جیسنڈرا آرڈن، کورونا اور پھول


کورونا کے دوران صنعتی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، امریکی جی ڈی پی رواں سہ ماہی میں 5 فیصد نیچے آ گیا ہے۔ ایسے میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے سپلائزر نے بیجوں کی خرید کے نئے آرڈر لینے سے معذرت کر لی ہے۔ دونوں ملکوں میں بیج تیار کرنے والی کمپنیوں کو اس بار معمول سے 10 گنا زیادہ آرڈر موصول ہوئے ہیں۔ یاد رہے نیوزی لینڈ میں ہر دلعزیز جیسنڈرا آرڈن وزیر اعظم ہیں، جیسنڈرا نے پورے ملک میں چار ہفتے کا سخت لاک ڈاؤن نافذ کردیا جس میں ضروری اشیاء کی خریداری کے سوا گھر سے نکلنے پر پابندی تھی، گھر سے نکلنے کے لئے دوسرا جواز ورزش تھا۔

نیوزی لینڈ میں جو پابندیاں لگائی گئیں انہیں تمام ممالک میں سے سخت ترین قرار دیا جا رہا ہے لیکن ان کا فائدہ یہ ہوا کہ وہاں کورونا کے نئے کیس بہت کم ہو رہے ہیں۔ ڈکٹر ایشلے بلوم فیلڈ نیوزی لینڈ کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ وہ اپنے لوگوں کی مسلسل حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ بہترین ورزش باغبانی ہے لہٰذا اپنے گھر اور اردگرد کے درختوں، پودوں اور پھولوں کی دیکھ بھال میں وقت گزاریں۔ نیوزی لینڈ کی سب سے بڑی سیڈ کمپنی کنگ سیڈز نے گاہکوں کے رش کی وجہ سے آن لائن فروخت روک دی ہے۔

نیوزی لینڈ میں موسم سرما کے لئے لوگ بیج ذخیرہ کر رہے ہیں کمپنی کے پاس تربوز، ٹماٹر اور دھنیا کے بیجوں کی ڈیمانڈ زیادہ ہو رہی ہے، سال کے اس وقت عموماً انہیں ہر بیج درکار نہیں ہوتے۔ ڈگرزکلب کے نام سے آسٹریلیا میں سب سے بڑا گارڈننگ کلب ہے۔ یہ کلب نئے بیج کا کاروبار بھی کرتا ہے۔ گزشتہ برس سینئر کالم نگار اظہار الحق اور ان کی اہلیہ آسٹریلیا گئے تومیرے لئے پھولوں کے دو پیکٹ اس کمپنی سے لائے تھے۔

آسٹریلوی کمپنیاں کاروبار چمکنے پر خوش ہیں لیکن کچھ فکر مند بھی کہ وہ اپنے پرانے اور مستقل گاہکوں کی ڈیمانڈ پوری نہیں کر پا رہیں۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے کچھ زرعی ماہرین کا خیال ہے کہ لوگ بیج ذخیرہ نہیں کر رہے بلکہ انہیں فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے کچھ خدشات ہیں جن کو دور کرنے کے لئے وہ زیادہ رقبے پر کاشت کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں سبزیاں پندرہ برس پہلے کے نرخوں پر فروخت ہو رہی ہیں، کریلا، ٹماٹر، آلو، گوبھی، گاجر، کدو، ٹینڈے، سبز مرچیں، دھنیا، سب 20 سے 50 روپے فی کلو میں مل رہی ہیں۔

یہ سبزیاں جب کاشت کی گئیں تھیں تو ان پر اخراجات معمول کے مطابق کافی زیادہ آئے۔ کورونا کی وجہ سے چھوٹے بڑے ہوٹل اور ریسٹورنٹ بند ہیں۔ سبزیوں کی تمام پیداوار اب گھریلو صارفین استعمال کر رہے ہیں۔ یہ آبرومند کسان ہیں، زیادہ تر انٹرنیٹ پر حکومتی امداد حاصل کرنے سے ناواقف۔ محکمہ زراعت میں اتنی سکت نہیں کہ لوگوں کی رہنمائی کر سکے۔ زراعت افسر بڑے زمینداروں کے فارم پر حاضری لگوا کر گھر چلے جاتے ہیں۔ میرے بہت سے جاننے والے گلیڈوس اور گلاب کے پھول کاشت کرتے ہیں۔

صرف لاہور، قصور اور شیخو پورہ کی بات کی جائے تو ان تین اضلاع میں تقریباً دو ہزار ایکڑ پر گلیڈ کاشت ہوتا ہے۔ لمبی ڈنڈی والے یہ پھول شادی بیاہ کی تقریبات کو سجانے اور دوستوں عزیزوں کو گلدستہ کے طور پر تحفہ کرنے میں استعمال ہوتے ہیں۔ لاک ڈاؤن، شادی ہالز کی بندش اور شادیوں کو انتہائی مختصر مجمع تک محدود کرنے سے اس پھول کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے ایک ایکڑ میں کئی ملین کے بیج لگائے جاتے ہیں۔ کورونا کے دوران بیج سے پودا بنا، پودے پر پھول آئے لیکن ان پھولوں کا نصیب جل گیا۔

گویا کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری بیکار گئی۔ کاش کوئی ہالینڈ کی حکومت سے پوچھتا کہ اس نے پھول اگانے والوں کی کیسے مدد لی۔ بڑے شہروں میں نرسری ایک اچھا کاروبار ہے۔ درمیانے اور چھوٹے درجے کی سرمایہ کاری سے چار پانچ گھروں کی روزی روٹی کا وسیلہ بن جاتا ہے، کچھ نرسریاں سالانہ کروڑوں روپے کا کاروبار بھی کرتی ہیں۔ ایک چکر کسی نرسری کا لگائیے۔ پھولوں کے گملے اور روشیں بھرے نظر آئیں گے لیکن خریداروں کی تعداد 10 فیصد رہ گئی ہے۔

پھولوں کے لگ بھگ تمام بیج درآمد ہوتے ہیں۔ پانی، بجلی اور مزدوری کے علاوہ کرایہ۔ سب کورونا کے حساب میں نہیں ڈالا جا سکتا، کچھ ذمہ داری ہمارے محکمہ زراعت، سیڈ کارپوریشن اور براہ راست وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ پر بھی عاید ہوتی ہے۔ ہمارا طرز حکمرانی پسماندہ ہے۔ ہمارے سامنے ہمیشہ شیر شاہ سوری یا مغل حکمرانی کا ماڈل رہا، یورپ کی اخلاقیات ہم سے جدا ہیں، ہم کبھی ایک دوسرے کو قبول نہیں کر سکتے، مشرق کے بیٹے بیٹیاں مغرب میں آباد ہو کر بھی الگ تھلگ رہتے ہیں لیکن جہاں احساس ذمہ داری، جدید سماجی معاشی اور سیاسی معاملات کی بات ہو گی اہل مغرب ہم سے برتر ہو جاتے ہیں۔

کیا یہ امر قابل توجہ نہیں کہ نیوزی لینڈ اور دیگر مغربی معاشروں میں تمام فیصلے منتخب افراد کرتے ہیں۔ منتخب حزب اقتدار اور منتخب حزب اختلاف مل کر۔ ہمارے ہاں وزیر اعظم فیصلہ کرتا ہے، اپوزیشن کو بڑی مشکل سے قائل کرتا ہے اور پھر کوئی تیسرا، غیر منتخب، پریشر گروپ یا مفاداتی گروہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور مالی بوجھ تلے دبی، کورونا سے لڑتی، اپنے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد پوری رکھنے کے جتن کرتی حکومت کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔

حکومت ردفساد کے خیال سے مشورے میں شامل کر لے تو مشورے کی فیس طلب کر لی جاتی ہے۔ ایسے پسماندہ نظام حکومت میں بھلا کوئی کیسے تین چار سو سال کی چھلانگ لگا کر نئے اور موثر فیصلے کر سکتا ہے۔ اسمبلیوں میں گندم، آٹے، چینی، لوہے، سیمنٹ اور رئیل اسٹیٹ کے نمائندے بیٹھے ہیں انہیں ہارٹیکلچر کے ابھرتے ہوئے کاروبار کو قومی سرمائے میں بدلنے سے کیا دلچسپی ہو گی۔ کنوارے پھولوں کا وجود خوشی دیکھے بغیر فنا ہو جائے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے اربوں بیج ہر سال ہم ضائع کر دیتے ہیں۔ کروڑوں ڈالر کے بیج ہم کسی بین الاقوامی مارکیٹ میں متعارف نہ کرا سکیں، انہیں کیا نقصان؟
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments