غنڈوں میں پھنسی رضیہ



ہماری ریاست دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنی تھی، نظریہ جو اپنے وقت کی ضرورت تھا۔ لیکن ریاست کے قیام کے بعد اسے عوامی، فلاحی، غیر جانبدار اور پراگریسیو سٹیٹ بنائے جانے کے بجائے، ملا، سٹیٹس کو اور سیکیورٹی قیادت کی باندی بنا دیا گیا۔

نظریہ ضرورت کے نام پر بنیاد پرستی، عسکریت پسند نیکی، مذہبی اخلاقی برتری اور غنڈوں میں پھنسی رضیہ ہونے کا بیانیہ گھڑا گیا، پھر اس من گھڑت بیانیے کا چورن اتنا زیادہ بیچا گیا کہ لوگ اس چورن کے عادی ہو گئے۔

ریاست کی مقتدر قوتوں کو لگا کہ شاہ دولے کا چوہا بنی قوم سے ہی اس کا دوام ہے اور یہ عمل تسلسل کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ آج ہمارے بیشتر لوگ کسی حقیقت پسند یا مخالف زاویے کو قبول نہیں کر سکتے کیوں کہ اس صورت میں انہیں شدید نفسیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لاکھ بتایا جائے کہ دنیا یک رنگی نہیں ہے اور صحیح یا غلط سب کا اپنا ہوتا ہے، ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ہوتا ہے، ہمارے لوگ نہیں مانیں گے۔

آج ہمارے معاشرے کی ایک بڑی اکثریت کو سول بالادستی اور جمہوری رویوں سے نفرت ہے جس کے باعث بالادست قوتوں نے نظام کو اپنے شکنجے میں مضبوطی سے کس لیا ہے۔

عوامی بالادستی، سیکولرزم، حقیقت پسندی اور پراگریسیو سوچ رکھنا گناہ کبیرہ ہے اور ایسا کرنا ریاست سے غداری کے زمرے میں آتا ہے۔

بیشک دنیا میں ہزاروں سال سے جاری سلطنت، اقتدار اور غلبے کے کھیل میں جواز تراشنے کے لیے راجدھانیاں اور ریاستیں کبھی تقدیس تو کبھی اخلاقی برتری کے کوور لیتی آئی ہیں۔

کئی رنگ برنگے من گھڑت قصے بنا لیے جاتے ہیں۔
آپ جس بیانیے کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اس سے میل کھاتا معاملہ آپ کو سہی لگتا ہے۔

اس سب کے باوجود آج کی دنیا میں چند کٹر مذہبی اور کمیونسٹ ریاستوں کو چھوڑ کر بہت سی ریاستوں میں مخالف نظریے یا کاؤنٹر نیریٹیو کو کچھ نہ کچھ جگہ دی جاتی ہے۔

کیسی بھی اشرافیہ ہو اور چاہے جتنی بھی مضبوط ہو، مخالف سوچ کو اتنی بے دردی سے نہیں کچلتی ہے کہ اس کا دم ہی گھٹ جائے اور ساری کی ساری عوام مکمل طور پر فکری اپاہج ہو جائے۔

بے شک ہماری ریاست میں راج نیتی کے نت نئے تجربات، انتقامی سیاست، نا انصافی، کرپشن، اقرباء پروری، کارٹلائزیشن، ٹیکس چوری، اندھی لالچ، ناجائز منافع خوری، سہل پسندی اور بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی نے عوام کی ترقی و خوشحالی کا راستہ روک رکھا ہے اور معیشت کو گرواٹ کا شکار کر دیا ہے۔

لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں گھڑا گیا تنگ نظر بیانیہ اتنا قوی ہو چکا ہے کہ ہم میں بحیثیت قوم ایک محدود سوچ کے دائرے سے باہر دیکھنے کی ہمت ہی باقی نہیں رہی۔

اختلاف رائے اور حقیقت پسندی سے ضد ہمارے اعصاب پر اتنی حاوی ہو چکی ہے کہ اب ہمیں فری تھنکنگ اور کاؤنٹر نیریٹیو کی کوئی دوا پلائی ہی نہیں جا سکتی۔ ہمارا مرض لاعلاج ہوتا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments