یقینی اور غیر یقینی



”مشکلات ضرور آئی ہیں سئیں۔ ۔ ۔ پھر بھی بہت اچھا نہ سہی مگر اچھا گزارہ ہو ہی جاتی ہے۔“
دیہات سے تعلق رکھنے رکھنے والے ایک سادہ سے شخص کی زبان سے نکلنے والے ان الفاظ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

میری اس سے کوئی جان پہچان نہیں تھی وہ دکان سے اپنی ضرورت کی کچھ چیزیں خرید رہا تھا۔ میں وہاں عمران اکبر کے ساتھ موجودہ حالات کے حوالے سے بات چیت کر رہا تھا یقیناً کورونا کا پھیلاؤ، لاک ڈاؤن اور عوام کو درپیش صورتحال کے علاوہ کون سا ایسا موضوع ہے کہ جس پر بات کی جائے۔ کوئی صنعت کار ہے یا سرمایہ کار، کوئی کاشتکار ہے یا زمیندار، کوئی تاجر ہے یا دکاندا، کوئی مزدور ہے یا ٹھیکیدار، کوئی امیر ہے یا غریب، کوئی کمزور ہے یا طاقتور، کوئی تنخواہ دار ہے یا دیہاڑی دار سب کو کورونا نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔

لاک ڈاؤن ختم ہو رہا ہے یا اس میں توسیع ہورہی ہے، آگے کیا ہونے جا رہا ہے کورونا کے پھیلاؤ کی کیا صورتحال ہے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے، روزگار کا کیا ہوگا عام آدمی کی کیا حالت ہے حکومت کیا کر رہی ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کیا پالیسی ہے، مرکز کیا چاہتا ہے اور صوبے کیا کرنا چاہتے ہیں، سندھ اور وفاق کی کھینچا تانی کیا رخ اختیار کرتی ہے اور آنے والے دنوں میں کیا ہونے جا رہا ہر گھر اور ہر فرد کی یہ کہانی ہے یہی معاملات موضوع بحث ہیں۔

اس وقت ملک میں جہاں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز باعث تشویش ہیں وہاں لاک ڈاؤن میں دی جانے والی نرمی کے دوران عوام کی غیر سنجیدگی اس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک مقامی طور پر ایک سے دوسرے شخص میں وائرس کی منتقلی میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

گو کہ حکومت کی طرف سے بار بار اس بات کا اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ کورونا کیسز میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات ہمارے تخمینوں اور اندازوں سے بہت کم ہے جوکہ باعث اطمینان ہے۔

شاید اسی بات کو لے کر حکومت اگلے چند روز لاک ڈاؤن مزید نرمی لانے کا باضابط فیصلہ کر چکی ہے۔

وفاقی کابینہ نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ اب نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر سے منظوری کے بعد باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔ 10 مئی کے بعد مارکیٹیں اور کاروبار مشروط طور پر کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔

یقیناً پاکستان پہلے ہی جس طرح کے معاشی حالات سے دوچار تھا اس میں اتنے طویل عرصے تک معاشی سرگرمیوں کی بندش کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے گھروں میں بیٹھے تاجروں، صنعت کاروں اور ٹرانسپورٹروں میں بے چینی نظر آرہی ہے ملک بھر میں مختلف شہروں سے تاجروں کی زبردستی دکانیں کھولنے، مقامی انتظامیہ سے ہاتھاپائی کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں جو کہ ایک تشویش ناک پہلو ہے۔

اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انسانی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے مگر یہ حد ہمارے ارد گرد کے حالات اور قریب کے لوگوں کے رویے کی وجہ سے بڑھ یا کم بھی ہو سکتی ہے۔ جبکہ لاک ڈاؤن کے دوران نظر آنے والی عدم برداشت کی سب سے بڑی وجہ ہمارے حکمران خود اور تمام سیاسی جماعتیں ہیں کیونکہ اگر حکومت اور اپوزیشن جھوٹ موٹ کے دعؤوں کے بجائے عملی طور پر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتیں۔

حکومت واضح اور ٹھوس پالیسی اپناتی اور ہر حوالے سے دو ٹوک موقف اختیار کیا جاتا تو لوگوں کی برداشت کا پیمانہ بڑھایا جا سکتا تھا مگر جب حکومت کی اپنی پالیسی ہی مبہم رہی ہو وفاق کہے لاک ڈاؤن نہیں ہو رہا صوبے لاک ڈاؤن کا اعلان کر رہے ہوں وفاقی اور صوبائی وزراء کے بیانات میں ہمیشہ تضاد رہا ہو سندھ اور مرکز تمام صورتحال میں ہمیشہ آمنے سامنے کھڑے نظر آتے ہوں۔ بیانات اور تضادات کی بھرمار میں یقین اور اعتماد کی مٹی پلید ہو چکی ہو قوم کو حوصلہ دینے والوں کے اپنے حوصلے جواب دیتے نظر آتے ہوں اور سب سے بڑھ کر جب عوام کو مدد کی ضرورت ہو اور ریاست خود مدد مانگ رہی ہو تو ایک عام آدمی، ایک مزدور، محنت کش، چھوٹا تاجر اور سفید پوش کتنی دیر تک برداشت کر سکتا ہے۔

مگر ان عام لوگوں کی سوچ کتنی خاص ہوتی ہے لوگ چھوٹے بڑے نہیں ہوتے بلکہ رویے لوگوں کو چھوٹا یا بڑا بناتے ہیں اس دیہاتی کے بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس کا کہنا تھا مشکلات ضرور آئی ہیں سئیں۔ ۔ ۔ پھر بھی بہت اچھا نہ سہی مگر اچھا گزارہ ہو ہی جاتی ہے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے میں مزدوری کرتا تھا سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کر کے پانچ سو روپے گھر لاتا تھا مگر کبھی شکر نہیں کرتا تھا بچے 20 مانگتے میں 30 دے دیتا جہاں 100 خرچ کرنا ہوتے وہاں 130 خرچ کر دیتا۔

مگر کورونا اور لاک ڈاؤن نے زندگی کے ایک نئے رخ سے متعارف کرایا جس میں ایک ٹھہراؤ ہے خوف ہے اور جستجو بھی مگر سب سے بڑھ کر یقین بھی ہے۔ پہلے پندرہ روز تو گھر میں بیٹھا رہا مگر جب لاک ڈاؤن میں کچھ نرمی ہوئی تو باہر نکلا چھوٹے موٹے محنت مزدوری کے کام ملنا شروع ہوئے۔ مگر سب سے بڑھ کر اس میں رب کا شکر شامل ہو گیا احساس نے آنکھ کھولی بے بسی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اب جہاں 100 کی ضرورت ہوتی ہے وہاں 80 سے گزارہ کر لیتا ہوں یہ ایک حقیقت کہ روزگار کم ہوا ہے مگر برکت زیادہ ہوگئی ہے اور یقین بھی پہلے سے کہیں زیادہ پختہ ہوگیا ہے یعنی عام آدمی یقین کے سہارے آگے بڑھ رہا ہے مگر قیادت اور سیاست آج بھی یقین سے کچھ نہیں کہ سکتی یعنی یقینی اور غیر یقینی کے درمیان الجھی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments