بی ٹیم کا کپتان


 \"basir\"ہمارے سکول میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں صحت مند مقابلے کے لیے چھٹی سے دسویں جماعت تک کے طلبا اقبال اور جناح گروپوں میں تقسیم کیے گئے تھے۔ مجھے جناح گروپ ملا۔ ہر گروپ کاصدر دسویں اور سیکرٹری نویں جماعت سے چنا جاتا۔ جب میں نویں جماعت میں پہنچا تو ایک اجلاس میں انچارج استاد نے اعلان کیا کہ عہدے داران کا انتخاب اس دن ہونا تھا اور طلبا اپنے امیدوار نامزد کریں۔ میں حیران بھی ہوا اور پریشان بھی جب میرے کچھ دوستوں نے میرا نام تجویز کر دیا۔ میرے بار بار منع کرنے کے باوجود مجھے نامزد طلبا کے ساتھ الگ بٹھا دیا گیا۔ پھر ہمیں تقریر کرنے کو کہا گیا۔ میرا چونکہ تیسرا یا چوتھا نمبر تھا لہٰذا مجھے نارمل ہونے اور کچھ سوچنے کی مہلت مل گئی۔ مجھے یاد نہیں کہ میری تقریر کس موضوع پر تھی اور میں نے کیا، بلکہ کیا کیا، کہا البتہ کسی مقام پر، گروپ کے نام کی مناسبت سے، محمد علی جناح کی شان میں پر جوش کلمات ادا کئے۔ ووٹنگ کا مر حلہ آیا تو میرا نام پکارے جانے پر اتنے ہاتھ بلند ہوئے کہ استاد محترم نے گننے کی بجائے تولنے میں سہولت جانی۔ میں نے اس کامیابی کو اپنے لیے قائد اعظم کی طرف سے دیا گیا انعام سمجھا۔ اس سے اگلے برس اسی طرح کے ایک اجلاس میں مجھے جناح گروپ کا صدر بنا دیا گیا۔

ایک دن میرے کچھ ہم جماعتوں نے مجھ سے کہا کہ اگرچہ وہ بہت اچھی کرکٹ کھیلتے تھے لیکن انہیں دوسرے سکولوں کے خلاف کھیلے جانے والے میچوں میں شرکت کا موقع نہیں دیا جاتا۔ عابد محبوب شاہ سکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا۔ وہ باسکٹ بال اور جمناسٹک کی ٹیموں کا بھی اہم رکن تھا۔ میرے استفسار پہ اس نے بتایا کہ ٹیم مکمل تھی اورہر پوزیشن پہ کوئی نہ کوئی لڑکا عمدہ کارکردگی دکھا رہا تھا۔ میں نے کہا کہ جو کھلاڑی دو تین میچوں میں اچھا کھیل نہ دکھائے اُس کی جگہ کسی اور کو اپنے ’جوہر‘ دکھانے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ عابد، جو دوستانہ مزاج رکھنے اور دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کرنے والا شخص تھا، اپنی جمی جمائی ٹیم کو ڈسٹرب کر کے کسی نئے کھلاڑی کو آزمانے کا خطرہ مول لینے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس کا موقف بھی صحیح تھا۔ اول الذکر دوستوں کے اصرار پر میںنے تجویز پیش کی کہ وہ ایک بی ٹیم بنائیں اور اے ٹیم کے ساتھ میچ کھیل کے اپنا ’ہنر‘ ثابت کریں۔ تجویز منظور کر لی گئی لیکن بمشکل پانچ سات کھلاڑی مل سکے۔ مجھ سے کہا گیا کہ چونکہ میرا طلبہ سے رابطہ تھااور میں خود بھی کرکٹ کا شوقین تھا لہٰذا میں یہ ٹیم مکمل کروں اور خود بھی نہ صرف کھیلوں بلکہ کپتانی کروں۔ لیجیے صاحب، جو بولے وہی دروازہ کھولے۔ کافی ٹال مٹول کے بعد میں نے سوچا کہ آخر اِس میں ہرج ہی کیا تھا۔یہ کھیل کا میدان تھاجنگ کا نہیں جس میں اترنے کے لیے بہت سوچ بچار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری ہار تو یقینی تھی لیکن اعلیٰ سے اعلیٰ ٹیمیں بھی اپنی شکست کا الزام اس کھیل کے بائی چانس ہونے پہ ڈالتی رہی تھیں۔ ہم بہترین بیٹسمینوں کو آسان ترین گیندوں پہ آﺅٹ ہوتے اور بہترین بولروں کی گیندوں پہ چھکے لگتے دیکھتے رہے تھے۔

 بی ٹیم بن گئی۔ لیکن اے ٹیم کو تو سامان سکول فراہم کرتا تھا، ہم کیا کرتے؟ ٹیم کے ارکان آسانی سے دل چھوڑنے والے نہیں تھے۔ فیصلہ ہوا کہ آپس میں چندہ کر کے بے\"nasir-kazmi\" سروسامانی دور کی جائے۔ انارکلی بازار میں واقع راجہ سپورٹس کے مالک راجہ صاحب ہمارے پڑوسی تھے۔ انہوں نے خصوصی رعایت دی۔ کیل کانٹے سے لیس جب ہم نے پریکٹس شروع کی تو کسی طرف سے آوازآئی: شوق دا کوئی مل نئیںہوندا۔ جب اے ٹیم کو ’دوستانہ‘ میچ کھیلنے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے کہا کہ ہم ان کا وقت اور اپنی عزت خراب نہ کریں۔ اور جب ہم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ’دشمن‘ کو حقیر نہیں جاننا چاہیے تو انہوں نے ہمیں دشمن ماننے سے ہی انکار کر دیا۔

اب ہمارے پاس یہ ڈھنڈوراپیٹنے کے سواکوئی چارہ نہ رہا کہ اے ٹیم ہم سے خائف تھی۔ بہتر کھلاڑی ہونے کے باوجود وہ اس کھیل کے بائی چانس ہونے کی وجہ سے سوچتے تھے کہ وہ ہار بھی سکتے تھے۔ جو لڑکے کرکٹ سے واقف تھے انہوں نے تو ہماری بات پہ کان نہ دھرے لیکن طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس کھیل سے ناواقف ہونے کے باعث ہمارے پروپیگنڈے کا شکار ہوتی گئی۔ اب صورت حال یہ تھی کہ اگر کچھ طلبہ ہمارا مذاق اُڑا رہے تھے تو کچھ اے ٹیم کو بھی چھیڑتے کہ ڈرتے نہیں تو کھیلتے کیوں نہیں؟

تنگ آمد بہ جنگ آمد۔ اے ٹیم کو ہمارا ’چیلنج‘ قبول کرنا پڑا۔ مقررہ دن انہوں نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا، یہ کہہ کر کہ وہ پوری باریاں لیں گے تاکہ ہماری زیادہ سے زیادہ ٹھکائی کر سکیں۔ ہمارے پہلے بیٹنگ کرنے کی صورت میںوہ ہمیں بہت کم سکور پہ آﺅٹ کر لیتے اور پھر ہماری طرف سے پھینکے گئے چند اووروںہی میں ہماری ’سزا‘ ختم ہو جاتی۔ اس کے بعد انہوں نے واقعی ہماری بہت دھنائی کی۔ گراﺅنڈ کے چپے چپے سے گویا ہمارے خلاف سکور اگ رہے تھے۔ دو ایک کے سوا بولروں کے حوصلے پست ہونے میں دیر نہ لگی اور وہ گیند کرنے سے ہچکچانے لگے۔ مجبوراً ہر اگلا اوور مجھے کرانا پڑتا۔ چنانچہ سب سے زیادہ چوکے چھکے میں نے ہی کھائے۔لیکن، چونکہ سب سے زیادہ گیندیںبھی میں نے کرائیں، وکٹیں بھی سب سے زیادہ مجھے ملیں، بیٹسمینوں کے overconfidence کے نتیجے میں برتی جانے والی لاپرواہی کی وجہ سے۔

بیٹنگ کی طرح اے ٹیم کی بولنگ بھی شاندار تھی۔ ہم بمشکل مقررہ ہدف کے نصف سے کچھ زیادہ سکور کر پائے۔ البتہ ہمارے دو کھلاڑیوں نے نہ صرف تماشائیوں کو \"cricket-2\"متاثر کیا بلکہ ’مخالفوں‘ سے بھی داد وصول کی۔ ہمارا ایک ساتھی، سبطین، جو بنیادی طور پر باسکٹ بال کا کھلاڑی تھا، ایک عمدہ آل راونڈر کے طور پر سامنے آیا۔ کچھ عرصہ قبل وہ اپنے ایک اور فن کا بھی مظاہرہ کر چکا تھا۔ یوم والدین کی تقریب میں کچھ دوستوں کی فرمائش اور پھر اساتذہ کے اصرار پر اس نے سازوں کی سنگت کے ساتھ مہدی حسن کا گایا ہوا گانا، ”الٰہی آنسو بھری زندگی کسی کو نہ دے“، اتنے دلنشیں انداز میں سنایا کہ میں آج بھی اپنے حافظے کی مدد سے سن کے سرشار ہو جاتا ہوں۔

میچ کے بعد کئی دن تک ہم شرمندہ شرمندہ ، کچھ ڈھیٹ بنے، سکول آتے رہے۔ ایک دن عابد شاہ نے مجھے کہا، ”تمہاری ٹیم کے دو بیٹسمین اور ایک بولرہمارے ساتھ سکول کی طرف سے اگلا میچ کھیلیں گے۔“

”واقعی؟“ میں نے کہا۔

”ہاں، تمہاری ضد کچھ تو رنگ لائی۔“ وہ ہنستے ہوئے بولا۔

میں نے اپنی ٹیم کا ’ہنگامی‘ اجلاس بلایا اور اراکین کو یہ خوشخبری سنائی۔ ہم نے ایک سیرحاصل گفتگو کے بعد اس تمام کاوش سے یہ نتائج اخذ کئے جوہماری زندگیوں، بالخصوص اگر ہم عملی سیاست میں آتے، ہمارے رہنما اصول ہونا طے پائے:

-1 ہار سے پہلے ہار نہیں ماننی چاہیے۔

-2 ہار یقینی بھی ہو تو بعض اوقات ہار کے دیکھنا\\ دکھانا چاہیے۔کبھی کبھی محض میدان میں اترنا ہی کوئی مقصد پورا کر دیتا ہے۔\"cricket\"

-3 ہر نقصان میں فائدے کی بھی کوئی صورت چھپی ہوتی ہے۔

-4 کوئی بھی جیت مکمل جیت نہیں ہوتی۔

-5 خود اعتمادی کو غرور نہیں سمجھنا چاہئے۔ اگرموخرالذکر کا سر نیچا ہوتا ہے تو اول الذکر کا بول بالا ہوتا ہے۔

 -6کرکٹ بائی چانس نہیں ہوتی۔ زندگی میں کچھ بھی بائی چانس نہیں ہوتا۔

(زیر طبع کتاب ”ایک شاعر کی سیاسی یادیں“ سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments