کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے ذریعے محکمہ تعلیم اور او بی آئی کے بعض امور کی منتقلی روک دی تھی۔ 18 ویں ترمیم پر عملدرآمد کرانے والی پارلیمانی کمیٹی نے بڑی جانفشانی سے اختیارات صوبوں کو منتقل کرانے میں کامیابی حاصل کی۔ شروع دن سے مضبوط مرکز کا داعی اور مراعات سے مستفید ہونے والا بااثر طبقہ پاکستان میں مضبوط مرکزی حکومت قائم کرنے میں مگن ہے، ایسی مرکزی حکومت جس میں تمام اختیارات اس کے ہاتھ میں مرتکز ہوں۔ یہی طبقہ تقسیم ہند سے قبل متحدہ ھندوستان میں صوبائی خودمختاری کا بہت بڑا حامی و داعی تھا مگر اب ماضی کے برعکس اختیارات کی مرکزیت چاہتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ مضبوط حکومت کے دور میں پیش آیا تھا نیز یہ کہ وفاقیت سے گریز اس سانحے کی بڑی وجہ تھی۔

پاکستان اپنے قیام کی اساسی دستاویز، قرار دار لاہور کی روح کے مطابق، مضبوط، خوشحال اور آسودہ ملک بن سکتا ہے جس کے عوام مملکت کی حدود میں اطمینان بخش اجتماعی زندگی بسر کر سکیں۔ تاہم ایسا صرف اور صرف مکمل پارلیمانی وفاقیت ہی میں ممکن ہے۔ چنانچہ 18  ویں ترمیم میں ردوبدل کی بالکل ضرورت ہے لیکن صوبوں کے اختیارات میں مزید اضافے کے لیے۔ جب کہ اس ترمیم میں کٹوتی، خدانخواستہ، ملکی جغرافیہ میں کتر بیونت کا باعث بن سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments