فقہی کتابوں میں ناپ تول کے پرانے پیمانے کی اصطلاح کیوں؟


ہر سال رمضان المبارک میں زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر کے لئے عام مسلمان بالخصوص صاحب نصاب معلوم کرنا چاہتا ہے کہ آج کے دور میں رائج پیمانے کے اعتبار سے کم از کم کتنا سونا چاندی پر زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر واجب ہے۔ عام مولوی حضرات گرچہ مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں لیکن فقہ کی کتابوں میں انہیں جو پڑھایا جاتا ہے وہ پیمانے آج کے دور میں رائج ناپ اور تول کی اکائی سے مختلف ہوتے ہیں اس لئے عام فوری طور پر جواب دینے سے قاصر رہتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ایسے علماء کو بھی امارت شرعیہ، دارالقضاء اور دوسرے بڑے دینی مراکز کی طرف سے اعلان کا انتظار رہتا ہے۔

مدارس کا CBSE سنٹرل بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کے طرز پر کسی بورڈ کا نہ ہونا اور NCERT نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ کے طرز پر نصاب تعلیم کی کتابوں کو مرتب اور حسب ضرورت ترمیم ؛حذف و اضافہ کے بعد مقرر کرنے کے لئے کسی وفاقی کونسل کا فقدان کا نتیجہ ہے کہ ان قدیم ترین فقہی اصطلاحات کا دور حاضر میں رائج اصطلاحات کے ساتھ تطبیق اور باسہولت افہام وتفہیم کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ گرچہ یہ کام مشکل نہیں ہے بس فقہی کتابوں میں مذکور ناپ تول کی اکائی بدل دی جائے یا بین القوسین فی زمانہ رائج اکائیوں میں لکھ دیا جائے اور ناشرین کتب کو جدید ایڈیشن میں اسی کے مطابق اشاعت کا پابند کیا جائے۔

ناپ تول کی اکائی مختلف ادوار میں بدلتی رہی ہے۔ ہندوستان میں اسے تین دور میں تقسیم کیا جا سکتا ہے (1) ماقبل دور اکبر (2) دور اکبر اور (3) دور برطانوی استعماریت۔ ما قبل اکبر ناپ تول کی اکائیاں پورے ملک میں یکساں نہیں تھیں۔ مختلف علاقوں میں الگ الگ تھیں اسی طرح شہروں اور دیہاتوں کی اکائیاں مختلف ہوتی تھیں۔ اکبر نے ملک گیر سطح پر یکساں اکائی کی ضرورت محسوس کی اور رائج بھی کیا تاہم سابق میں رائج اکائیاں بھی بعض علاقوں میں چلتی رہی تھیں بلکہ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں کسی حد تک آج بھی رائج ہیں۔ مثال کے طور پر زیورات کی دکانوں میں آج بھی سونا کے لئے وزن کی اکائی تولہ اور رتی بھی استعمال ہوتے ہیں۔ 4 دھان = 1 رتی۔ 8 رتی = 1 ماشہ، 12 ماشہ = 1 بھری، 24 رتی = 1 ٹاک اور 1 بھری = 11.66375 گرام۔

لیکن اب الیکٹرانک وزن کی سہولت کی وجہ سے تقریباًً ختم ہوگیا ہے اور اب دس گرام کو ہی ایک تولہ کہا جانے لگا جبکہ ایک تولہ 11.664 گرام کا ہوتا ہے۔

برطانوی استعمار نے سونے کے لئے وزن کی ان اکائیوں کو اور اجناس غلہ کے لئے چھٹانک، پاؤ، سیر، پسیری، دسیری اور من کو قبول کیا اسی طرح ناپ کے لئے انگلی 3 انگلی= 1 گرہ، 8 گرہ= 1 ہاتھ (کہنی سے بیچ کی انگلی کے پور تک یعنی تقریباً 18 انچ) 2 ہاتھ = 1 گز۔ تاہم بعد میں برطانوی استعمار نے پورے ملک ناپ تول کا یکساں میٹرک سسٹم رائج کیا۔ آزادی کے بعد حکومت ہند نے 1958 میں ملک گیر سطح پر یکساں ناپ تول کا سسٹم نافذ کیا۔ میٹرک وزن 1960 میں اور میٹرک ناپ 1962 میں لازمی قرار دیا تب سے سیر کی جگہ کیلو اور گرام اور گز کی جگہ میٹر اور سینٹی میٹر زمین کی پیمائش کے لئے مرل، کنال، بیگھہ، کٹھہ کی جگہ ڈسمل، ایکڑ اور ہیکٹر رائج ہیں۔

اسے مدارس کے ارباب حل و عقد کی بے توجہی کہیں گے یا جمود کہ آج بھی زکوٰۃ کے بارے میں کہتے ہیں ساڑھے سات بھری سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی اسی طرح صدقہ الفطر کے گیہوں / آٹا، جو کھجور اور کشمش کے لئے دور نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیمانہ صاع میں بتاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments