عام پاکستانی اور آم پاکستانی


جرمنی میں مقیم وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ایک دوست سے مختلف پھلوں کی افادیت پر بات ہو رہی تھی، یکایک انکشاف ہوا کہ انہوں نے آج تک کبھی آم کھایا ہی نہیں۔ ہمارے ہاں جیسے اندرون ملک کہا جاتا ہے کہ ”جنے لاہور نہیں ویکھیا او جمیا ہی نہیں“ (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا) ویسے ہی بیرون ملک میں تو کہتا ہوں، ”جنے امب نہیں چٙھکیا او جمیا ہی نہیں“ (جس نے آم نہیں کھایا وہ پیدا ہی نہیں ہوا) ۔ مجھے حیران دیکھ کر وہ کافی پریشان ہوئے اور کچھ دن بعد مجھے وٹس ایپ پر پیغام آیا کہ انہوں نے آم تناول فرما لیا ہے۔

میں نے جواب دیا ”ہیپی بی لیٹڈ برتھ ڈے“ ۔ تاہم ساتھ ہی ایک سبز رنگ والا برازیلی نسل آم کی تصویر بھیج دی جس کو آم تو قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا البتہ ”آم کی توہین“ ضرور کہا جا سکتا ہے۔ جرمنی میں پاکستانی نسل کا آم نہیں ملتا، ملتا بھی ہو تو کم از کم مجھ غریب کو نصیب نہیں ہوا۔ یہاں ہرے رنگ کا موٹا آم ہوتا ہے اور اس کی گھٹلی اپنے مقرر حد سے پھول کر اتنا تجاوز کر چکی ہوتی ہے جتنا پنجاب پولیس کا پیٹ بیلٹ سے آگے نکل چکا ہوتا ہے۔

چھلکا اتارو تو فوراً گھٹلی شروع ہو جاتی ہے، ایسا لگتا ہے کسی نے گھٹلی پر فقط زرد رنگ کی لپائی کی ہو۔ عام انسان غصے سے لال پیلا ہو جاتا ہے لیکن آم پیلا ہو کر میٹھا ہو جاتا ہے، لیکن اس آم کو دیکھ کر لگتا ہے کسی نے پیلا ہونے سے پہلے ہی عزت افزائی کر کے طبعیت ہری بھری کر دی ہو اور کمبخت تب ناراض ہو کر ویسے کا ویسا ہی رہ گیا ہو۔ اگر آموں کی حکومت ہوتی تو یقین جانئیے اس آم کو ”انسانی حقوق“ کی وزارت سونپی جاتی تاکہ کسی بھی پامالی کو یہ اپنے آہنی ہاتھوں سے بآسانی کچل سکے۔ ہم پاکستانی بھلے ترقی میں دنیا سے پیچھے ہو، لیکن پاکستانی آم، عام پاکستانی کو بھی دوسروں کی نسبت خاص بنا دیتا ہے، یہاں کم از کم ہمارا سکہ چلتا ہے۔ اس لیے بقول اکبر الہ آبادی۔ ۔ ۔

نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجیے
اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے

ہمارے علاقے یہ بات مشہور تھی کہ ایک افغان باشندے اور ایک پاکستانی کے درمیان بہترین میوہ جات پر مقابلہ ہوا تو افغانی نے قندھاری انار، تربوز، انگور، بادام، کشمش، چلغوزے اور نجانے کون کون سے پھل اور میوے نہیں گنوا دیے لیکن پاکستانی صاحب نے ان سب کے مقابلے نہایت اطمینان سے فقط ”آم“ کہہ کر قصہ تمام کر دیا۔ اگرچہ پاکستان میں آم کے علاوہ بھی کافی اعلٰی درجہ کے پھل پیدا ہوتے ہیں لیکن مقابلہ کرنے والا شخص پیپلز پارٹی کا جیالا لگتا تھا جس نے ”ایک زرداری سب پر بھاری“ سے متاثر ہو کر ”ایک آم اور کام تمام“ کر دیا۔ بقول غالب۔

سو اناج کے جو ہے مقلوب جاں
نہ واں آم پائیں نہ انگور پائیں

ہم پشتونوں کے لئے تو ہر قسم کا آم بس آم ہی ہوتا ہے بلکہ ہمارے آفریدی بھائی تو گوشت کے اس قدر شوقین ہیں کہ وہ تو فروٹ میں بھی ”کباب“ پسند کرتے ہیں۔ چونکہ یہ سندھ اور پنجاب کی پیداوار ہے لہٰذہ وہاں نا صرف اس کے ذات پات بلکہ صحت مند اور لنگڑے آم تک پاے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ الہ آباد سے اکبر نے علامہ اقبال کو لنگڑے آموں کا ایک پارسل بھیجا۔ اقبال نے آموں کے بخیریت پہنچنے پر شکریہ کا خط بمعہ رسید بھیجا۔ اکبر الہ آبادی کو الہ آباد سے لاہور تک بحفاظت آم پہنچنے پر بہت تعجب ہوا، کیونکہ اس زمانے میں ایسے پارسلوں کا اتنا بڑا سفر اور وہ بھی بخیریت ایک معجزہ ہی تھا۔ اکبر نے ڈاکٹر اقبال کے خط کا جواب اور اپنے تعجب کا اظہار اس شعر میں کچھ یوں کیا۔

اثر یہ تیرے انفاس مسیحائی کا ہے اکبرؔ
الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا

لیکن جرمنی میں ملنے والے اس برازیلی آم کو دیکھ کر اکبر کیا شاید غالب بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے کہ آم میں دو خصوصیات ہونی چاہیے ایک یہ کہ میٹھا ہو اور دوسرا یہ کہ بہت نہ بھی ہو کم از کم بیہودہ نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مرزا غالب گلی میں بیٹھے آم کھا رہے تھے ان کے پاس ان کا ایک دوست بھی بیٹھا تھا جو کہ آم نہیں کھاتا تھا اسی وقت وہاں سے ایک گدھے کا گزر ہوا تو غالب نے آم کے چھلکے گدھے کے آگے پھینک دیے گدھے نے چھلکوں کو سونگھا اور چلتا بنا تو غالب کے دوست نے سینہ پھلا کر کہا دیکھا مرزا گدھا بھی آم نہیں کھاتا تو مرزا نے بڑے اطمینان سے کہا ”بیشک گدھا آم نہیں کھاتا“ ۔

شکر ہے یہ واقعہ غالب کے ساتھ یورپ کے کسی گلی میں پیش نہیں آیا، ورنہ پورا آم ہی گدھے کے آگے پھینک کر کہتے ”بیشک گدھا ہی یہ آم کھاتا ہے“ ۔ یورپ کا جام غالب کے اشعار میں سرور تو ضرور پیدا کر دیتا لیکن ایسا آم کھا کر وہ شرینی نہ ہوتی جس نے غالب کے ہر شعر کو شہرت کے بام عروج پر پہنچا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ذائقے اور طعام بھی بدلتے رہتے ہیں، غالب کے زمانے میں گدھے آم نہیں کھاتے تھے، لیکن اب تو عام پاکستانی آم کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments