مشرق یا مغرب: ایک بار پِھر سوچ لیں


دستیاب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ہاں شہریوں کی اوسط عمر لگ بھگ ساٹھ پینسٹھ سال کے درمیان ہے۔ ایک ساٹھ ستر سال کی عمر کا عام انسان جس کی یادداشت کا مقیاس بھی غیر معمولی نہ ہو وہ جب مڑ کر اپنے ماضی کی طرف دیکھتا ہے تو عموماً اسے گزرے ہوئے تمام وقت میں چند نمایاں اور اہم واقعات و سانحات ہی یاد آتے ہیں اور ان میں سے بھی بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو مکمل جزیات کے ساتھ یاد ہوں۔

میری یادداشت میری عمر کے مقابلے میں خاصی تیز چل رہی ہے سو ابھی سے خاصی بزرگ اور نحیف و نزار بلکہ پژمردہ ہو چکی ہے اس لیے مجھے گزری ہوئی زندگی کے بہت کم ادوار اور واقعات جزیات کے ساتھ یاد ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے۔

لاہور کینال بینک ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہمارا بڑا سا گھر ہوا کرتا تھا۔ کافی ساری جگہ تھی جہاں ایک طرف رہائشی حصہ اور باقی جگہ پر پھل دار پودے اور سبزیاں وغیرہ لگا رکھی تھیں۔

دیوار کے ساتھ سفیدے کے اونچے اونچے درخت تھے۔ جو پھل دیتے نہ چھاؤں۔ البتہ جب بھی آندھی چلتی، جو کہ آتے ہی مصنوعی بجلی کو رخصت کر دیتی۔ تب وہ سفیدے کے درخت آسمانی بجلی کی کڑک اور چمک تلے کھلے میدان میں ہوا کے زور پر جھولتے ہوئے ناقابلِ یقین حد تک جھک جھک کر اپنی لچک کے جان لیوا مظاہروں سے ڈرایا خوب کرتے۔ عین ممکن ہے وہ موسم کے ساتھ مل کر چُہلیں کرتے ہمیں محظوظ کرنے میں لگے رہتے ہوں۔ یا ہمِ ہی جمالیات سے عاری تھے جو ان کی شائیں شائیں سے سہم جاتے۔

شہر میں رہتے ہوئے ماحول کو مزید دیسی بنانے کے لیے گھر میں بکریاں اور خرگوش بھی رکھ لیے گئے۔ خرگوشوں کا گھر میں نے خود مٹی گوندھ کر گارے سے اینٹیں جوڑ کے بنایا تھا۔ روز شام کو انہیں پکڑ کر ان کے اس گھر کے اندر بند کرنے میں جو دوڑیں لگتیں اس کے بعد مزید کسی کسرت کی ضرورت باقی نہ رہتی تھی۔

خوبصورت رنگ روپ کی بکریوں کے ساتھ ایک عجیب ہیئت یا شاید کسی الگ نسل کی بھیڑ بھی تھی جو نہا دھو کر بھی بھلی نہیں لگتی تھی۔ خیر کچھ عرصہ بعد اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا جو اس سے بالکل مختلف تھا۔ روئی کے گالے ایسا سفید، نرم، خوبصورت من موہنا میمنا۔ وقت گزرا دو چار مہینوں میں وہ میمنا ذرا بڑا ہو گیا اور پہلے سے بھی زیادہ سجیلا، خوبصورت۔ ایک دن وہ گھر سے باہر گیا تو پتہ نہیں کوئی زہریلی جڑی بوٹی کھا آیا یا کچھ اور ہوا۔ واپس آ کر کچھ دیر نڈھال سا پھرتا رہا۔ پھر اپنے لیے مخصوص لکڑی کے تختے پر جا لیٹا اور وہیں پڑا کچھ ہی دیر میں مر گیا۔

میمنے کا مرنا تھا کہ یوں لگا جیسے کئی مہینوں سے اس گھر میں موجود بھیڑ جو سر جھکائے گھاس پھونس میں منہ مارتی اپنے آپ میں مگن رہتی تھی وہ ایک دم عورت بن گئی ہو۔

ایسی عورت جس کے پاس منتوں مرادوں سے مانگا ہوا ایک ہی بیٹا اس کی زندگی کا کل سرمایہ تھا۔ اور وہ ایک ہی ایسا شاندار کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں اور دلوں میں اترتا۔ اس کی ماں جان بوجھ کر اسے نظر بھر کر دیکھنے سے احتراز برتتی ہو کہ کہیں اسی کی نظر نہ لگ جائے۔ لیکن موت نے کچھ نہ دیکھا اور اس عورت کی دنیا اندھیر کر گئی۔

جب اس کے بچے کو لکڑی کے تختے سے اٹھایا گیا تو وہ باقاعدہ آنسوؤں سے روئی۔ جہاں اس کے بچے کا منہ تھا لکڑی کا تختہ وہاں سے گیلا ہو گیا تھا۔ وہ اسی گیلی جگہ پر بار بار اپنا منہ رکھتی۔ کبھی دائیں کبھی بائیں طرف سے اپنے گال اس گیلی جگہ پر چھوتی جیسے وہ جگہ خشک ہونے سے پہلے پہلے اپنے بچے کا سارا لمس وہاں سے کشید کر لینا چاہتی ہو۔ اس کی بے ہنگم کرلاہٹیں سن کر یوں لگا جیسے اس کے پاس الفاظ ہوتے تو وہ بھی اس عورت کی طرح سر پیٹتے ہوئے بین کرتی جس کا اکلوتا جوان بیٹا مر گیا ہو کہ دیکھو لوگو میں برباد ہو گئی، میری زندگی کا اثاثہ لُٹ گیا۔

اس دن کے بعد میری نظر میں ماں صرف ماں ہو کر رہ گئی۔ عورت اور بھیڑ ایسی غائب ہوئیں کہ آج تک نہیں ملیں۔

ایسے ہی ہر گزرتا لمحہ ہمارا ماضی بن کر ہمارے شعور، لاشعور اور تحت الشعور کے مختلف خانوں میں محفوظ ہوتا چلا جاتا ہے۔ جو تمام عمر مختلف وقتوں اور شکلوں میں یاد کے پردے پر ابھرتا رہتا ہے۔

ہم اپنے مستقبل اور اپنے اگلوں کے لیے جہاں مہنگی اور قیمتی اشیا اور جائیدادیں جمع کرتے ہیں اسی طرح ہمیں ہماری یادوں کے حوالے سے بھی حساس ہونا چاہیے اور ہر لمحے کو ایسا بنانے کی اپنی سی کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ جب وہ گزرا ہوا لمحہ ذہن کے پردے پر ابھرے تو ذہن کے ساتھ آنکھیں بھی دمک اٹھیں۔

موجودہ وبا کے دن اور خاص طور پر ان دنوں میں آنے والا رمضان کا مہینہ ہم سب کی یادوں میں ذاتی اور اجتماعی دونوں حوالوں سے جزیات و کلیات سمیت محفوظ ہو جانے کو ہے۔ یہ دن، یہ وقت ہماری زندگی میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہو گا۔ اس کے حوالے سے اجتماعی یادیں شاید ہم سب کی ملتی جلتی لیکن انفرادی یادیں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی۔

یہاں ہم میں سے شاید کوئی بھی ایسا نہیں جس کو وبا کی وجہ سے گھر بیٹھنے پر کھانے کے لالے پڑ گئے ہوں۔ معاشی تنگی ایسی شے ہے جو بڑے قابل ذہنوں کو بھی کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں چھوڑتی جبکہ ہمیں اس کا سامنا نہیں ہے۔

سو اس آسودگی اور وقت کی فراوانی میں ہم بہت سی ایسی چیزوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جن پر مصروفیت کے دنوں میں غور کرنے کا موقع نہیں ملا یا جنہیں قابلِ توجہ ہی نہیں سمجھا۔

انہی غور طلب معاملات میں سے ایک نمایاں معاملہ ہماری موجودہ سماجی حالت ہے۔

اگلے وقتوں کی بات ہے کہ مغرب میں فنونِ لطیفہ سے لے کر معاش و معاشرت تک کے تمام معاملات چرچ کے زیر اثر ہوا کرتے تھے۔ چرچ ہی وہاں کا قانون تھا اور چرچ ہی ریاست۔ اسی کے مطابق سب کو اپنی زندگیاں گزارانا ہوتیں۔ پھر وہاں ان پابندیوں میں جکڑی ہوئی زندگی کے حوالے سے گھٹن محسوس کی جانے لگی جس کے نتیجے میں آزادی کے لیے آواز اٹھی جو شدید تحریک کی شکل اختیار کر گئی اور آخر کار مغرب کا معاشرہ فرد کے ذاتی حوالے سے ہر طرح کی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

پہلے جو معاشرہ ایک انتہا پر کھڑا تھا وہ ایسا سرپٹ بھاگا کہ دوسری انتہا پر جا پہنچا۔

اس وقت ہمارے ہاں بھی وہی گھٹن محسوس کی جا رہی ہے سو آزادی کے لیے گھٹی گھٹی سی آوازیں بھی اٹھتی ہیں۔ جو آواز ذرا اونچی ہوتی ہے اس کی سرکوبی کے لیے چارہ جوئی شروع کر دی جاتی ہے۔ جس سے بغاوت پنپنے کا خدشہ ابھرتا ہے۔

یہ دور عجیب کشمکش کا دور ہے جس میں ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں راستے کا انتخاب درپیش ہے۔ اپنے رنگ سے جی اوب چکے ہیں کیونکہ جسے ہم اپنا رنگ سمجھ رہے ہیں وہ بھی دراصل ہمارا اپنا نہیں اس لیے اکتاہٹ شدید ہے اور مغرب کا رنگ جو ہمیں ہمیشہ ہی پرکشش معلوم ہوتا تھا اس میں ہماری دلچسپی اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ہمیں لگنے لگا ہے کہ اس رنگ میں رنگنا اب شاید ہمارے لیے زیادہ مشکل نہیں رہا۔ جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم آنے والی کئی دہائیوں تک خود پر چڑھا رنگ اتار کر مغرب کے رنگ میں نہ رنگ سکیں گے۔ لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس کوشش میں بے پر کی اڑان بھرتے ہمارے پاؤں زمین سے اکھڑ چکے ہیں۔ ہم ہوا میں معلق ہو چکے ہیں اور ہمارے اپنے رنگ کو مزید زنگ لگ چکا ہے۔

یہ کشمکش ایک بڑی وجہ ہے جس کی بِنا پر ہم میں سے ہر دوسرا فرد نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوا جا رہا ہے۔ جب ہم دوسروں کے نقشِ قدم پر قدم رکھ لیتے ہیں تو بنے بنائے آسان راستے ہونے کی وجہ سے اندھا دھند ان پر دوڑتے ہیں اور اس وقت ہم پر یہی دور گزر رہا ہے۔ اگر اس وقت کو ہم نے سنبھالا نہیں اور اعتدال کا راستہ اختیار نہ کیا جو کہ واقعی ہمارا اصل راستہ ہے تو ہم بھی رشتوں ناتوں، دوستیوں اور تعلقات کے معاملے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر قلبی اور روحانی طور پر ایسے ہی تہی دامن اور قلاش ہو جائیں گے جیسا صدیوں سے مغربی معاشرہ ہے۔

ہم ان کے قدموں پر قدم رکھ کر جو سفر کر رہے ہیں اور جس میں اب خاصی سرعت آتی جا رہی ہے۔ اس سفر کو مکمل کر کے جب کئی دہائیوں بعد وہاں پہنچیں گے جہاں اس وقت مغربی معاشرہ کھڑا ہے تو عین ممکن ہے تب تک مغربی معاشرہ انسانی رشتوں کی حقیقت کو تسلیم کر چکا ہو۔ ⁦ہم اس وقت مغرب کی تقلید کر تو رہے ہیں لیکن یہ اندھی تقلید ہے۔ ہمیں یہ احساس نہیں کہ ہم ان سے سینکڑوں سال کی دوری پر ہیں اور عین ممکن ہے وہ اگلے ہی موڑ سے یوٹرن لے کر واپسی کا سفر اختیار کر لیں کیونکہ ذہنی انتشار وہاں بھی شدید تر ہے اور انسان داخلی طور پر شدید تنہائی کا شکار ہیں۔

نفسیات کی ایک اصطلاح ہے فرسودگی جس میں کسی خاص وقت یا انسان سے منسلک آپ کی توقعات یا خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو ذہن پر مستقل اداسی طاری ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں کڑھتے ہوئے انسان کا کسی کام اور کسی مقام پر دل نہیں لگتا۔ یوں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ انسان حساسیت سے عاری ہو کر دوسروں سے لاتعلق صرف اپنے لیے ایک روبوٹکس ٹائپ لائف گزارنے لگتا ہے۔ مغرب کا انسان ذاتی حوالے سے اسی کیفیت کا شکار ہے جس نے اسے داخلی طور پر تنہا کر دیا ہے۔ اس تنہائی سے فرار کے راستے تلاش کرتے کرتے وہ مزید جذباتی انحطاط میں مبتلا ہوا جا رہا ہے۔ اس وقت ہم بھی دوسروں سے لاتعلق ہوتے ہوتے اسی نہج پر چل رہے ہیں۔ ظاہر ہے رشتوں ناتوں اور دوستوں کو ان کی خوبیوں خامیوں سمیت قبول کرنا اور ان سے جڑے رہنا مشکل اور بھاری ذمہ داری ہے جبکہ ان کو چھوڑ کر آگے بڑھ جانا بظاہر آسان لگتا ہے لیکن جب مثال سامنے موجود ہو کہ آسان راستہ اختیار کرنے والے اس وقت کہاں کھڑے ہیں تو اپنے لیے بہتر راستے کا انتخاب مشکل نہیں رہتا۔

ہم نے ابھی بہت کم راستہ کھوٹا کیا ہے۔ یہیں سے واپسی آسان جبکہ سینکڑوں سال کی مسافت کی صعوبتیں کاٹ کر تہی دامن پلٹنا دشوار ہو گا۔ یاد رکھیے کہ یہاں معاشی ترقی و استحکام یا ارتقاء نہیں، صرف اور صرف سماجی اقدار اور قلبی و روحانی تحرک کی بات ہو رہی ہے جو وہاں صدیوں پہلے سرد پڑ چکا۔ (وضاحت اس لیے ضروری سمجھی کہ رجعت پسندی کا طعنہ نہ دیا جائے ) ۔

تو بات یہ ہے کہ ہم چاہیں تو وبا کے دنوں میں آنے والے اس غیر معمولی رمضان کو اپنی کاوشوں، مثبت سوچ، درگزر کے جذبے اور دلوں میں تھوڑی سی وسعت پیدا کر کے مزید خاص بنا سکتے ہیں کہ کل ہمارے پاس اس کے حوالے سے یاد کرنے یا دوسروں کو سنانے کے لیے غم و اندوہ کے قصے اور لاک ڈاؤن کے دوران اٹھائی جانے والی مشکلات کی داستانیں ہی نہ ہوں بلکہ یہ ایسا انوکھا رمضان بن کر ہماری یادوں میں محفوظ ہو جائے کہ جس پر بات کرتے ہوئے ہم افسردگی سے زیادہ ایک سرشاری اور بے پایاں خوشی و اطمینان محسوس کریں کہ ہم نے وبا کے دنوں میں آنے والے ماہِ رمضان کو اپنے رویوں اور چھوٹی بڑی کاوشوں سے کیسے خوبصورت اور یادگار بنایا!

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments