بھٹو، جمن فقیر اور ایک دیہاڑی دار ریڑھی والا


اس تصویر میں ایک دیہاڑی دار شخص سر پر سندھی ٹوپی، پاؤں میں ٹوٹی ہوئی پلاسٹک کی چپل پہنے اپنی سب سے قیمتی چیز ریڑھی پر چادر ڈالے لیے جا رہا ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن جاری ہے۔ راستے خالی اور اکثر و بیشتر لوگ اپنے اپنے گھروں میں محفوظ ہیں۔ شدید گرمی میں ریڑھی کو گھسیٹتا ہوا یہ شخص بس منزل کے قریب پہنچنے ہی والا ہے۔ گرمی اتنی شدید کہ اگر پلاسٹک کو بھی ایک دو گھنٹے کے لیے دھوپ میں رکھا جائے تو وہ بھی پگھل جائے مگر اسے تو اس شدید گرمی میں رہنے کی کچھ عادت سی ہے۔

آخر ایسا کیا ہے اس ریڑھی پر جسے اتنا چھپا کر جا رہا ہے اور کہاں لیے جا رہا ہے۔ لاک ڈاؤن سے اس غریب کو یہ فائدہ تو ہوا کہ اس مصروف ترین روڈ پر پولیس اور قانوں نافذ کرنے والوں کے تنگ کرنے والے سوالوں سے بچا رہا کہ تم دن دہاڑے وی آئی پی روڈ پر چھپ چھپا کے ایسی کون سے قیمتی چیز لیے جا رہے ہو جسے تم نے سات پردوں میں چھپایا ہوا ہے اور اس دیہاڑی دار کی خوش قسمتی کہ اس روڈ پر کوئی وی آئی پی کوئی وزیر، مشیر، سردار، جاگیردار، وردی والا طاقتور جناب کی گاڑی نہیں گزر رہی ورنہ تو پولیس اور قانوں نافذ کرنے والے سیٹیاں اور ہوٹر بجا بجا کر اس کی ریڑھی کو ہی اوندھا کر دیتے۔

یہ وہی روڈ ہے جہاں پر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے گدھے پر سوار درویش جمن فقیر اور اس کے پیچھے چلنے والوں کتوں کو روکا تھا اور بھٹو صاحب کی نظر جب جمن فقیر کو روکتے ہوئے ان اہلکاروں پر پڑی تو وزیر اعظم بھٹو ایک دم گاڑی کو رکوا کر اترے اور ان اہلکاروں کو جھاڑ پلادی کہ جمن فقیر کو کیوں روکا ہے تو جمن فقیر بولا صرف مجھے ہی نہیں روکا بلکہ میرے ساتھیوں کو بھی روکا گیا ہے۔

جب بھٹو صاحب نے جمن فقیر سے دعا سلام کی اور اسے کہا کہ جمن فقیر دعا کرنا تو جمن فقیر بولا اب اور کیا دعا کروں تم تو وزیر اعظم ہو اب کیا یہ دعا کروں کہ تم میرے گدھے پر اور میں تمھارے گاڑی پر سوار ہوں بھٹو جواباً مسکرا دیے۔ آج لاڑکانہ کی اسی وی آئی پی روڈ پر ایک مزدور بے بسی کی تصویر بنا اپنی عزت کو ریڑھی پر چھپائے ہسپتال لیے جا رہا ہے۔ لاڑکانہ میں اگر سرکاری ایمبولینس اور اسٹیچر نہ بھی ہو تو ایدھی صاحب کی ایمبولینس اور کرائے کی ٹیکسیاں تو موجود ہی ہیں مگر یہ مجبور دیہاڑی دار اپنی مزدوری والی ریڑھی پر اپنی پیاری کو سات کپڑوں میں چھپا ئے لیے جا رہا ہے کیوں کہ اس کی جیب میں پیسے نہیں ہیں جو وہ کسی ایمبولینس یا ٹیکسی والے کو دے سکے۔

اس آس پر سرکاری ہسپتال کی طرف جا رہا ہے کہ کہیں ڈاکٹر کوئی ٹیسٹ یا پھر مہنگی دوائی نہ لکھ دے جو باہر سے اسے لینی پڑے۔ اس مزدور کی حالت زار کا ذمہ دار کون ہے کیا یہ جمہوری حکومتیں یا پھر ان حکومتوں کو نہ چلنے دینے والی غیر جمہوری قوتیں یا پھر ہمارا یہ فرسودہ نظام؟ کاش کہ ہر سال مزدوروں کا دن منا کر فرض پورا کرنے کے بجائے حکومت حقیقی معنوں میں مزدورں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کا باعث بنے۔

سارا سال میرا کٹ جاتا ہے گمنامی میں
بس یکم مئی کو یہ لگتا ہے کے مشہور ہوں میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments