علم کی راہ میں متعصبانہ رکاوٹیں


مغربی درسگاہوں میں رائج علمی نظام حالیہ کچھ عرصہ میں، اندرونی و بیرونی، کڑی جانچ پڑتال کی زد میں ہیں۔  ساری دُنیا، خصوصاً عالمی جنوب، میں ایسی علمی تحاریک ابھر رہی ہیں جو ”عالمگیریت“ کے چولے میں صرف یورپی مرکزیت کے حامل خیالات و افکار کی تعلیم و ترویج پر سوال اٹھا رہی ہیں۔  اور اب تو نوبت بہ ایں جا رسید کہ استعمار مخالف مفکرین لفظ ”عالمگیریت“ پر ”تکثیریت“ کو ترجیح دینے لگے ہیں تاکہ علوم میں غیر مغربی آوازوں کے لیے بھی گنجائش پیدا ہو سکے۔

پاکستان میں بھی ’علم‘ کو اس کے جیو پولیٹیکل ماخذات سے جوڑ کر دیکھنے کی روش روزبروز جڑھ پکڑرہی ہے اور اب ہمارے ہاں بھی مغربی علمی سامراجیت کی مختلف ہئیتوں اور شکلوں پر سوال اٹھائے جارہے ہیں  (میں جس یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں وہاں اساتذہ کے مابین مباحثے کے لیے Indigenising Knowledge Forumکے نام سے ایک فورم قائم کیا جا چکا ہے، یہ فورم اُن علمی ہئیتوں کی نشاندہی اور ان میں تبدیلی لانے کے لیے کوشاں ہے جو استعماری دور سے وطن عزیز میں رائج ہیں )۔

علمی حلقوں میں موجود اس ردِ استعمار ماحول میں برائن ڈبلیو وان نورڈن کی کتاب Taking Back Philosophy: A Multicultural Manifestoفلسفے کے میدان میں یورپ و امریکہ کے تعصبات کو بے نقاب کرنے کے سفر کا اہم سنگ میل کہی جا سکتی ہے۔  یہ کتاب مقدمہ قائم کرتی ہے کہ یورپ و امریکہ میں رائج تعلیمی نظاموں کے شعبہ ہائے فلسفہ میں ایسے فلسفے بھی شامل کیے جائیں جو وہاں بہت کم پڑھائے جاتے ہیں۔  صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مصنف نے وہ وجوہات بھی بیان کی ہیں جن کی بنیاد پر ان فلسفوں کو یورپ و امریکہ کے فلسفیانہ تعلیمی نظام میں بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔

کتاب کا ماخذ مئی دو ہزار سولہ میں وان نورڈن اور جے ایل گارفیلڈ، دونوں حضرات بہترین امریکی یونیورسٹیوں میں فلسفہ کے اُستاد ہیں، کا لکھا ہوا ایک مضمون ”اگر فلسفے میں تنوع نہیں تو اسے اس کے حقیقی نام سے پکارا جائے“ بنا۔ یہ مضمون نیو یارک ٹائمز کے فلاسفی بلاگ پر شائع ہوا اور ماہرین فلسفہ نے اس پر بہت ناک بھوں چڑھائی۔ پہلے دن ہی اس مضمون پر آٹھ سو اشخاص نے اپنی رائے کا اظہار کیا، یہ اس بلاگ پر اب تک ظاہرہونے والا سب سے زیادہ ردعمل تھا۔ اپنے مضمون میں وان نورڈن اور گارفیلڈ نے فلسفے کے میدان کو یورپ زدہ قرار دیتے ہوئے تجویز کیا کہ ہر وہ شعبہ فلسفہ جہاں چینی، افریقی، اسلامی یا انڈین فلسفہ نہیں پڑھایا جاتا وہ اپنا نام تبدیل کر کے ”ڈپارٹمنٹ آف یورپین اینڈ امریکن فلاسفی“ رکھ لیں، مضمون نگاروں کے خیال میں یہ ایک طرح سے ان شعبہ جات کے محدودامکانات کا ایماندارانہ اعتراف ہوگا۔

اپنی کتاب ، جس میں گارفیلڈ کا لکھا تعارفی مضمون بھی شامل ہے، وان نورڈن نے نیو یارک ٹائمز کے بلاگ پر سامنے آنے والے مخاصمانہ ردعمل کو بھی ایک دلیل کے طور پر بیان کیا ہے جو اس کے مقدمے کو مزید مضبوط کرتی ہے کہ فلسفے کو یورو-امریکی تعصب سے نجات دلانے کی اشد ضرورت ہے۔

نورڈن نے فلسفے کی تاریخ میں موجود تنگ نظری کی نشاندہی کے لیے کانٹ کے نسل پرستانہ افکار کا جائزہ پیش کیا ہے اور اس کے بعد انہوں نے معاصر فلسفے میں پھیلی ہوئی کانٹ کی اسی وراثت کو آشکار کیا ہے۔  انہوں نے کانٹ کے اس لیکچر سے مثالیں دی ہیں جس میں جرمن فلسفی کہتا ہے کہ سفید فام ہونا ہی اس بات پر دلالت ہے کہ آپ ہر طرح کے مقاصد و خوبیوں سے متّصف ہیں : ہندوکبھی تجریدی تصورات کو نہیں پا سکتے ؛ سیاہ فاموں کو تعلیم صرف غلام بنا کر دی جا سکتی ہے ؛ اور دیسی امریکیوں  (ریڈ انڈینز)  کو تو تعلیم دینا ممکن ہی نہیں، یہ کسی چیز کی پروا نہیں کرتے اور سست ہیں۔  وان نورڈن اس کے بعد کانٹ کی نسل پرستی کو، یعنی اس کا یہ عقیدہ کہ چینی، انڈین، افریقی اور دیسی امریکی لوگ خلقی طور پر ہی فلسفے کے قابل نہیں، معاصر فلسفیوں کے ساتھ جوڑتے ہیں جنہوں نے بلا کسی ردو کد کے اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ چینی، یا انڈین، افریقی یا دیسی امریکی فلسفے کا کوئی وجود نہیں ہے۔

Taking Back Philosophy پانچ ابواب میں تقسیم، ایک پُر لطف کتاب ہے جو قاری کو باندھ کر رکھتی ہے۔  کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسے قارئین کے لیے لکھی گئی ہے جو فلسفے میں دلچسپی تو رکھتے ہیں لیکن اس کے ماہر نہیں ہیں۔  یہ بہت ہی پُرلطف مطالعہ ہے اور اس کے عنوانات بھی بہت دِل کش ہیں : مثال کے طور پر ”ٹرمپ کے فلسفی“ نامی باب میں ”دیواریں بنانے کے جنون“ بارے بات کی گئی ہے۔  اس باب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکہ کی جنوبی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے دیوانگی کو ان فلسفیوں کی وارفتگی سے تشبیہ دی گئی ہے جوبالکل امریکی صدر کی مانند مغربی فلسفے کے گرد بھی ایسی ہی کوئی دیوار کھڑی کرنے کے متمنی ہیں۔  چوتھے باب کا عنوان ہے ”ویلڈر اور فلسفی“ اور اس باب میں دو ہزار سولہ کے صدارتی انتخابی مباحثے کے دوران امیدوار مارکو ربیو کے ان ریمارکس کی توجیہ و تنقید شامل ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”ہمیں فلسفیوں سے زیادہ ویلڈروں کی ضرورت ہے۔ “ اِس باب میں زیر بحث معاملے پر فلسفیانہ انداز میں روشنی ڈال کر، بڑے موثر انداز میں شماریاتی اعداد و شمار کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ فلسفے کی تعلیم مکمل کرنے والے لوگ ویلڈروں سے زیادہ کما سکتے ہیں اور اس امر کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ امریکہ کو  (خاص طور پر)  اور باقی دنیا کو  (عمومی طور پر)  ویلڈروں سے زیادہ فلسفیوں کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی جمہوری شہریت اور تہذیب کی نمو و پرداخت میں ان کی حصہ داری زیادہ ہوتی ہے۔

قارئین کو کتاب میں مغربی و غیر مغربی فلسفیوں کا بہت جاندارتقابل بھی ملے گا۔ مثال کے طور پر آخری باب کی ابتدا میں شامل نوشتے مقالے کے اصل مقصد کو اجاگر کرنے کے لیے دونوں جانب سے تقابلی بیانات پیش کرتے ہیں۔  ان میں سے اگر ایک نوشتہ عظیم یونانی فلسفی سقراط کا ہے : ”ہماری بحث کسی عام معاملے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ طرزِ زندگی کے متعلق ہے“ تو اس کے ساتھ ہی چینی مفکر کنفیوشس کا قول بھی موجود ہے ”راستہ جی لگا کر طے کرو۔ “

ایسے قارئین جو فلسفے کے بنیادی خد و خال سے لا علم ہیں ان کے لیے بھی کتاب میں بہت کچھ ہے۔  مثال کے طور پر ایک حصے میں وان نورڈن نے کوشش کی ہے کہ وہ گیم تھیوری کے نظریے ”سالوڈ گیم“ کا سہارا لے کر فلسفے کی تعریف متعین کریں اور انہوں نے ان الفاظ میں اس کی وضاحت کی ہے ”فلسفہ غیر حل شدہ مگر اہم چیزوں کے متعلق مکالمہ ہے۔ “ وہ اس کے بعد وضاحت کرتے ہیں کہ جب ایک بار فلسفی کسی مسئلے کے حل کے لیے طریقہ کار پر متفق ہو جائیں تو اس کے بعد وہ مسئلہ فلسفے کے دائرے سے نکل کر الگ  نظم بن جاتا ہے۔  یعنی فلکیات، حیاتیات، کیمیا، ریاضی اور طبعیات کا آغاز تو فلسفے کی شاخوں کے طور پر ہوا لیکن اب یہ اس سے جدا گانہ علمی میدان ہیں۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا ہر شعبے کے بارے میں  (عموماً)  اتفاق پیدا ہو چکا ہے کہ ان میدانوں میں کون سی شے کو قابل اعتماد ثبوت سمجھا جائے گا، کون سی دلیل اچھی سمجھی جائے گی اور کیونکر اس حوالے سے پائیدار نتائج اخذ کیے جائیں گے۔  اس کے بعد مصنف پر زور طریقے سے بیان کرتا ہے کہ غیر مغربی تمدنوں میں اب بھی ”اخلاقیات، مابعد الطبیعات، سیاسی فلسفے، منطق اور لسانی فلسفوں میں بہت سی اہم لیکن غیر حل شدہ اشکالات موجود ہیں“ اور خود مغربی فلسفی بھی ان اشکالات کا کوئی خاطر خواہ جواب دینے سے قاصر ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ان معاملات کو علمی مکالمے کا حصہ بنایا جائے۔

وان نورڈن نے انتہائی قابل خواندگی و قابل فہم انداز میں یہ کتاب لکھی ہے اور امریکہ میں فلسفے کو جس انداز میں برتا جاتا ہے اس پر تنقید کے ساتھ ساتھ اس میدان میں توسیع کی ضرورت کو بہت عمدہ طریقے سے نمایاں کیا ہے۔  انہوں نے تمام متعصبانہ رکاوٹوں کو ہٹا دینے کی تجویز دی ہے تاکہ جہاں ہر کوئی ”  (یونانی)  افلاطون کی عبقریت کے نور سے منور ہو“ وہیں وہ ”سوال اٹھانے اور سیکھنے کی راہ“ پر چینی مفکر ژو ژی کی تقلید کر سکے اور ہندوولی بدھ کی ”اعتدال کی راہ ’‘ بارے گفتگو سے بھی مستفید ہوسکے۔

مترجم: ثقلین شوکت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments