مافیاز کا ملک


اس آزمائش کی گھڑی میں بھی ایک مافیا ایسا ہے جو صرف اپنے پیٹ پہ ہاتھ پھیر رہا ہے ہے۔ ویسے تو پرائیویٹ سکول مالکان کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ بھاری فیسیں بٹورنے کے باوجود جو تنخواہ پرائیویٹ سکول ٹیچرز کو دی جاتی ہے وہ درجہ چہارم کے ملازم اور دیہاڑی دار مزدور سے بھی انتہائی کم ہیں۔ میں جب بات کر رہا ہوں تو میں اس میں پی ای ایف کے سکول مالکان کو بھی شامل کر رہا ہوں۔ کیونکہ اکثر اضلاع میں پی ای ایف کے سکولز بھی اسی مافیا کے لوگوں نے خریدے ہوئے ہیں۔

میں ایسے کتنے سکولوں کو جانتا ہوں جن کی ماہانہ فیس دو ہزار سے اوپر ہے، پانچ ہزار روپے داخلہ فیس (اب اللہ ہی اس مافیا سے پوچھے کہ یہ کس مد میں لی جاتی ہے کیا داخلے پہ اس قدر خرچ آتا ہے؟ کیونکہ ہماری حکومت میں تو یہ سکت نہیں کہ پوچھ سکے۔ کیونکہ یہی مافیا حکومت کا حصہ بھی ہے ) ۔ اور ایک نئی فیس کا پتہ چلا ہے۔ وہ ہے سالانہ فیس۔ اب بندہ پوچھے کہ جب ماہانہ فیس لی جارہی ہے تو سالانہ فیس کا کیا جواز بنتا ہے؟ اتنی بھاری اور ناجائز فیسیں بٹورنے والا یہ مافیا جب اپنے اساتذہ کو تنخواہ دینے پہ آتا ہے تو انھیں دس ہزار بھی بہت بڑی رقم لگ رہی ہوتی ہے۔

پانچ ہزار سے شروع ہونے والی یہ تنخواہیں پندرہ ہزار پہ ختم ہو جاتی ہیں۔ کام لینے کا یہ عالم ہے کہ ان ٹیچرز کی ہڈیوں میں سے رس بھی نچوڑ لیا جاتا ہے۔ اور اس دو ٹکے کی نوکری کی خاطر ان کی ذاتی، سماجی اور بعض کیسز میں عائلی زندگی تک اجیرن بن کے رہ جاتی ہے۔

اور اس حمام میں نیک بد، داڑھی ٹوپی والے، کلین شیو، پانچ وقت کے نمازی اور بے نماز، وطن کا درد رکھنے والے اور باغی سب کے سب ننگے ہیں۔

اب جبکہ ابتلا کا دور آیا ہے اور ہمیں بطور انسان یہ چاہیے تھا کہ ہم کسی کا چولہا نہ بجھنے دیتے ایسے میں اس مافیا نے اعلان کر دیا ہے کہ ہم سٹاف کو تنخواہیں نہیں دے سکتے اور دوسری طرف والدین کو فیسوں کی ادائیگی کے پیغامات بھیجے جا رہے ہیں۔ ارے بھائی اگر نہ پڑھانے کی تنخواہ نہیں دے سکتے تو نہ پڑھانے کی فیس کس مد میں بٹور رہے ہو۔

اس آزمائش کی گھڑی میں اگر اس مافیا کے دل میں اپنے اساتذہ کا ہلکا سا بھی درد ہوتا تو کہتے بھلے چھٹیاں ہیں مگر ہم اپنے اساتذہ کا چولہا نہیں بجھنے دیں گے۔ ہم اس آزمائش کی گھڑی میں اساتذہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ آپ ہماری ٹیم ہیں۔ آپ کی وجہ سے ہم لاکھوں کماتے ہیں۔ کوئی بات نہیں اب کے ہم آپ کی مدد کریں گے۔ وہ رقم جو ان اساتذہ نے اس مافیا کو کما کر دی جو بنکوں میں پڑی رہے گی اس میں سے اگر چڑیا کی چونچ کے برابر کچھ نکل بھی جاتا تو کیا سمندر میں کیا کمی آجاتی۔ مگر اس مافیا نے روایتی مافیا ہونے کا ثبوت دیا۔

بدقسمتی سے یہ مافیاز کا ملک ہے۔ اور مافیاز کے ہاتھوں ہی یرغمال ہے۔ بھلے وہ پرائیویٹ سکولوں کا مافیا ہو، پرائیویٹ ہسپتالوں کا مافیا ہو، ذخیرہ اندوزوں کا مافیا ہو یا ملاوٹ کرنے والوں کا۔ ان مافیاز کو کھلی چھٹی ہے۔ اول تو یہی مافیاز حکومت میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھ ہماری سوچ سے بھی بہت زیادہ لمبے ہیں۔

اور اگر کوئی ان مافیاز کو چیلنج کر بھی دے تو اس کی اپنی بقا داؤ پہ لگ جاتی ہے، یہ اسے ذلیل و خوار کر کے رکھ دیتے ہیں۔

عوام کی بدقسمتی کہ ان مافیاز کو جھیلنا ہے۔ اور ان کے نہ صرف پیٹ بھرنے ہیں، بلکہ ان کے بینک بھی بھرنے ہیں۔ ان کی بیگمات کے گلے اور بازو جس سونے سے لدے ہوتے ہیں وہ دراصل کسی غریب کا خون پسینہ ہوتا ہے۔ اور غریب کو اس کی قیمت چکانی ہے۔

میں حیران ہوں کہ اکاونٹس بھرے پڑے ہیں اور اتنا ظرف نہیں ہے کہ اس آزمائش کی گھڑی میں اپنوں کو یاد رکھا جائے۔
خاکم بدہن اگر بلا سے نہ بچ پائے تو وہ بنکوں میں پڑا پیسہ کس کام کا۔

حکومت سے درخواست ہے کہ پرائیویٹ سکول مالکان کو سختی سے پابند کرے کہ وہ اپنے اساتذہ کرام کو کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ہونے والی تعطیلات کی تنخواہ بھی ادا کریں اور اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ڈپٹی ایجوکیشن آفیسرز اور اے ای اوز پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دی جائیں کہ کہیں پرائیویٹ مالکان نے پرائیویٹ ٹیچرز کی چھٹیوں کی تنخواہ تو نہیں کاٹی۔ یا پھر اس بات پر پابند کرے کہ اڑھائی ماہ کی فیس نہیں لی جائے گی۔

شاہد رضوان
Latest posts by شاہد رضوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments