بلوچستان کے مسائل: اسٹیبلشمنٹ یا ہمارے محبوب رہنمائے کرام


انسانی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ آسان عمل کو ترجیح دیتا ہے۔ اسے نفسیات کے علم میں بھیڑ چال کی سوچ یا herd mentality کہا جاتا ہے۔ بھیڑ چال یا ہرڈ مینٹلی انسانوں اور بہت سے حیوانوں میں قدرتی طور پر پائی جاتی ہے اور ایسا کہا جاتا ہے کہ بہت سے مشکل اوقات میں بھیڑ چال کی سوچ انسان اور دیگر حیاتیات کی بقاء کی باعث بھی بنی کہ جہاں انفرادی طور پر کسی مشکل کا سامنا کرنا ناممکن ہو وہاں اجتماع کے ذریعے بہت سے مسائل کو حل کیا گیا۔

شاید اسی لیے قوم، قبیلے اور گروہ کی تشکیل کی گئی۔ لیکن یہ بھیڑ چال کی سوچ بسا اوقات ہماری مشکلات کی حل میں غیر ضروری طوالت کی وجہ بنتی ہے۔ کیونکہ معاملے کے تہیہ تک پہنچے کے لیے ہم نئے طریقہ سے سوچنے کے بجائے معاشرے میں پھیلائی ہوہی اجتماعی سوچ کا حصہ بنتے ہیں۔ اس طرز عمل کا احساس ہمیں اس لیے نہیں ہوتا کہ یہ ہماری لاشعور کا عمل ہوتا ہے جسے نفسیات کے علم میں ”فہم کی غلطی“ یا غلط فہمی cognitive error کہا جاتا ہے اس قسم کے 180 cognitive errors ہیں جن میں اہل فہم مبتلا ہوسکتے ہیں اب یہ چونکہ ہمارے لاشعور میں ہوتے ہیں تو ہمیں علم نہیں ہوتا کہ ہم کب یہ غلطی کررہے ہیں۔

یہ فہم کی غلطیاں مذہب اور قومیت کے حوالے سے اور بھی پختہ ہوتی ہیں۔ ان معاملات میں ہم محدود اور لگی بندھی سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے اس حوالے سے اگر متضاد خیال سامنے آئے تو ہم لاشعوری طور پر اپنی لگی بندھی تصور کا دفاع کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور نیے سوچ کے حامل لوگ ہماری دھتکار کے اہل ٹھہرتے ہیں۔ بلوچستان میں ہر مسئلہ کی وجہ پنجاب یا اسٹیبلشمنٹ کو قرار دینے کی روایت کو اس حد تک پختہ کردیا گیا ہے کہ لوگوں کی سوچ کہیں اور جاتی ہی نہیں ہے۔

کچھ دنوں پہلے شاہد آفریدی صاحب بلوچستان کے دورے پر تشریف لائے تو ان کے منہ سے دقیانوسی یا stereotype الفاظ نکلے کہ بلوچستان کی پسماندگی کے ذمہ دار یہاں کے سردار، نواب ہیں۔ ان کے منہ سے نکلے ان الفاظ کو بلوچستان کے اہل دانش لے اڑے کہ شاید اسٹیبلشمنٹ ان کو سیاسی طور پر لانچ کر نا چاہتی ہے اور انہوں نے ہی یہ الفاظ ان کے منہ میں ٹھونسے ہوں گے وگرنہ بلوچستان کے ان علاقوں کی حالت دگرگوں کیوں ہے جہاں سردار نواب کا وجود نہیں ہے۔

ان متوسط طبقے کے نمائندہ حامل علاقوں کو تو ترقی کرنا چاہیے تھا۔ اگر ایسا نہیں ہوسکا تو یقینی طور پر ہماری پسماندگی کے ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کی کاریگری سے انکار ممکن نہیں۔ یقیناً طاقتور ہونے کی وجہ سے ان کا بھی اس کار خیر میں حصہ بقدر جثہ ہوگا لیکن کیا ہم نے کبھی خود کے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی ہے۔ کیا ہم میں اتنا شعور ہے کہ ایک بار اپنے لاشعور میں بسے تعصب سے اوپر اٹھ کر اپنے قوم پرست اور مذہب پرست رہنماؤں سے سوال کرسکیں کہ کم از کم پچھلے 20 سال آپ لوگ اقتدار میں کسی نہ کسی طرح شامل رہے ہیں تو بلوچستان کی یہ حالت کیوں۔

اس کے جواب میں پھر سے ایک stereotype عذر پیش کی جائے کہ ہمارے پاس اقتدار تو تھا لیکن اختیار نہیں تھا۔ ہوسکتا ہے کہ واقعی سیاسی اختیار نہیں ہو لیکن کیا مالی اختیار بھی نہیں تھا۔ لیکن جناب! پچھلے 20 سال میں ہونے والے کرپشن کو دیکھ کر تو ایسا نہیں لگتا۔ کیا ہمارے محبوب ”رہنماء کرام“ کسی طور پر پنجاب کے سیاستدانوں سے مالی طور پر کم ہیں، حالانکہ ان کے کاروبار کا بھی کوئی خاص تفصیل نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ایک محبوب رہنماء ہی پچھلے یا موجودہ دور میں ہونے والے کرپشن کی  کوۃ ہی، مشکل کی اس گھڑی میں اہل بلوچستان کی مدد کے لیے مختص کرتا تو شاید ہمیں شاہد آفریدی کی باتیں نہیں سننی پڑتیں۔

ہر انسان کو یقیناً اپنا رائے رکھنے کا حق ہے اور میری رائے یہ ہے کہ جب تک ہم خوداحتسابی کا عمل شروع نہیں کریں گے اور اپنے خود ساختہ محبوب راہنماؤں سے سوال نہیں کریں گے کہ آپ کے اقتدار میں بلوچستان کے مسائل تو حل نہیں ہوتے ہیں مگر آپ لوگوں کی مالی حیثیت میں واضح فرق کیسے آتا ہے۔ وگرنہ قوم پرستی اور علاقہ پرستی کے نعرے محض ہمیں لوٹنے کے لیے ہی لگائے جائے گیں۔ اور ہم اور ہماری نسلیں یونہی پنجاب اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بدگوئی کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments