سابق صدر غلام اسحاق خان نے کتاب کیوں نہ لکھی؟


پاکستان کی سیاسی گلی میں جس نے بھی قدم رکھا، اسے اس گلی میں چلتے چلتے آخر کار ایک بورڈ ضرور دکھائی دیا جس پر درج تھا ”آگے گلی بند ہے“ ، اس بند گلی میں کھڑے ہوکر اکثر لوگوں نے ایک لمحے میں اپنی گزری ساری زندگی کو ذہن میں دہرایا، کسی نے صرف ذہن میں دہرانے پہ اکتفا کیا تو کسی نے ہمت کر کے اُسے کتابی شکل دے دی۔ وہ تو روزمرہ کے معاملات لکھتے رہے، اپنے دورِ حکومت کی کامیابیاں، خامیاں بیان کرتے رہے، خوشگوار سے تلخ دنوں تک کے احوال قلم بند کرتے رہے، مگر حقیقت میں وہ آزاد پاکستان کی ”تاریخ“ مرتب کر گئے۔

پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر کے دور حکومت کو بیان کرنے کے لیے الطاف گوہر صاحب نے ”ایوب خان۔ فوجی راج کے پہلے دس سال“ نامی کتاب لکھی، ایوب دور کو تفصیلی طور پر بیان کرنے کی قدرت اللہ شہاب صا حب نے اپنی کتاب ”شہاب نامہ“ میں بھی اچھی کوشش کی مگر ایوب خان نے اس سے سے بھی پہلے خودنوشت ”Friends not Masters“ لکھ ڈالی، جس کا اردو ترجمہ ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کے معروف سیاست دان سر سکندر حیات کے فرزند سردار شوکت حیات نے خود نوشت سوانح حیات ”The Nation that Lost its Soul“ کے نام سے لکھی، جس کا اردو ترجمہ ”گم گشتہ قوم“ کے نام سے شائع ہوا۔

پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان نے بھی اپنی کتاب ”تحد یثِ نعمت“ کے نام سے لکھ رکھی ہے۔ قیامِ پاکستان کے چند سال بعد ایک ایسی کتاب بھی لکھی گئی جس کے ڈر نے ایوانوں کو بھی ہلا دیا۔ یہ کتاب محترمہ فاطمہ جناح کی طرف سے ”My Brother“ کے نام سے لکھی گئی جسے شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ کتاب محترمہ فاطمہ جناح کی موت کے کئی سال بعد 1987 ء میں کئی صفحات غائب کر کے چھاپی گئی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ”میرا بھائی“ کے نام سے شائع ہو چکاہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی اس کتاب میں ”جناح، لیاقت“ تضاد کی جانب اشارہ بھی موجود ہے۔

سابق ائیر مارشل اصغر خان نے ”The First Round“ اور ”تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا“ سمیت متعدد کتابیں لکھیں۔ 1965 کی جنگ کے مرکزی کردار جنرل موسیٰ خان نے اپنی پارسائی ثابت کرنے کے لیے دو کتابیں لکھیں، ایک ”My Version“ اور دوسری ”Jawan to General“ کے نام سے شائع ہوئی۔

ایوب خان کا کفر خدا خدا کر کے ٹوٹاتھا کہ ملک پر یحیٰی خان وارد ہوگیا، جن کے دور حکمرانی میں پاکستان ٹوٹ گیا۔ ملک توڑنے والوں کے اشاروں پر چلنے والوں نے بھی، بعد میں احوال کتابی صورت میں لکھے۔ اس حوالے سے ایک بہترین کتاب صدیق سالک نے ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ کے عنوان سے لکھی۔ اسی موضوع پر میجر جنرل خادم حسین راجہ نے ”A Stranger in My Own Country“ اور میجر جنرل راؤ فرمان علی نے ”How Pakistan Got Divided“ کو عنوان بنایا۔

اس حوالے سے سانحہ مشرقی پاکستان کے کمانڈر جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے بھی ”The Betrayal of East Pakistan“ لکھ رکھی ہے۔ اس زمانے کے احوال راؤ رشید نے ”جو میں نے دیکھا“ میں بھی درج کر ر کھے ہیں۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ”افواہ اور حقیقت“ اور ”اگر مجھے قتل کیا گیا“ (مارشل لاء دور میں جس کی اشاعت ممنوع تھی) سمیت متعدد کتابیں انگریزی زبان میں بھی لکھیں۔ جنرل گل حسن نے ”The Last Commander۔ in۔ Chief“ کو اپنی کتاب کا عنوان بنایا۔

بھٹو دور کے معروف سیاستدان کو ثر نیازی کی کتاب ”اور لائن کٹ گئی“ بھی خاصی دلچسپ ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے جی۔ ایم سید نے ”سندھ کی آواز“ اور ”جیسا میں نے دیکھا“ سمیت متعدد کتابیں لکھ رکھی ہیں۔ ولی خان صاحب نے بھی ایک انتہائی متنازعہ کتاب ”Facts are Facts“ کے نام سے لکھ رکھی ہے، جس کا اردو ترجمہ ”حقائق حقائق ہیں“ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ محمد حنیف رامے بھی ”پنجاب کا مقدمہ“ لکھ چکے ہیں۔

ضیاء الحق کو تو خدا نے یہ موقع نہ دیا، مگر بھٹو اور ضیاء دور کے گورو جی روئیداد خان نے ”Pakistan a Slave State“ اور ”Pakistan۔ A Dream Gone Sour“ کے نام سے کتابیں ضرور لکھ رکھی ہیں۔ شجاع نواز کی کتاب ”Crossed Swords“ بھی کافی شہرت رکھتی ہے۔ پاکستان کی واحد خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ”دخترِ مشرق“ ، ”آمریت یا جمہوریت“ اور ”مفاہمت“ سمیت متعدد کتابیں لکھیں۔ بھٹو خاندان کے برعکس ”شریف خاندان“ اس معاملے میں ”نکما“ ثابت ہوا، سوائے ایک کتاب کے جو بیگم کلثوم نواز نے ”جبر اور جمہوریت“ کے عنوان سے لکھی۔ شاید ان کا پڑھنے لکھنے سے تعلق ذرا کم ہے۔ ن لیگ کی دیرینہ کارکن اور معروف سیاستدان سیدہ عابدہ حسین نے ”Power Failure“ کے نام سے ایک کتاب لکھ رکھی ہے، جس کا اردو ترجمہ ”اور بجلی کٹ گئی“ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ایوب خان کے فرزند گوہر ایوب خان نے ”Glimpses into the Corridors of Power“ کے نام سے ایک کتاب لکھ رکھی ہے۔

پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ میاں منظور احمد وٹو بھی ”جرم سیاست“ کے نام سے آپ بیتی لکھ چکے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے انگریزی میں ”In The Line Of Fire“ لکھی جس کا اردو ترجمہ ”سب سے پہلے پاکستان“ کے نام سے شائع ہوا۔ مشرف کے قریبی ساتھی لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کب تک؟“ بھی خاصی شہرت رکھتی ہے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے ”From Banking to the Thorny World of Politics“ لکھی، جسے معروف صحافی رؤف کلاسرا نے ”ڈبہ“ قرار دیا۔

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ”چاہ ِیوسف سے صدا“ اور جاوید ہاشمی ”زندہ تاریخ“ ، ”ہاں میں باغی ہوں“ نامی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ تھوڑا عرصہ قبل سیاست کے ”گورو جی“ چوہدری شجاعت حسین نے ”سچ تو یہ ہے“ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی انگریزی میں ایک کتاب لکھ چکے ہیں جس کا اردو ترجمہ ”میں اور میرا پاکستان“ کے نام سے شائع ہوا۔

یہ سب لکھنے کا خیال تب آیا جب میں حامد میر کی کتاب ”قلم کمان“ دوسری مرتبہ پڑھتے ہوئے اس باب پر پہنچا جس کا عنوان ہے ”غلام اسحاق خان نے کتاب کیوں نہ لکھی“ ، اس حوالے سے حامد میر صاحب لکھتے ہیں : فاروق لغاری کے صاحبزادے اویس لغاری کی دعوت ولیمہ میں شرکت کے لیے غلام اسحاق خان ایوان صدر آئے، کھانے کی میز پر وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے مسکراتے ہوئے غلام اسحاق سے کہاآپ کتاب کیوں نہیں لکھتے؟ غلام اسحاق نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا حوالہ دیا اور کہا کتاب لکھنا مشکل ہے۔

شاید کتاب کی راہ میں اصل رکاوٹ آفیشل سیکرٹ ایکٹ نہیں بلکہ ان کے داماد تھے۔ بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں انور سیف اللہ وفاقی وزیرِ پٹرولیم تھے۔ غلام اسحاق خان کی کتاب بے نظیر کو ناراض کر سکتی تھی اور اس صورت میں ان کے داماد کے لیے مشکلات پید ا ہوسکتی تھیں۔ شاید اسی لئے وہ خاموش رہے۔ چند سال قبل کچھ پرانے دوستوں نے غلام اسحاق کو دوبارہ کتاب لکھنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے دوستوں کو بتایا کہ کتاب کے لیے تما م مواد تیار ہے، لیکن دل نہیں مانتا۔

شاید اس مرتبہ ان کی مجبوری سندھ حکومت میں شامل ان کے داماد عرفان اللہ مروت تھے، وہ اُن کے لیے مشکلات کھڑی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ حامد میر مزید لکھتے ہیں : غلام اسحاق کتاب لکھ دیتے تو شاید اس سوال کا جواب بھی مل جاتا کہ انہوں نے جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل آصف نواز کو آرمی چیف کیوں بنایا جبکہ وزیر اعظم ملتان کے کور کمانڈر جنرل حمید گل کو فوج کا سربراہ بنانا چاہتے تھے۔ کتاب میں انہیں یہ بھی اعتراف کرنا پڑتا کہ حمید گل نے 1988 میں آئی ایس آئی کے سربراہ کے حیثیت سے ایوان صدر کی تائید سے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا، 1990 میں حمید گل نے آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی کے ساتھ مل کر جو انتخابی نتائج حاصل کیے وہ بھی غلام اسحاق خان کی مرضی کے مطابق تھے۔ (حوالہ: ”قلم کمان“ از حامد میر، ص، 40 ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments