ریاست مدینہ اور جمہوریت کا مقدمہ


ملک میں بدعنوانی کے خلاف مقدمہ کو جمہوریت کا گلا گھونٹنے کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ سیاسی ہتھکنڈا ملک کی طاقت ور بیوروکریسی اور اسٹبلشمنٹ نے پچاس کی دہائی میں دریافت کیا تھا لیکن اسے صرف فوجی حکومتوں نے ہی نہیں بلکہ بلا تخصیص ہر سیاسی حکومت نے بھی مخالفین کی آواز دبانے کے لئے استعمال کیا ۔ اس طرح احتساب جو کسی بھی جمہوری عمل کا بنیادی عنصر ہونا چاہئے، اسے اسی عمل کو پامال کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

 یہ کہنا اصولی طور پر غلط نہیں ہے کہ اس وقت جمہوریت کے حوالے سے ملک کو جن مشکلات کا سامنا ہے، انہیں پروان چڑھانے میں آمرانہ ادوار کے علاوہ سیاسی لیڈروں اور جماعتوں نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ ایک تو بڑی سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کی ا جارہ داری اور شخصیت پرستی کی صورت حال اور پھر ملک میں جمہوریت کا دعویدار ہونے کے باوجود سیاست دانوں کی طرف سے ایک دوسرے کی حیثیت اور مقبولیت کو تسلیم نہ کرنے کے رویہ نے پاکستان میں جمہوری سفر کو مشکل تر بنادیا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ملک کی مختصر تاریخ میں متعدد افسوسناک سانحات کا سامنا کرنے کے باوجود اس سچائی کو بھی تسلیم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ملک میں جمہوریت کی پرداخت کے لئے سیاسی جماعتوں کو بھی جمہوری طریقہ کار کے مطابق استوار کیا جائے۔ کوئی سیاسی جماعت  انتخابی طریقہ اختیارکرنے اور ارکان کی رائے کے مطابق پارٹی کے مختلف عہدوں پر تقرریوں کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ اس کے لئے نامزدگی اور فرد واحد کے کامل اختیار کوہی واحد قابل عمل طریقہ سمجھ لیا گیا ہے۔

جماعت اسلامی اگرچہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ باقاعدہ انتخابات منعقد کرواتی ہے اور اس کے عہدیداران اور امیر ارکان کی رائے کے مطابق ہی منتخب ہوتے ہیں۔ تاہم ایک تو اس جماعت کا قومی سیاست میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ملک کے بائیس کروڑ لوگوں کی نمائیندگی کا موقع حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن اس کی اپنی لیڈر شپ کو چننے یا پارٹی ڈھانچے میں قیادت حاصل کرنے کا موقع صرف ان ارکان کی صوابدید پر ہی ہوتا ہے جنہیں جماعت کے منشور اور لائحہ عمل کے مطابق برس ہا برس کی خدمات کے بعد رفیق سے رکن بننے کا اعزاز حاصل ہوجائے۔

اس طرح جماعت اسلامی کسی ایسی سیاسی پارٹی کا ڈھانچہ سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوئی جہاں لوگوں کو وسیع بنیاد پر رائے ظاہر کرنے اور پارٹی کی ہئیت، مقاصد یا نقطہ نظر میں تبدیلی لانے کا حق حاصل ہوسکے۔ ایک تو جماعت کے انتخاب کا طریقہ زیادہ سے زیادہ بالواسطہ کہا جاسکتا ہے ، دوسرے جن ارکان کو ووٹ دینے کے قابل سمجھا جاتا ہے، انہیں پہلے سے جماعت کے بنیادی مقاصد سے اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ گویا یہ لوگ جماعت اسلامی کی اصلاح کرنے کے اہل بھی نہیں ہوتے بلکہ انہیں ایک خاص ڈھانچے کا پابند اور خاص نقطہ نظر کا مبلغ بننا پڑتا ہے۔ یہ گروہ کسی بھی طرح ملک کے آئین کے تحت مروج کئے گئے جمہوری نظام میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا۔

عمران خان نے شروع کے برسوں میں تحریک انصاف کو منظم سیاسی جماعت بنانے کا ارادہ ضرور ظاہر کیا تھا تاہم جب جہانگیر ترین کی قیادت میں پارٹی کے دروازے الیکٹ ایبلز کے لئے کھولنے اور ہر دور میں اقتدار میں رہنے والے سیاسی خانوادوں کا خیر مقدم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو عمران خان نے اپنے ہی مقرر کئے ہوئے پارٹی الیکشن کمیشن کو مسترد کردیا اور اس کے سربراہ جسٹس (ر) وجیہ الدین کو کنارہ کش ہونا پڑا۔ یوں بھی یہ وہ دور تھا جب عمران خان برطانیہ اور مغربی ممالک میں نافذ جمہوریت کی مثال دے کر پاکستان کو حقیقی جمہوری معاشرہ بنانے کی بات کیا کرتے تھے۔ پھر ان پر یہ ادراک ہؤا کہ اقتدار تک پہنچنے کے لئے صرف سیاسی خانوادوں کو ہی قبول نہیں کرنا پڑے گا بلکہ جمہوری اصول سے بھی دست کش ہونا پڑے گا۔ لہذا عمران خان بھی مغربی پارلیمانی جمہوریت کی مثالیں دینے کی بجائے سعودی عرب میں نافذ شاہی جبر کو احتساب اور چین کے آمرانہ نظام میں سیاسی انتقام کو ملکی بہتری کا راستہ قرار دینے لگے۔ اب وہ نئے پاکستان میں جمہوریت کی نہیں بلکہ مدینہ ریاست کی بات کرتے ہیں۔ ملک کے مذہبی رہنماؤں کو ہر دور میں برسر اقتدار طبقہ کی کاسہ لیسی کرنا ہوتی ہے ، اس لئے وہ بھی اس دعویٰ کی سچائی کو چیلنج کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اور نہ ہی ملک کا کوئی سیاسی دانشور پارلیمانی نظام اور ریاست مدینہ میں بیعت کے طریقہ کا موازنہ کرتے ہوئے اسے جمہوریت کی کسوٹی پر پرکھنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

تحریک انصاف کی طرف سے جب آئینی اصلاحات یا ملک کے پارلیمانی نظام کے نقائص کی بات کی جاتی ہے تو اسے صرف وقتی سیاسی نعرہ سمجھ کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا بلکہ اسے عمران خان کے مدینہ ریاست کے ماڈل کو نافذ کرنے کی خواہش کی روشنی میں دیکھنا چاہئے۔ فی الوقت صوبوں کو ملنے والے اختیارات کے بعد کمزور مرکز کا مقدمہ پیش کرکے رائے عامہ کو اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی اور این ایف سی ایوارڈ میں قومی وسائل کی تقسیم کے اصول کو تبدیل کرنے کے لئے ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے آج ہی ایک ٹی وی پروگرام میں اس بات کو دہرایا ہے کہ حکومت این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی چاہتی ہے۔ اس تبدیلی کے ذریعے صوبوں کو مالی وسائل میں ان کے متفقہ حصہ سے محروم کرنے کی بات کی جارہی ہے۔

اس صورت حال کواگر تحریک انصاف کی طرف سے وسائل اور اختیارات کو مرکز میں جمع کرنےاور اسی حوالے سے شروع کی گئی صدارتی نظام کی بحث کے تناظر میں دیکھا جائے اور پھر اس خواہش کا مقابلہ عمران خان کے مدینہ ریاست کے منصوبہ سے کیا جائے تو موجودہ حکومت کا اصل سیاسی مقصد سمجھا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے تحت عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کرملکی آئین کی بنیادی جمہوری خصوصیات کو ختم کرنے اور ملک میں شخصی حکومت کا راستہ ہموار کرنے کے لئے عوامی رائے کو تیار کیا جائے گا۔ مذہبی لیڈروں کو مختلف اوقات میں مراعات دے کر اس منصوبہ کی تائید کرنے اور وقت آنے پر اس کے لئے گراؤنڈ ورک کرنے کا فریضہ سونپا جائے گا۔ عمران خان بھلے یہی سمجھتے ہوں کہ اس طرح ان کا اقتدار مستحکم ہوجائے گا اور وہ تاحیات ملک کے بااختیار حاکم بن جائیں گے۔ لیکن اس منصوبہ کی روح کو سمجھنے کے لئے ملک میں سول ملٹری تعلقات کی تاریخ، جمہوریت کے راستے میں کانٹے بونے کے لئے اسٹبلشمنٹ کے کردار اور علاقائی خود مختاری کی بجائے مضبوط مرکز اور اختیارات کے ارتکاز کی خواہش کو سمجھنا ضروری ہے۔ سمجھ لینا چاہئے کہ ملک میں نافذ موجودہ جمہوری نظام کو اسی خواہش اور کوشش کی طرف سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔

ملک میں جمہوریت کے لئے دراصل یہی مزاج سب سے بڑا خطرہ ہے جس کے تحت مل جل کر فیصلے کرنے کا طریقہ درست نہیں ہوتا بلکہ طاقت کا ایک محور و مرکز بے حد ضروری ہوتا ہے۔ مدینہ ریاست کے فلاحی پہلوؤں کا پرچار کرتے ہوئے ملک میں دراصل ایک ایسا سیاسی نظام لانے کی خواہش کو پروان چڑھایا جارہا ہے جس میں سارے اختیارات اسلام آباد میں جمع ہوجائیں اور مقامی سطح پرفیصلے کرنے، علاقائی وسائل پر استحقاق کا مقدمہ قائم کرنے اور طاقت ور صوبوں کے بعد مضبوط بلدیاتی نظام کے ذریعے اختیار کو عام آدمی ترک پہنچانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس مقصد کے لئے کام کرنے والی قوتیں کب اور کیسے یہ تبدیلی لا سکیں گی لیکن ان تبدیلیوں کے دوررس نتائج مرتب ہوں گے اور اس کا اصل نشانہ ملک کا پارلیمانی نظام ہوگا۔ اس لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ این ایف سی ایوارڈ یا اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے شروع کئے گئے مباحث ٹی وی پروگراموں یا اخباری کالموں کی بجائے پارلیمنٹ میں ہو سکیں۔ اس کے علاوہ ملک میں جمہوریت کی بحث میں عقیدہ اور مذہبی علامات کے استعمال کو مسترد کیا جائے۔

سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت نہ لانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہؤا ہے کہ یہ پارٹیاں اپنی اپنی جگہ پر ایک خاندان یا فرد واحد کی خواہشات اور ضرورتوں کی تکمیل کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی کو سیاسی نعرہ بنادیا گیا ہے حالانکہ انفرادی یا ادارہ جاتی کرپشن کا سراغ لگانا اور ملوث افراد کو سزا دلوانا متعلقہ اداروں اور عدالتوں کا کام ہونا چاہئے۔ کرپشن اور سیاست کے تال میل سے ہی منتخب لیڈروں کو عسکری قیادت کی مرضی کا محتاج بنایا جاتا ہے اور سیاست دان شہباز شریف کی طرح عوام کے ووٹ پر انحصار کرنے کی بجائے مقتدر حلقوں کے ساتھ ساز باز کو ہی اقتدار کی بساط پر کامیابی کی وجہ سمجھنے لگتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت کی کامیابی کے لئے اس تاثر کو ختم کرنا ضروری ہے کہ کوئی شخص عوام کی مرضی سے نہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ کی تائد سے حکومت قائم کرسکتا ہے۔

اقتدار تک پہنچنے کے اسی شیطانی چکر نے ہر دور میں جمہوریت کو زخمی کیا ہے ۔ سیاسی منشور پر مباحث اور غور کی بجائے لین دین، مصالحت، طاقت ور حلقوں کے درمیان اختیار کے توازن کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔ جب تک سیاسی رسہ کشی کا مقصد اقتدار کا حصول ہو گا اور ملکی آئین کے تقاضوں اور عوامی خواہشات کی تکمیل کا مقصد فراموش کیا جائے گا، ملک میں جمہوریت کے سادہ مقدمہ کو نقصان پہنچتا رہے گا۔ یعنی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے لوگ، ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے امور حکومت سرانجام دیں۔ آزادی رائے اور سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لئے کرپشن کے الزامات سمیت ہمہ قسم ہتھکنڈوں کو مسترد کیا جائے۔ نظام میں شفافیت لانا ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ جو حکومت یہ کام نہ کرسکے، اس کا مقدمہ عوامی عدالت میں پیش ہونا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments