صحت اور دیگر بجٹ ضائع کر دیے گئے


نئے حالات کو سمجھنے میں پرانی کہانیاں بھی مدد دیاکرتی ہیں۔ سو پرانی کہانی ہے، دشمنوں میں گھرے ایک دانشمند کو پریشانی لاحق ہو گئی۔ چار بیٹے تھے، چاروں ایک دوسرے کی ضد، جوان ہونے کو آئے لیکن نا اتفاقی بہت زیادہ بڑھ گئی۔ دانشمند کو فکر رہنے لگی کہ دشمن ان کی نا اتفاقی کا فائدہ اٹھالیں گے۔ ایک دن چاروں کو بلایا اور ان کو ایک ایک چھڑی دے کر اسے توڑنے کو کہا، بازو کی مچھلیاں تازہ تازہ ابھری تھیں۔ چھڑی کو ایک لمحے میں دو ٹکڑے کر دیا، چار چھڑیوں کے آٹھ ٹکڑے ایک گھٹا بنا کر دانشمد نے چاروں بیٹوں کو توڑنے کو کہا۔

سب نے زور لگایا، باری باری بازو کی مچھلیاں آزمائیں۔ نازک سی لکڑی کے ٹکڑے ناقابل شکست دکھائی دیے۔ دانشمند نے بیٹوں کو پاس بلایا اور بولا: میرے بیٹو! دشمن کتنا ہی طاقتور ہو جائے اگر تم متحد ہو تو وہ تمہیں توڑ نہیں سکے گا۔ آپ چاہیں تو یہ کہانی بچوں کو سنا کر دل کو تسلی دے سکتے ہیں کہ آپ نے ان کی تربیت کر دی، چاہیں تو خود اس سے سبق حاصل کریں اور ذاتی و اجتماعی خطرات سے مقابلہ کر لیں۔ جمہوریت ووٹر سے پہلے ہمیں شہری بناتی ہے۔

شہری وہ ہوتا ہے جو اپنے دشمن سے اس وجہ سے بدلہ نہیں لیتا کہ اس نے بدلہ لینے کا حق ریاست کو سونپ دیا ہے۔ ریاست قانون بنا کر ظالم کو سزا دیتی ہے۔ یوں معاشرہ ایک نظم کا پابند رہتا ہے، لوگ ایک دوسرے کو قتل کر کے بدلہ نہیں چکاتے۔ جن معاشروں میں جمہوریت ہے، وہاں ایسے شہری بھی ہیں جو ریاست پر بھروسا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت نہ ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ لوگ بندوقیں اور خنجر اٹھا کر ایک دوسرے سے بدلہ لیتے ہیں، عشروں تک دشمنیاں چلتی ہیں۔

یہ مولا جٹ کون تھا، ایک دشمن دار جس پر فلم بنا کر اسے امر کر دیا گیا۔ وہ ووٹ دیتا تھا لیکن شہری کا درجہ حاصل نہ تھا۔ ہم آپ انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہیں، کبھی خود سے سوال کریں۔ ووٹ ایک طاقت ہے، جتنے ووٹ اتنی طاقت۔ سوچئے گا ہم اپنی طاقت کسے سونپ دیتے ہیں، ان کو، جو ہمارا سودا کر لیتے ہیں۔ جو ہمیں شہری کے حقوق نہیں دیتے اور جو ریاست کو اس قابل نہیں رہنے دیتے کہ وہ ہمیں تحفظ دے سکے۔ گزشتہ برس کے اواخر کی بات ہے۔

فواد چودھری نے پنجاب حکومت کی گورننس پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ صوبائی حکومت نے سالانہ ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ خرچ ہی نہیں کیا۔ رقم جوں کی توں خزانے میں پڑی ہے جبکہ کئی شہروں میں سڑکوں، پلوں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور تفریح گاہوں کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے بیان کو پارٹی میں نا اتفاقی پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا گیا۔ دو صفیں بندھ گئیں، دو دن بیانات داغے گئے، پھر وزیر اعلیٰ نے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کی دستاویز میڈیا کو فراہم کر دی۔

چھ ماہ ہونے کو ہیں، آئندہ بجٹ پیش ہونے کے دن قریب ہیں۔ معلوم ہوا کہ مختص ترقیاتی فنڈز کا پچاس فیصد استعمال نہیں ہو سکا۔ وزیر اعلیٰ کو رپورٹ پیش کی گئی ہے کہ 350 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں سے تاحال صرف 167 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں، وزیر اعظم ہیلتھ سیکٹر کو اپنی ترجیح بتاتے ہیں، پنجاب کے معاملات بھی خود دیکھتے ہیں۔ 23 ارب میں سے صرف 13 ارب خرچ ہوئے۔ زراعت کی ترقی نہ ہونے پر ہم سب روتے ہیں۔ حکومت کے پاس 13 ارب تھے جن میں سے صرف 6 ارب خرچ کیے۔

درختوں کے سونامی کی باتیں ہیں لیکن جنگلات و فشریز کے 4 ارب 71 کروڑ ترقیاتی بجٹ میں سے ایک ارب 80 کروڑ استعمال ہوئے۔ اسے کیا کہیے کہ ماحولیات پر ایک روپے کا ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ جن مریضوں نے علاج کے بغیر دم توڑا، جو بچے سکول اور کالج نہ ہونے سے آگے پڑھ نہ سکے، جو لوگ ٹوٹی سڑکوں پر ہڈیاں تڑوا بیٹھے، وہ حکومت کی اس غفلت کا شکار ہوئے ہیں۔ ریاست خود حرکت کرتی ہے نہ اس کے انسانوں جیسے ہاتھ پاؤں ہوتے ہیں۔

ریاستی عہدیدار ہاتھ پاؤں اور آنکھ ہوتے ہیں۔ ریاست کو سیاسی نمائندے چلاتے ہیں۔ ہمارا ووٹ ماضی میں جس جس کو ملا وہ سب بعدازاں ریاست کی طرف سے کرپٹ، غدار اور نا اہل قرار دیے گئے۔ سوال اٹھتا ہے کہ ریاست کیسے چل رہی ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ جس طرح ریاست چلائی جا رہی ہے اس طرز عمل میں کیا جمہوریت کے نام پر کوئی تکلف پالنے کی ضرورت ہے؟ جو لوگ حکومت بنا کر بیٹھے ہیں ان کے سامنے کوئی ہدف ہی نہیں کہ انہیں کرنا کیا ہے۔

پہلے بھی ایسا ہوتا تھا اب بھی ایسا ہو رہا ہے۔ کورونا ٹیسٹ میں نتیجہ مثبت آنے پر غریب لوگوں کو سرکاری ہسپتال یا لاہور کے ایکسپو سنٹر میں بھرتی کرا دیا جاتا ہے۔ دو دن پہلے ایکسپو سنٹر میں مریضوں نے احتجاج کیا۔ مزنگ کے قرنطینہ سنٹر میں دل اور شوگر کا ایک مریض دہائی دے رہا ہے کہ اسے ادویات نہیں مل رہیں۔ ٹیسٹنگ نظام، قرنطینہ میں سہولیات اور بیس پچیس روز کے بعد بھی علامات ظاہر نہ ہونے والے افراد مدد مدد پکار رہے ہیں۔

سندھ کی بھی سن لیں۔ اٹھارویں ترمیم صنعت کار اور جاگیردار اشرافیہ کا معاہدہ تھا۔ نجکاری، لیبر حقوق کو غصب کرنے، ٹھیکیداری اور دیہاڑی دار نظام کو عام کرنے اور پاکستان کے عوام کو منتشر رکھنے کے نکات پر ن لیگ، پیپلزپارٹی اور ان کے اتحادی متفق تھے اور ہیں۔ تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی ختم کی، صدر کو اسمبلی توڑنے کے اختیار سے تہی کیا اور بھی بہت سی شقیں ہیں جو عوام کی خواہش کے طور پر متعارف کرائی گئیں۔

عملی صورت یہ ہے کہ غریبوں کی نام لیوا پیپلز پارٹی اور اس کے نوجوان چیئرمین کو علم ہی نہیں کہ سندھ میں مزدوروں کا سب سے زیادہ استحصال ہو رہا ہے۔ ہم لکڑی کی چھڑیاں بن کر بکھرے پڑے ہیں، سندھ، پنجاب، بلوچستان، پختونخوا، ہر جگہ ہمیں توڑا جاتا ہے۔ جس جمہوریت سے ہماری پہچان ہے وہ کہتی ہے، ہم ایک نہیں ہو سکتے۔ کیا ہم میں سے کوئی ایسا دانش مند نہیں جو بتا سکے کہ منتشر رہے تو ہم سب ووٹرز کبھی شہری نہ بن سکیں گے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments