مذہب پرست اور مذہب بیزار لوگ



پاکستان میں مذہب بیزار اور مذہب پرست لوگوں کے درمیان خلیج اتنی گہری ہوگئی ہے کہ شاید اس کو پاٹنا بہت مشکل ہو کوئی بھی موقع ہو دونوں گروہ تلواریں سونت کر میدان میں آکھڑے ہوتے ہیں، اور ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور تاک تاک کر نشانے لگاتے ہیں۔

اس خلیج کا اندازہ حالیہ وبا میں ہوا کہ یہ کتنی گہری ہے، جونہی کرونا کی وبا چین سے شروع ہوئی تو سب سے پہلے مذہب پرستوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے اور چین کے لوگ چونکہ حرام جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں، چمگادڑ کا سوپ پیتے ہیں، سانپ، بچھو اور جنگلی جانور کھاتے ہیں اس لیے آسمان سے یہ عذاب ان پر نازل ہوا ہے۔ لیکن پھر کچھ عرصے کے بعد جب یہ وبا عالمی بن گئی تو مذہب بیزار لوگوں کو بھی موقع مل گیا اور وہ بھی ہتھیاروں سے لیس ہو کر میدان میں آگئے، انہوں نے بھی طعن و تشنیع کے تیر چلانے شروع کر دیے کہ تم لوگ تو طاہر اور پاکیزہ کھاتے ہو، اور مذہب پر یقین بھی رکھتے ہو، اب کیوں یہ وبا تم کو لگ رہی ہے، اب تم کیوں اس کے علاج کے لئے کافروں کی طرف دیکھ رہے ہو اب ڈھونڈو علاج اور بناؤ ویکسین وغیرہ وغیرہ۔

پتا نہیں کیوں ہم لوگ سائنس اور مذہب کو آپس میں لڑانے پر تلے ہوئے ہیں، مذہب کا اپنا دائرہ اختیار ہے جبکہ سائنس کا اپنا دائرہ عمل ہے، مذہب انسان کی اخلاقی اور روحانی تطہیر کے لئے آیا ہے، وہ انسان کی اخلاقیات کو مخاطب کرتا ہے، وہ بتاتا ہے کہ تم نے کیسا انسانی معاشرہ ترتیب دینا ہے، لوگوں سے کیسے معاملات طے کرنے ہیں، وہ ایک عقیدہ دیتا ہے، ہم اگر مایوس ہوں پریشان ہوں، دل شکستہ ہوں تو یہ ہی ہے جو ہم کو تھامتا ہے، ایک نئی امید دیتا ہے اور مایوسیوں میں گھرنے سے بچاتا ہے۔ یہ ہی ایک ایسی دیوار ہے کہ جب ہم تھک جائیں تو اس کے ساتھ ٹیک لگا سکیں۔

ایک جرمنی فلسفی ریحل ( Rihel) لکھتا ہے کہ انسان تن کر سیدھا کھڑا نہیں رہ سکتا، جب تک ایسی چیز اس کے سامنے نہ ہو جو اس سے بلند تر ہو، وہ کسی بلند چیز کو دیکھنے کے لئے ہی سر اوپر کرتا ہے۔

خدا کی ہستی کے علاوہ انسان سے بلند ہستی کوئی نہیں اور اگر یہ بلندی اس کے سامنے سے ہٹا لی جائے تو پھر اسے اپنے سے نیچے دیکھنا پڑے گا اور جونہی نیچے دیکھے گا انسانیت کی بلندی سے گرنے لگے گا۔

جبکہ اس کے بر عکس سائنس عالم محسوسات کی ثابت حقیقتوں سے ہمیں روشناس کراتا ہے اور مادی زندگی کی بے رحم جبریت کی خبر دیتا ہے، سائنس میں تجربے اور مشاہدے سے حاصل شدہ معلومات کو عقلی اور منطقی دلائل سے پرکھا اور جمع کیا جاتا ہے۔ سائنس ہمیں ثبوت دے گی لیکن عقیدہ نہیں دے سکے گی اور زندگی گزارنے کے لئے صرف ثابت شدہ حقیقتوں کی ضرورت نہیں بلکہ عقیدہ کی بھی ضرورت ہے۔

دونوں کا اپنا اپنا دائرہ عمل ہے اور ہمیں چاہیے کہ دونوں کو اپنے اپنے دائرے میں رہنے دیا جائے، مذہب پرست لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ کسی بھی قدرتی آفت کو عذاب الہی کہنے سے پرہیز کریں اور مذہب بیزار لوگوں سے التجا ہے کہ وہ بھی سائنس کا مذہب سے ٹکراؤ کروانا بند کریں۔

یہ عالم اسباب ہے اور اگر کوئی بھی وبا کوئی بھی آفت کسی سبب کی وجہ سے ہی آئے گی، اور اس کا حل بھی اسباب میں ہی تلاش کیا جائے گا۔ مذہب کا کام یہ ہے کہ اس مسبب الاسباب ہستی سے التجا کرے کہ وہ سبب پیدا کر دے اور سائنس ان اسباب کو بروئے کار لاتے ہوئے کوئی حل تلاش کر لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments