آزادی صحافت کا عالمی دن!


دُنیا بھر میں 3 مئی کویوم ِآزادی صحافت منایا جاتا ہے ۔ اس دِن اہل صحافت اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ وہ ایک آزاد، ذمے داراور انتہاپسندوں کے ہولناک حملوں، دیگر پریشر گروپس اور پر تشدد عناصر یا ریاستی دباؤ سے بے خوف رہتے ہوئے عوام کے اطلاعات تک رسائی کے بنیادی حق کے لیے لڑتے رہیں گے جب کہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی یکسوئی سے جاری رکھیں گے۔ عالمی وبا کے اس کڑے وقت میں ہمارے میڈیا، صحافیوں نے اپنی جان کی پروا کیے بنا، قوم کو کورونا کا شعور، آگاہی بہم پہنچائی، اس دوران کئی ملک وبا کی زد میں بھی آچکے، کسی بھی مشکل کھڑی میں میڈیا، صحافیوں کا ناقابل فراموش کردار رہا، اس کے باوجود ہمارا میڈیا شدید مشکلات سے دوچار ہے، ہیومین رائٹس واچ کی رپورٹ ہمارے لیے آئینہ ہے، اس کے علاوہ

یونیسکو کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ادارہ نے 2030 کے لیے استحکام پذیر ترقیاتی مقاصد کے حصول کا عہد کررکھا ہے تاکہ دُنیا سے غربت کا خاتمہ ہو، نوع انسانی کو خوشحالی نصیب ہو، امن عالم کے آدرش کو فروغ حاصل ہو اور کرہ ارض کے تحفظ کے لیے مذکورہ مقاصد پر پر جوش انداز میں کام کیا جائے۔ تاہم یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوگا جب اطلاعات کا معیار بلند تر ہو اور صحافت آزاد اور ہر قسم کے خوف و خطر اور ہولناک حملوں سے محفوظ ہو جب کہ عالمی صورتحال اس کے برعکس ہے۔

تیسری دُنیا میں صحافت معرض ِخطر میں ہے، اس دن کے حوالے سے آزادی صحافت کو جمہوریت کا بنیادی اصول قراردیا جاتا ہے، اس اصول کی پر جوش نمود دُنیا بھر کے صحافیوں نے اپنے خون جگر سے کی ہے، اور حقائق کی تشہیر اور جبرو ستم کے خلاف سینہ سپر ہوکر اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے جانیں نچھاور کی ہیں۔ 1993 میں یوم صحافت کا دن منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یونیسکو نے اپنے 26 ویں اجلاس میں اس دن کو عالمی سطح پر منانے کی سفارش کی تھی اور اس کا سبب افریقی صحافیوں کی اس اپیل کا ردعمل تھا جس میں اہل صحافت کو آزادی اور تکثیریت پسندی کے پرچم کو سر بلند رکھنے کے لیے متحد ہونے کو کہا گیا تھا۔

موجودہ دور میں میڈیا معاشرے کی بقا اور اس کو متحرک رکھنے کے لئے ایک لازمی اکائی کی حیثیت رکھتاہے۔ میڈیا کے بغیر موجودہ معاشرتی، اقتصادی اور ثقافتی نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ میڈیا معاشرے میں کئی اہم سرگرمیاں ادا کرتا ہے۔ معلومات کی فراہمی میڈیا کا سب سے اہم کام ہے۔ میڈیا معاشرے کی تمام جزئیات تک مختلف معاملات کے بارے میں معلومات کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ علاوہ ازیں میڈیا معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان ان اقدار کا ابلاغ بھی کرتا ہے جن کے باعث معاشرے کا توازن قائم رہتا ہے۔

میڈیا کا ایک اہم ترین کام تفریح مہیا کرنا بھی ہے۔ تفریح انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ تفریحی ذرائع کسی بھی معاشرے کو اعتدال کی سطح پر قائم رکھنے کے حوالے سے اہم ترین فریضہ انجام دیتے ہیں۔ تفریح کو معاشرے کا بفر کہا جاسکتا ہے۔ صحافت، خواہ جس زبان کی ہو، اس کی اہمیت اور افادیت کو ہر زمانہ میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہماری سماجی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اوراقتصادی زندگی پر جس شدّت کے ساتھ اس کے اثرات مثبت اورمنفی دونوں طریقے سے مرتسم ہوتے رہے ہیں۔

اس کا بہر حال اعتراف تو کرنا ہی ہوگا۔ صحافت ترسیل وابلاغ کا اتنا موثراور طاقتور ذریعہ ہے اورواقعات حاضرہ کی معلومات بہم پہنچانے کا اتنا بہتر وسیلہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے سماجی پیشوا، سیاسی رہنما اور مشاہیرادب نے نہ صرف اس کی بھرپور طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کیا بلکہ اپنے افکار واظہار کی تشہیر کے لیے صحافت سے منسلک بھی رہے۔ صحافت اتنی موثر اور طاقتورہے کہ اس کے سامنے تیر، کمان، بندوق اورتوپ کی بھی اس قدر اہمیت نہیں ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ صحافت نے کتنے ہی ملکوں کے تختے پلٹ دیے، بڑے بڑے انقلابات کوجنم دیا، اورظالم حکمرانوں کے دانت کھٹّے کردیے۔ عالمی پیمانہ پر ایسے کئی مقام آئے، جب صحافت کی بے پناہ طاقت، اس کی عوامی مقبولیت اوراس کی تنقید سے خوف زدہ ہوکر اس پرپابندیاں عائد کی گئیں۔ صحافت نے جیسے جیسے ترقی کی، ویسے ویسے اس کی مقبولیت، اہمیت اورافادیت بڑھتی گئی اورلوگوں کومتوجہ کرانے میں کامیاب ہوتی گئی۔ اس طرح صحافت انسانی زندگی کا ایک حصہ بن گئی۔ صحافت کی ان خصوصیات اور انقلابی طاقت سے متاثر ہو کر کبھی اکبر الہ آبادی نے کہا تھا۔

کھینچو نہ کمانوں کو، نہ تلوار نکالو
جب توپ، مقابل ہو تو اخبار نکالو

تاہم صحافت کی آزادی کے خلاف برسر پیکار قوتوں کو نہ روکا جاسکا اور صحافتی آزادی بدستور مذموم عناصر کی سازشوں کا نشانہ بنتی رہی۔ گزشتہ ڈیڑھ عشرے کے دوران دُنیا میں اوسطً سالانہ 69 صحافی قتل ہو ئے جبکہ 15 برسوں میں 1035 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ آزادی صحافت کے عالمی دن کے حوالے سے جنگ ڈیولپمنٹ رپورٹنگ سیل نے مختلف ذرائع سے جو اعداد و شمار حاصل کیے ہیں اس کے مطابق 2017 ء کے دوران 65 صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں 60 فیصد یعنی 39 صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 40 فیصد یعنی 26 صحافی پیشہ ورانہ فرائض سر انجام دیتے ہو ئے مختلف واقعات میں قتل ہوئے۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے اعداد و شمار کے مطابق 2017 ء کے دوران کل قتل ہو نے والے صحافیوں میں سے 55 مرد جبکہ 10 خاتون صحافی شامل تھیں۔ 58 صحافی اپنے ہی ملک میں قتل ہو ئے جبکہ 7 ایسے صحافی بھی تھے جو دیگر ممالک میں رپورٹنگ کرتے ہوئے قتل ہو ئے۔ صحافیوں کے قتل کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ خطہ شام رہا جہاں 12 صحافی قتل ہوئے جبکہ 11 کے ساتھ میکسیکو دوسرے، 9 کے ساتھ افغانستان تیسرے، 8 کے ساتھ عراق چوتھے اور 4 کے ساتھ فلپائن پانچویں نمبر پر رہا انٹرنیشنل انڈیکس فار پریس فریڈم نے صحافت کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کو دُنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شمار کرلیا۔

میڈیا کے بین الاقوامی وکلالت گروپ رپورٹرز ود آٹ باڈرز کی جانب سے ترتیب دیے گئے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2017 کے مطابق سروے رپورٹ میں پاکستان دنیا کے 180 ممالک میں 139 ویں نمبر پر ہے جبکہ 2016 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا 146 واں نمبر تھا۔ 2017 کی رپورٹ میں بھارت کو 136 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کے لیے نیویارک کے تحت کام کرنے والی کمیٹی کے مطابق 1994 سے اب تک پاکستان میں 60 صحافی ہلاک ہوچکے ہیں، تاہم انہوں نے پاکستان کو دُنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شامل نہیں کیا۔

دوسری جانب مذکورہ فہرست میں شام اور میکسکو کے بعد عراق 9 ویں جبکہ افغانستان 7 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین 176 ویں نمبر پر جبکہ ویتنام 175 ویں نمبر پر دنیا میں بلاگرز اور صحافیوں کو سب سے زیادہ جیل بھیجنے والے ممالک ہیں جبکہ دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں پاکستان 139 ویں، فلپائن 127 ویں اور بنگلہ دیش 146 ویں نمبر پر ہے۔

اکیسویں صدی کے اوائل میں نائن الیون کے واقعے کے بعد دُنیا بھر میں دہشگردی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ صحافت کے پیشے کے لیے سب سے بڑا اور اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ عالمی صحافتی تنظیم کمیونٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل اور ان کی گرفتاریوں کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور صرف گزشتہ دس برس میں صحافتی ذمے داریاں انجام دیتے ہوئے 70 رپورٹرز کو ہلاک اور 230 کو گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا۔

انٹر نیشنل پریس انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 2012 میں 132 صحافی اپنی ذمے داریاں انجام دینے کے دوران ہلاک ہوئے جب کہ 2011 میں 107 اور 2010 میں 110 صحافی قتل ہوئے تھے۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرزکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں میڈیا پر پابندی اور دباؤ کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور وہ صحافتی آزادی کے لحاظ سے دُنیا کا 20 واں بدترین ملک بن چکا ہے۔ ورلڈ فریڈم انڈیکس 2013 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نئے انڈیکس میں 8 درجے تنز لی کے بعد 159 ویں نمبر پر پہنچ گیا تھا۔

پاکستان میں 2012۔ 13 کے دوران دہشتگردی، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی بنا پر ہلاک کیے جانے والے صحافیوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو 24 صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں انجام دینے کی بنا پر قتل یا ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ دو صحافی ڈکیتی کی واردات اور خاندانی رنجش کی بنا پر قتل کردیے گئے۔ پاکستان میں بلوچستان کا صوبہ اس وقت صحافیوں کی سب سے بڑی مقتل گاہ بنا ہوا ہے جہاں گزشتہ تین سال کے دوران 25 اور گزشتہ ایک سال کے دوران 8 صحافی دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔

بلوچستان کے بعد سندھ صحافیوں کے لیے دوسرا خطرناک صوبہ رہا اور یہاں بھی قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد 8 رہی جو اغوا کے بعد تشدد، ٹارگٹ کلنگ، اخبارات کے دفاترز پر حملوں اور سیاسی جلسے میں فائرنگ کی بنا پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ خیبر پختونخواہ میں دو صحافی قتل ہوئے جب کہ پنجاب میں ایک صحافی نامعلوم افراد فائرنگ کے ذریعے ہلاک کرکے فرار ہوگئے تھے۔ 2012۔ 13 کے دوران اس قسم کے 90 واقعات پیش آئے تھے جن کی بنا پر صحافی بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔

عہد حاضر میں اخبارات اور ٹیلی ویڑن نے جس طرح ہر گھر میں اپنی جگہ بنا لی ہے، میڈیاہمیشہ ہی عوام کو حقائق سے لحمہ بہ لحمہ آگاہ رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ میڈیا کی مقبولیت کے باعث عام لو گ بھی صحافت اور اس کے مسائل کو جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں، جس کے لئے آج سے بہتر کون دن ہو سکتا ہے کہ آج کے دن کو اقوام متحدہ نے صحافت اورآزاد ی صحافت کے لئے مخصوص کیا ہے۔ میڈیا کی اہمیت ہمیشہ سے مسلمہ رہی ہے۔ جس کی مثال تاریخ کے جانے مانے جرنیل اور اپنے عہد کے عظیم ڈکٹیٹر نیپولین بونا پاٹ کا وہ مشہورمقولہ رہا ہوگا، جس میں اس نے صحافت کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے کہا تھا کہ:یعنی ’لاکھوں سنگینوں سے زیادہ میں تین اخبار سے خوف زدہ رہتا ہوں‘ ۔

نیپولین بوناپاٹ کا مندرجہ بالا خوف یقینی طورپر صحافت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس نے ضرور اس بات کومحسوس کیا ہوگا کہ دشمن کی صفوں میں انتشاربرپا کرنے میں توپ اورتفنگ، لاؤ لشکر، تیر، تلوار کے ساتھ ساتھ ہاتھیوں، گھوڑوں اورفوجیوں کی بے پناہ طاقت، صحافت کے سامنے کند ہے۔ جو کام صحافت سے لیا جاسکتا ہے، وہ توپ اوربندوقوں سے بھی نہیں لیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا کے بڑے بڑے عظیم مفکر، دانشور، سربراہ، مصلح، سیاستداں اوررہنما اس کی اہمیت کے ہمیشہ معترف اورقائل رہے ہیں۔ آج عالمی دِن منانے کا حقیقی تقاضا ہے کہ صحافی برادری کے جائز حقوق ملنے چاہیے۔ وطن عزیز کے حصول کے دوران میڈیا کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ میڈیا کی اہمیت کبھی بھی ختم نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں اپنے صحافی اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا، میڈیا کے بغیر ترقی، اصلاح مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments