محبت کی نفسیات اور سماجی ردعمل


محبت کا فلسفہ اتنا ثقیل اور گراں بار نہیں جس قدر ہماری سماجی سوچ اور اجتماعی رویوں نے گنجلک بنا دیا ہے۔ تھوڑی دیر اپنے اردگرد غور کریں تو بہت جلد ادراک ہو جائے گا کہ جبلتوں پر سماجی جبر نے منافقت اور دوغلے پن کی کو فروغ دیا ہے۔ رومانوی قصوں اور فلموں میں ہماری تمام تر ہمدردیاں محبت کے کرداروں کے ساتھ منسلک رہتی ہیں۔ ہم جیسے ہی کہانی سے باہر حقیقی سماج میں آتے ہیں ہمارے اندر کیدو کا علامتی کردار ابھرنے لگتا ہے۔ یہ داخلی تضاد درحقیقت سماج کی دی ہوئی اجتماعی سوچ ہے۔ فراق گورکھ پوری کا شعر ہے :

فراق اب اتفاقاتِ زمانہ کو بھی کیا کہیے
محبت کرنے والوں سے کسی کو دشمنی کب تھی

تاریخِ انسانی دیومالا قصوں اور محبت کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ان کہانیوں اور کرداروں کی اجتماعی بازگشت ہمارے ذہنوں میں سنائی دیتی ہے۔ اس فطری جذبے پر سماجی جبر نے نہ جانے کتنے محبت کرنے والوں کے سر قلم کیے مگر یہ جذبہ آج بھی اپنی شدت کے ساتھ موجود ہے۔ سماج نے اپنے اصولوں پر نظرِ ثانی کے بجائے اس نفیس اور نازک جذبے کو خوف اور جرم سے جوڑ دیا ہے۔ جب فطرت پر قدغن لگے تو منافقت اور دوغلاپن تو سامنے آتا ہے۔

ہم نے ہمیشہ محبت کو سماجی سوچ کے سیاق میں معانی دیے ہیں۔ محبت کو اس کی اصل میں پرکھنے کا سوچا ہی نہیں۔ کچھ ماہرین نے محبت کو کلچر کی پیداور کہا اور تجربات بھی کیے۔ حال ہی میں محبت کا کلینکل تجزیہ کرنے کی غرض آکسی ٹوسن اور فیرومونز جیسے ہارمون زیرِ بحث لائے گئے ہیں۔ کچھ ماہرین نے رومانوی محبت کو دماغی تصویروں کے ذریعے جاننے کی کوشش کی ہے۔ اکثریت اس بات پر متفق ہیں کہ محبت کا انحصار دماغ کے اندر طبعی افعال کے درمیان ایک پیچیدہ تعامل پر مبنی ہے اور نہایت غیر محسوس اور لطیف پیرائے میں کام کرتی ہے۔

محبت پر سب سے اہم کام معروف ماہرِ نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کا ہے۔ فرائیڈ کے مطابق فرد میں رومانوی محبت جنسی جبلت کے کسی ایک پیکر کو منتخب کرنے اور اس سے اختلاط اور انضمام کا نام ہے۔ بلوغت کے فوری بعد فرد اپنے ذات میں کچھ کمی محسوس کرتا ہے اور خود کو ادھورا جاننے لگتا ہے۔ اسی دوران اپنے دماغ میں کسی خاص پیکر کے خدوخال تشکیل پاتے ہیں جسے عرفِ عام میں آئیڈیل کہتے ہیں۔ یہ عدم تکمیلیت کے احساس میں متشکلہ پیکر سے بیرونِ ذات کوئی پیکر مماثلت ظاہر کرتا ہے تو فرد کا جنسی اور جذباتی رحجان اس وجود کی طرف ہونے لگتا ہے۔

فرد کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی ذات کا یہی وہ حصہ ہے جس کے بغیر وہ نامکمل اور ادھورا ہے۔ یہ دونوں وجود ایک دوسرے کی طرف مائل ہوکر جنسی اختلاط اور ذہنی انضمام کے ذریعے محبت کی اکائی تشکیل دیتے ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب اور سماج میں شادی کا تصور اسی مائلیت کا مرہونِ منت ہے۔ بلاشبہ شادی سماجی اور اخلاقی ضابطوں کا سب سے خوب صورت اصول ہے مگر اس کے اطلاق میں ذہنی اور جذباتی لگاؤ کو نظر انداز کر کے سماجی کے خود ساختہ اصول بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دو غیر موزوں افراد کو جذباتی اور ذہنی ہم آہنگی کے بغیر ایک بندھن میں جوڑ کر منافقت اور دوغلے پن کا بیج بو دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں افراد کا وجود نہ صرف نامکمل رہتا ہے بلکہ ایسے افراد کا بیڈروم جانوروں کا حجرہء تولید بن جاتا ہے۔

اس ساری بحث کا ماحصل یہ ہے کہ ایک خوش گوار زندگی کے لیے جنسی اور ذہنی ہم آہنگی لازنی ہے۔ ازدواجی زندگی جنس، محبت اور شادی کی مثلث ہے۔ جنس کا تعلق جسمانی جبلت سے ہے، محبت جنس سے جڑا نفسیاتی اور جذباتی تعلق ہے اور شادی ایک سماجی بندھن ہے۔ اس تکون میں کہیں بھی خلا رہ جائے تو الجھنیں، دوغلاپن، عدم اعتماد اور نفرت فروغ پاتے ہیں۔ صرف جنسی تعلق ہو اور نفسیاتی اور جذباتی ہم آہنگی نہیں تو بیڈروم گھوڑوں کا اصطبل ہے جہاں افزائشِ نسل تو ہو رہی ہے مگر ایک دوسرے کی پہچان نہیں ہے۔

دوسری صورت میں جذباتی اور نفسیاتی تعلق ہے مگر جسمانی اختلاط نہیں تو یہ مزید خطرناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ ایسی صورت میں روحانی محبت فرد کو نفس کشی اور رہبانیت کی طرف لے جاتی ہے۔ فرد تارک الدنیا ہو کر اپنی جسمانی جبلتوں سے جنگ لڑتا ہے۔ صوفیا کا رومانوی محبت سے محبتِ الہی کی طرف مراجعت کا بھی یہی فلسفہ ہے۔ ایسی محبت کسی ایک فرد کی ذات تک تو ہو سکتی ہے پورے سماج کے لیے ناممکن ہے لہذا جسمانی جبلت براہِ راست ذہنی اور نفسیاتی عوامل سے جڑی ہوئی ہے وہ آدمی سب سے بڑا احمق تھا جس نے روح کو رقصِ خون سے جدا کہہ کر ارتقائے کائنات کی سب سے بڑی قوت پر کاری ضرب لگائی اور روح اور جسم کو جدا جدا دیکھ کر ہماری محبت کی باگ ڈور ایک ایسے خیالی کوچے کی طرف موڑ دی جس کی تلاش میں ہم اپنے آپ ہی کو کھو آئے اور نفسیاتی افلاس سے دوچار ہوئے

میرے نزدیک روح کی دنیا جسم سے ماورا نہیں ہے روح کا پھول جسم کی شاخ پر کھلتا ہے اور اسی سے نمو حاصل کرتا ہے اور محبت کی کھیتی ہری بھری اور شاداب ہوتی ہے محبت صرف ایک شخص کے تکمیلِ نفس کا ذریعہ نہیں بلکہ دو شخصوں کی روح کی ایک آزاد حرکت ہے محبت صرف دو شخصوں کا وصل اور انجذاب ہی نہیں بلکہ افتراق اور تصادم بھی ہے جب وہ وصل کی طرف بڑھتے ہیں تو اپنے اس عمل میں اپنی انفرادیت کو ختم نہیں ہونے دیتے بلکہ ایک دوسرے کی قوت سے انجذاب کر کے اپنی اپنی انفرادیت اور شخصیت کو اور زیادہ نکھارتے ہیں اس عمل میں دو نہ ٹوٹنے والی خودیوں کا باہمی رقص محبت ہے بشرط یہ کہ دونوں اکتسابِ قوت کرنے اور انفرادیت کو نکھارنے میں مکمل آزاد ہوں یہ دو دلوں کی محبت پھیل کر انسانیت کی محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ارتقائے کائنات کا موجب بنتی ہے اس محبت کی کوئی حد نہیں کوئی منزل نہیں یہ ایک حرکت اور توانائی ہے اور اس کی قوت سارے انسانوں میں بہتی ہے اس کے بغیر نبضِ ہستی سست پڑ جاتی ہے اور چاندنی پھیکی اور روٹھی روٹھی سی معلوم ہوتی ہے اور یہ غربت و امارت، رنگ ونسل اور مذہب و ملت کے تمام تر امتیازات اور معذوریوں سے بالا تر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments