کرونا اور اسمارٹ لاک ڈاؤن


پاکستان میں ایک سخت لاک ڈاؤن انتہائی ضروری ہے لیکن پاکستان میں کرونا وائرس کے مریض تیزی سے بڑھ رہے ہیں اورلاک ڈاؤن نرم ہو رہا ہے، یا شاید ختم ہوتاجا رہا ہے۔ گراسری سٹورز، بیکریز، دودھ دہی کی دکانیں اور آن لائن آرڈرز کے لئے ریستوران تو پہلے ہی کھلے تھے، اب بہت ساری صنعتوں کو بھی لاک ڈاؤن کے بعد کھول دیا گیا ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے ان صنعتوں اور کاروبار کی دکانوں کے لئے ایک ہدایت نامہ بھی جاری کیا گیا ہے، ان احتیاطی تدابیر میں سینیٹائزیشن چیمبرز، ہینڈ سینیٹائزرز، ماسک وغیرہ کا استعمال ضروری قرار دیا گیا ہے۔ مگر ان تدابیر پر خاطر خواہ عمل ہوتا نظر نہیں آرہا۔

چند سٹورزاور فیکٹریز کے داخلی دروازوں پر ہینڈ سینیٹائزرزکے ساتھ ساتھ سینیٹائزیشن چیمبرزتو لگا دیے گئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ انتظامات وائرس کے پھیلاؤکوروکنے میں کس حد تک کارآمد ہیں؟

جہاں تک سینیٹائزیشن چیمبرز کا سوال ہے تو ان کو دروازوں پر فکس کرنا اور لوگوں کو اس میں سے گزارنا ہی کافی نہیں، یہاں چند نکات قابل ذکر ہیں۔ ان چیمبرز میں کس کیمیکل کا استعمال ہو رہا ہے؟ اس کی افادیت کیا ہے؟ کیا یہ اتنا با اثر ہے کہ چند سیکنڈزمیں اثر کرے؟ اور اس کے ممکنہ برے اثرات کیا ہیں؟ کیا کوئی سپروائزری اتھارٹی ہے جس سے اس کی منظوری لی گئی ہے؟ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کیا کرونا وائرس کے شکار افراد کو صرف اس چیمبر سے گزار کہ اس کا پھیلاؤ روکا جا سکتا ہے؟ یہ ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ اگر کوئی فرد وائرس کا شکار ہے تو صرف اس کے کپڑوں پہ اسپرے کرنا عقلی اور سائنسی لحاظ سے انتہائی نا موزوں عمل ہے۔ ان بہت سارے سوالات کی موجودگی میں یہ چیمبرز کرونا وائرس کے خاتمہ کے لئے کارآمد نظر نہیں آتے۔

اس کے ساتھ ساتھ میں نے ایک اور غلط روایت کا مشاہدہ کیا ہے، اکثر لوگ ہاتھوں پر دستانوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ کرونا وائرس کے انٹری پوائنٹس، منہ، ناک اور آنکھیں ہیں نہ کہ ہاتھ اور اگر دستانوں کا استعمال اس لئے ہے کہ ہاتھ بھی صاف رہیں تو یقیناً دستانے اتارتے وقت ہاتھوں پر وائرس لگنے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ دستانے اتارنے کا خاص پروٹوکول ہے جس سے زیادہ تر لوگ بے بہرہ ہیں۔

کرونا وائرس سانس کے ذریعے پھیلتا ہے اور ہمارے پاس ماسکس کی سپلائی بھی نا کافی ہے۔ مارکیٹ میں ماسک کی بہت ساری اقسام متعارف ہو چکی ہیں۔ ان میں N۔ 95، سرجیکل ماسک اور کپڑے کے ماسک قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے N۔ 95 سب سے کار آمد ہیں لیکن محدود سپلائی اور مہنگے ہونے کی وجہ سے ان کا استعمال کم ہے، کپڑے سے بنے ہوئے ماسک مناسب نہیں کیونکہ کرونا وائرس کا رپورٹڈ سائز 0.12 مائیکرون میٹر ہے یہ ماسکس اتنے چھوٹے سائز کے وائرس کو روکنے کے لئے ناکافی ہیں۔

اب باقی رہ جاتے ہیں صرف سرجیکل ماسکس جن کا استعمال، صحتمند اور بیمار دونوں افراد کے لئے ضروری ہے۔ (کسی بھی ایک ماسک کو آٹھ گھنٹے سے زیادہ استعمال نہ کیا جائے ) ۔ لیکن بے احتیاطی سے ان ماسکس کا استعمال بھی خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارے عوام ماسک پہننے اور اتارنے کا پروٹوکول نہیں جانتے اور اس دوران ماسک پر لگے وائرس سے ایکسپوز ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔

ہمیں لاک ڈاؤن کو سمارٹ نہیں سخت کرنا ہے اگر کسی کو اسمارٹ کرنا ہے تو وہ ہے عوام۔ جس طرح الیکڑانک اور سوشل میڈیا کا استعمال ہاتھ دھونے کی ٹریننگ کے لئے کیا گیا، وہ نہائیت خوش آئند ہے، اسی طرح ماسک پہننے، اتارنے کی ٹریننگ دی جا سکتی ہے تاکہ ماسک کے ذریعے کرونا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ کیونکہ ماسک کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ الیکڑانک میڈیا پہ چلنے والے کچھ پروگرامز میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کبھی ماسک اتارکر ہاتھ میں پکڑ لیا جاتا ہے کبھی وہی ماسک پھر سے پہن لیا جاتا ہے، یہ ایک رسکی عمل ہے۔

ہم سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ایک بھر پور ٹریننگ کمپین چلا سکتے ہیں جس میں لوگوں کو بتایا جائے کہ ماسک کس طرح پہننا ہے، دستانے کس وقت استعمال کرنے ہیں، اور کیسے استعمال کرنے ہیں۔ علاوہ ازیں دستانوں کا استعمال اور دوسری ضروری احتیاطی تدابیر کا استعمال سکھانے کے لئے مائیکروبائیلوجسٹس کی خدمات لی جا سکتی ہیں جن کی ٹریننگ وائرس اور بیکٹریا کے ساتھ کام کرنے کے لئے قدرے بہتر ہوتی ہے۔

صرف لاک ڈاؤن کے ساتھ اسمارٹ کا لفظ لگا دینا ہی کافی نہیں، متعدد ایکسپرٹس بشمول ڈاکٹرز، پبلک ہیلتھ ایڈوائزرز، لاک ڈاؤن مزید سخت کرنے کے لئے متنبہ کر رہے ہیں۔ اب کی بار اس پڑھے لکھے طبقے کی مان کر دیکھ لیجیے ہو سکتا ہے کوئی فائدہ پہنچ ہی جائے اور ہم خدانخواستہ کسی بڑے قومی نقصان سے بچ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments